میں یوسف انکل کیلیے کبھی بھی رشی یا چنٹو نہیں رہا، میں ان کا "سنی بوائے" ہوں۔ بچپن کی جو یادیں میرے ذہن میں آج بھی تازہ ہیں وہ یوسف انکل کی ہمارے بمبئی والے گھر آمد کی ہیں۔ عموما" وہ مہینے کے دوسرے اتوار کو آیا کرتے تھے جب فلم ورکرز اور اسٹارز چھٹی کرتے تھے۔وہ گھر کے سامنے والے باغیچے کے پاس سے گزرتے جہاں میں اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل رہا ہوتا۔وہ میرے پاس رکتے اور مجھے پاس بلا کر میرے بال بگاڑ دیتے اور پوچھتے " کیسے ہو میرے سنی بوائے؟"۔۔
میں جانتا تھا کہ یہ شخص سپر اسٹار دلیپ کمار ہے اور میرے پاپا کے ساتھ کام کرتا ہے۔میرے دوست بھی یوسف انکل کو دیکھتے اور وہ بھی میرے دوستوں کو دیکھ کر مسکراتے۔پھر میرے پپا باہر آکر ان کو خوش آمدید کہتے اور شکوہ کرتے
" لالے تو نے دیر کردی میں صبح سے تیرا انتظار کررہا تھا"۔ پھر وہ دونوں بغلگیر ہوتے اور شام تک آپس میں مگن رہتے۔پپا کا اور یوسف انکل کا وہ لازوال برادرانہ تعلق تھا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔پیشے کے اعتبار سے وہ دونوں ایک دوسرے کے حریف تھے مگر ویسے وہ دونوں ایک دوسرے سے یوں محبت کرتے تھے گویا ایک ہی والدین کی اولاد ہوں۔جب یوسف انکل ہمارے گھر آتے تو گھر میں جشن کا سماں ہوتا تھا۔مما باورچی کو ہدایات دے رہی ہوتیں کہ کھانے میں کیا بنانا ہے اور چائے میں کیا ہوگا۔۔پپا فریش ہو کر ایک دم پشتون حلیے میں آ کر چھوٹے بچوں کی طرح پرجوش ہوجاتے۔میرے خیال میں یہ ان کے بچپن کی یادیں تھیں جن کو وہ زندہ کرتے تھے جو انہوں نے پشاور میں اکٹھے گزارا یا خالصہ کالج بمبئی کا زمانہ طالبعلمی یا پھر بمبئی ٹاکیز میں گزارے ہوئے ابتدائی سال۔۔
میرا خیال ہے راج کپور یوسف انکل سے اتنی ہی محبت کرتے تھے جتنی وہ اپنے بھائیوں شمی اور ششی سے کرتے تھے۔لیکن وہ اپنے جذبات ، احساسات یوسف انکل سے زیادہ شئیرکرتے تھے بجائے اپنی فیملی کے۔۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پیشے کے حوالے سے ایک دوسرے کے حریف تھے۔مگر انہوں نے کبھی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے یا نیچا دکھانے کی کوشش نہیں کی۔ان دونوں کو ایک دوسرے پہ فخر تھا ۔مجھے ان کی موجودگی یاد ہے جب آر کے تھیٹر میں فلم بوبی اور میرا نام جوکر تیاری کے مراحل میں تھیں۔پاپا یوسف انکل کی رائے کی بہت قدر کرتے تھے۔ایک بار کوئی بھونچال آگیا تو پپا اور یوسف انکل اکٹھے آفس میں بیٹھ کر امدادی رقم اکٹھی کرتے رہے تھے۔مجھے وہ منظر اچھی طرح یاد ہے۔
میری نوجوانی کی تین یادیں ہیں جو میں بنا کسی لگی لپٹی کے سنا سکتا ہوں۔ان میں سے پہلی تو آج بھی مجھے دہلا دیتی ہے۔یہ اس وقت کی بات ہے جب پاپا کو آخری بار اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔انڈسٹری کا ہر آدمی عیادت کیلیے آیا اور حوصلہ دے کر گیا۔ہم سب جانتے تھے کہ پاپا کا وقت قریب ہے کیونکہ پاپا مسلسل کومہ میں تھے۔یوسف انکل ان دنوں صدر پاکستان کی دعوت پہ پاکستان گئے ہوئے تھے پاپا کو دہلی میں اپالو اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا جہاں ان کو دل کا دورہ پڑا۔یوسف انکل جیسے ہی بمبئی واپس آئے تو ائیرپورٹ سے ہی دہلی کی فلائٹ پکڑ لی۔یوسف انکل بھاگم بھاگ اسپتال پہنچے اور اس کمرے میں داخل ہوئے جہاں پاپا بے ہوش و حواس لیٹے تھے۔یوسف انکل نے کرسی کھینچی اور پاپا کا ہاتھ پکڑ کر بولے : "راج ! آج بھی میں دیر سے آیا ، مجھے معاف کردو۔مجھے پتا ہے تمہیں شہرت اور توجہ پسند ہے۔اب بہت ہوگیا ہے۔چلو شاباش اٹھو اور میری بات سنو ، میں ابھی پشاور سے واپس آیا ہوں اور تمہارے لیے چپلی کباب کی مہک قید کرکے لایا ہوں۔تم اور میں دونوں پشاور جائیں گے اور بازار میں ویسے ہی گھومیں گے جیسے بچپن میں گھومتے تھے اور روٹیاں اور کباب اڑائیں گے۔۔راج ایکٹنگ بند کرو۔مجھے پتا ہے تم بہت بڑے ایکٹرہو ۔۔ راج ! تو مینوں لے کے جانا اے پشاور والے گھر دے آنگن وچ ، راج اٹھ یار۔ ۔۔"
یہ کہتے ہوئے یوسف انکل کی آواز رندھ گئی اور ان کے آنسو بہنے لگے۔میں اور رندھیر چپ چاپ کھڑے تھے۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ یوسف انکل کمرے سے باہر جانے کیلیے تیار نہیں تھے،کافی ضد کے بعد جب باہر گئے تو آخری بار اپنے پیارے دوست کی جانب جس بے بسی سے انہوں نے دیکھا میں کبھی نہیں بھول سکتا۔
دوسرا قصہ یہ ہے کہ ہم اپنے اسٹوڈیو میں پریم روگ کی شوٹنگ میں مصروف تھے۔پاپا اس کے ڈائریکٹر تھے۔۔میرا کردار اس میں ایک عاشق کا تھا۔میں شدید محبت کے ایکسپریشن دینے کی کوشش کر رہا تھا مگر دے نہیں پا رہا تھا جس سے پاپا کو غصہ آرہا تھا۔پھر وہ سارے عملے کے سامنے چلائے ۔
" مجھے یوسف چاہیے، مجھے بالکل ویسی لک چاہیے جیسی یوسف کی ہوتی تھی۔تمہاری آنکھوں سے محبت کے اظہار کے وقت وہی پیار اور بے ساختگی چھلکنی چاہیے جو یوسف کی آنکھوں سے چھلکتی تھی"۔۔
سارا یونٹ خاموش تھا۔کوئی یقین نہیں کرسکتا تھا کہ یہ بات دلیپ کمار کا سب سے بڑا حریف کہہ رہا ہے۔میں سمجھتا ہوں یہ پاپا کا خراج عقیدت تھا جو انہوں نے دلیپ کمار کی لازوال اداکاری کو پیش کیا تھا اور یہ اسی لیے ممکن ہوا کہ ان کے دل میں ایک دوسرے کی عزت تھی۔کیا آج شاہ رخ خان یا سلمان خان سے آپ یہ توقع کرسکتے ہیں؟
ایک موقع وہ جب بال ٹھاکرے نے یوسف انکل کو تنگ کرنا شروع کیا کیونکہ یوسف انکل نے پاکستان حکومت سے نشان امتیاز قبول کیا تھا۔ان کے گھر کے باہر دنگے ہوئے اور وہ گھر میں محصور ہو کر رہ گئے اور شیو سینا کو لگام ڈالنے کیلیے کوئی آگے نہ آیا۔۔یوسف انکل نے اس وقت کہا کہ مجھے آج میرا دوست راج بہت یاد آرہا ہے۔آج اگر راج زندہ ہوتا تو وہ کبھی ایسا نہ ہونے دیتا۔۔راج کبھی مجھ پہ یہ وقت نہ آنے دیتا اور بے خوفی سے میرا دفاع کرتا۔
ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ دلیپ کمار جیسے عظیم انسان کے دل میں ہمارے پاپا کیلیے عزت و احترام تھا اور وہ پاپا کو اپنے مشکل وقت کا ساتھی سمجھتے تھے جو مشکل وقت میں ہمیشہ ہرمظلوم آرٹسٹ کے شانہ بشانہ کھڑا رہا۔ ❤️
کتاب : Dilip Kumar , The substance and the Shadow , An autobiography
ترجمہ : حسنین چوہدری