جو لوگ کہتے ہیں کہ ردیف و قافیہ کنٹرولنگ کا کام کرتے ہیں یہ بات ہزار میں سے کسی ایک قادر الکلام شاعر کے حق میں سچ ہوسکتی ہے لیکن ننانوے اشاریہ ننانوے فیصد جعلی شاعروں پر شاعری کے نزول کی نوبت نہیں آتی ۔ وہ زندگی بھر لفظوں کی ہیرا پھیری سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔
اردو روایتی اور کلاسیکی شاعری انہیں خودساختہ اور سکہ بند اصولوں کی پابندی کی وجہہ سے گرومنگ کے مرحلہ میں داخل نہیں ہوسکی ہے ۔ یہی وجہہ ہے اس عہد میں کوئی شاعر ممتاز و منفرد رتبہ کو نہیں پہنچ سکا۔
وہ فقط عادتاً شاعری کرتے ہیں ۔بیچارے زندگی بھر چبھائے ہوئے نوالے چبھاتے رہیں ۔ البتہ اس جگالی سے انکو کچھ آرام ملتا ہے
حقیقی شاعری Taboos سے بہت آگے کی بات ہے۔ میں فوک اور گانے کی بھی بات نہیں کررہا ہوں وہاں بھی روایت ہی روایت اور عامیانہ پن کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا ۔ ہماری روایتی شاعری میں وہی پرانےفریمز یعنی چوکھٹے موجودہیں جن میں ہمارے شاعر وقتاً فقتاً لفظوں کامسالہ بھرتے رہتے ہیں ۔انکی تخلیقات قطاردر قطار قبروں کے کا منظر پیش کرتی ہے ہر جگہ بس عمومیت کے سناٹے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ نیا پرانا مسالہ ادھر ادھر توڑ پھوڑکرکے انہیں سانچوں میں دوبارہ بھرا جارہا ہے ۔ البتہ حاضری لگ جاتی ہے۔ روزینہ بھی شاید کچھ نہ کچھ مل جاتا ہوگا۔
No Profit No Loss
پر ریسائکلنگ کا دھندا یا دکان چل رہی ہے۔
یاد رہے مشاعرہ کی روایت بھی ایک طرح کی ہلڑ بازی ہے۔ در اصل مشاعرہ سٹیج پرفارمینس اور اداکاری کے زمرہ میں آتا ہے بعض لوگ ادا کاری اور گلوکاری سے عام قارئین کے جزبات برانگیختہ کرکے شہرت کمال لیتے لیکن ان سے بڑی شاعری نہیں ہو پاتی ۔ وہ عوام کی واہ واہ سے مغالطے کے شکار ہوجاتے ہیں ۔ عوام الناس ہمیشہ سبک اور ہلکی اور زود فہم شاعری کو پسند کرتا ہے ۔اگر قبولیت عام ہی بڑے فن کی پہچان ہوتی تو داغ و حالی ہی اردو کے سب سے بڑے شعرا تصور کئے جاتے مگر کسی بھی عہد میں ایسا نہیں ہوا ۔
کلاسیکی شاعری میں ردیف قافیہ کا اہتمام در اصل سلسلۂ آوود ہے اس سے پہلے کہ شاعر کا خیال کسی نئے اور نادر خیال کی طرف جائے قافیہ گدا کی طرح راستہ روک لیتا ہے بیچارہ شاعر مجبور ہوجاتا ہے۔
ع
قافیہ کی بند گلیوں کا گدا گر دیا
ابھی قافیہ کا مسئلہ سلجھانے نہیں پاتا تو پیچھے سے ردیف ممیانے لگتی ہے۔۔۔ میرا بھی کچھ سوچو۔۔۔۔ایسی صورت جب پیش آتی ہے تو بیچارہ شاعرہ یا شاعر گھر کاروبار چھوڑ کر ردیفوں اور قوافی کی تلاش میں اپنا سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے ۔
یہ پر تکلف شاعری بیچارے کو سوسائٹی کا ناکام اور نالائق افراد بنادیتی ہے اور تنگ پڑ کر بعض شاعر ادھر ادھر سے نقل مارنا شروع کردیتے ہیں چوریوں کے علاوہ استاتذہ کی جوتیاں سیدھی کرتے ہیں لیکن پھر بھی مسئلہ حل نہیں ہو پاتا کونکہ استاد شاعر بھی اسی بھنور میں پھنسا ہوتا ۔
اردو کی روایتی شاعری کے منظر نامہ پر جعفر زٹلی کا مصرع یاد آتا ہے۔
ع
کشتئ جعفر زٹلّی ڈُبکوں ڈُبکوں میکند
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...