شدید گرمی اورحبس میں پسینے سے شرابور میں، بس میں بیٹھی تھی۔ بس ایک اسٹاپ پر رکی تو۔ پانچ چھ مختلف عمروں کی عورتیں سوار ہو گئیں۔ ان کے پسینے کی ناگوار بو ساری بس میں پھیل گئی۔ وہ ساری عورتیں اپنے مخصوص لباس کی وجہ سے تھر کے علاقے سے لگتی تھیں۔ ان سب کے ہاتھوں میں کہنیوں تک پلاسٹک کی چوڑیاں پڑی تھیں۔ لمبے لمبے ریشمین گھاگرے پہنے ہوئے تھیں۔ ہر عورت، لڑکی اور بچی کی گود میں ہر عمر کا بچہ تھا۔ایک لڑکی گود میں بچہ لیے میرے قریب بیٹھ گئی۔ پندرہ سولہ برس کا سن ہو گا اس کا۔ وہ سوکھا سا بچہ جس کی آنکھیں اور پیٹ ابلا پڑ رہا تھا۔ مسلسل رو رہا تھا۔ وہ اسے گود میں لٹائے اپنی ایک ٹانگ زور زور سے ہلانے لگی۔ مگر بچہ بکھرے جارہا تھا۔
کیوں رو رہا ہے۔ میں نے پوچھا
اسے پیاس لگی ہے۔
میں نے اپنے بیگ سے پانی کی بوتل نکال کر اسے دے دی۔ لڑکی نے شکر گزاری سے مجھے دیکھا اور بچے کو گود میں بٹھا کر پانی پلانے لگی دوسرے بچے بھی پانی مانگنے لگے۔ تھوڑی دیر میں سب کو تھوڑا تھوڑا پانی پلا کر اس نے خالی بوتل میری طرف بڑھائی میں نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا تو اس نے اپنی کمر سے لٹکے کپڑے کے تھیلے میں اسے ڈال دیا۔
کڑی گرمی میں ان کا لباس اورکلائی سے لے کر کہنیوں تک دونوں ہاتھوں میں پھنسی پھنسی ڈھیروں چوڑیاں مجھے کوفت میں مبتلا کر رہی تھیں۔
میں نے لڑکی سے پوچھا۔
ان چو ڑیوں میں گرمی نہیں لگتی۔
کہنے لگی بہت گرمی لگتی ہے۔ کاٹتی ہیں ہم کو یہ۔
تو اتار کیوں نہیں دیتیں۔
نہیں اتار سکتے۔ رواج ہے ہمارے میں۔
تم لوگ رہتے کہاں ہو؟
چاکڑ ہوٹل کے پاس ہماری جھونپڑیاں ہیں۔
اچھا تو تم لوگ خانہ بدوش ہو۔بارش ہوتی ہے۔تو کیا کرتے ہو تم لوگ؟
پلاسٹک ڈال لیتے ہیں جھونپڑی پر۔
شدید بارش میں جھونپڑیاں بہہ نہیں جاتیں؟
ہاں جی بہہ جاتی ہیں۔
پھر تم لوگ کچا پکا مکان کیوں نہیں بنا لیتے۔
ہم ایسے ہی رہتے ہیں رواج ہے ہمارے میں۔
تم لوگ ابھی کہاں سے آ رہے ہو۔
ہم جی مانگنے واسطے گئے تھے عائشہ منزل پر۔
اتنی دور جاتے ہو۔ کہیں قریب میں کوئی جگہ دیکھ لو۔
چھ سال سے ہمارا وہی اڈا ہے۔
تم لوگ اتنے عرصے سے مانگ رہے ہو، پیسہ تو بہت ہو گا تمہارے پاس۔ مانگنا چھوڑ کر کوئی اور کام کیوں نہیں کرتے۔
نہیں جی ہم کوئی اور کام نہیں کر سکتے، رواج ہے ہمارے میں۔
تم لوگ کون ہو؟، مطلب تمہارا مذہب کیا ہے
اس لڑکی نے سوالیہ نظروں سے اپنی بزرگ کی طرف دیکھا۔
بزرگ عورت نے بیزاری سے منھ پھیر لیا۔
میں نے لڑکی کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ اچانک اس کا بچہ رونے لگا۔ وہ اسے چپ کرانے کی کوشش کرتے ہوئے اسے مارنے لگی۔ بچہ سہم کر خاموش ہو گیا۔
میں نے پرس میں سے بسکٹ کا ایک ٹکی پیک اس کوتھما دیا۔
لڑکی نے مسکرا کر مجھے دیکھا اور دانتوں کے کونے سے پیکٹ پھاڑ کر آدھا آدھا بسکٹ سارے بچوں کو دے دیا۔
کراچی میں مذہب کانام ہم نے بہت سن رکھا ہے جی، سب لڑتے ہیں جو ہیں۔ پر سچی ہم کو آج تک نہیں معلوم ، مانگنے والے ہاتھ کو کیا مطلب ان مہنگی باتوں سے۔ اس نے بچے کا گرا ہوا چھوٹا سا بسکٹ کا ٹکڑا منھ میں رکھتے ہوئے کہا۔
مگر مذہب تو سب کا ہوتا ہے، غریب کا بھی ہوتا ہے۔
ہم کو دینے والے تو غریب ہی ہوتے ہیں پر دیتے تو ہیں نہ ۔ امیر تو گاڑی کا شیشہ بھی نہیں کھولتے ہمارے واسطے۔
امیر بھیک نہیں، نوکریاں دیتے ہیں۔ میں نے اسے سمجھا یا۔
تمہارے مردوں نے تمہیں نہیں بتایا اس بارے میں۔
کس بارے میں۔
مذہب کے بارے میں۔ میں نے نرم لہجے میں کہا۔
جب ہم اپنے گاؤں میں رہتے تھے، تب تو ہمارے مرد ،اوپر والے سے پانی،روٹی بچے کی زندگی کے واسطے دعا بھی کرتے تھے۔
اب وہ اوپر والے سے دعا نہیں کرتے! میں نے حیرانی سے کہا
بڑے شہر میں آکر زمین پررہنے والے انسانوں سے ہی مانگتے ہیں۔
اوپر والے کا نام نہیں بتایا تمہارے مردوں نے۔ مجھے ان کا مذہب جاننے کی کرید تھی۔
ہمارے مرد ہم کو بہت مارتے ہیں۔ فضول باتیں کرنے پر۔
یہ فضول بات تو نہیں، آخرت کی زندگی کا انحصار ہے اس پر ۔
وہ کیا ہوئے ہے۔
وہی تو ہمیشہ رہنے والی زندگی ہے ۔ مرنے کے بعد شروع ہوگی۔
پتہ نئیں تم کیا باتیں کرے ہو۔ جو بھی ہو ہم تو وہی کریں گے۔ جو ہمارے مرد کہویں گے۔
یہ ہی رواج ہے ہمارے میں۔ صدیوں سے۔
بچہ پھر رونے لگا۔
میں نے پھر پرس میں ہاتھ ڈال کر کچھ تلاش کرنے کی کوشش کی، مگر کچھ ہاتھ نہ آسکا .
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...