رگ وید کے بعض منتروں میں دریائے سندھ کو سمندر کہا گیا۔ اس دریا کی سیلاب کے دنوں میں وسعت اس قدر ہوجاتی تھی کہ حد نظر صرف پانی ہی نظر آتا ہے اس وہ سمندر معلوم ہوتا ہے اور قدرتاً سندھو دریا کے معنی سمندر کے ہوجاتے ہیں اور سمندر کے معنی پانی کے ذخیرے میں ہے۔ رگ وید میں سمندر بحر یا بحیرے سے مراد نہیں ہے بلکہ اس چوڑی ندی سے جو سندھ اور پنجاب پانچوں ندیوں کے ملنے سے وجود آتی ہے۔ اس سرزمین پر دو بڑے دریاؤں (سندھ اور گنگا) کے علاوہ اور بھی بہت سے چھوٹے دریا ہیں اور ان کے نام قدیم زمانے سے اب وہی ہیں تک قائم چلے آتے ہیں۔
سندھو کے اصل معنی تقسیم کرنے، رکھنے وال اور حفاظت کرنے کے ہیں جو کہ سندھوں سے بنا ہے اور اس کے معنی الگ رکھنے کے ہیں۔ پہلے یہ صیغہ مذکر اور پھر مونث بن گیا۔ ایسے وسیع دریا کے لیے اس سے زیادہ دل آویز اور موزوں نام نہیں تھا۔ جو پر امن لوگوں وحشی حیوانی اور مخالفوں سے بچانے کے لیے حفاظت کرتا تھا۔ برصغیر میں قدیم آریا نسل کی بستیوں کا مشترکہ نام سپت سندھو (سات دریا) تھا۔ لیکن اگرچہ رگ وید میں سندھ کے معنی عام طور پر دریا کے ہیں۔ لیکن ہندوستان کی تمام تاریخ میں طاقت ور حفاظت کرنے والا دریائے سندھ کے لیے خاص طور پر آیا ہے۔
رگ وید کے مطابق قدیم آریا سات دریاؤں کے کنارے آباد ہوئے تھے۔ اس لیے یہ علاقہ سپت سندھو یعنی سات دریاؤں کی سرزمین کہلاتا تھا۔ بعض کا خیال ہے کہ ان سات دریاؤں میں پانچ دریا پنجاب کے، چھٹا سرسوتی اور ساتواں دریا سندھ ہے۔ اس میں گرنے والے دوسرے دریا جن میں دریائے کابل، دریائے گومل، سوات اور دریائے کرموں (کرم) دریا شامل تھے۔ دریاؤں کے یہ نام رگ وید کے منڈل دس میں درج ہیں۔ ان میں گنگا اور جمنا بھی شامل ہیں۔ پہلے دریائے سندھ بہت اہم تھا اور دریائے سرسوتی مقدس سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے رگ وید میں صرف ان دونوں دریاؤں کی تعریفیں کیں گئیں ہیں۔ دریاے جمنا کے پار آریاؤں کے سندھو دیش میں شامل نہیں کیے جاتے تھے۔ بعد میں آریاؤں کے وہاں نفوذ کرنے کے بعد سندھو ہندو سے بدل گیا جس سے ہندوستان بنا۔ جو کہ پورے برصغیر کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ دریائے سندھ اور سرسوتی کے درمیانی علاقہ رگ وید کے تیسرے (33۔4) منڈل میں دیونی کرت یونی Devkrtayoni کہا گیا ہے۔ جس کہ معنی دیو یا بھگوان کا بنایا ہوا ملک۔
ہپت سندھو گھوڑوں سے مالا مال، رتھوں سے مالا مال، کپڑے بستر سے مالا مال اور ہمیشہ عمدہ اون سے مالا مال، سلما پودا جس سے بان اور رسیاں بنتی ہیں ہپت سندھو میں بہت ہیں اور خوش قسمت سندھو کے کنارے شہد دینے والے پھولوں سے آرستہ ہیں۔ (رگ وید، دسواں منڈل سوکت 75)
وید رگ وید کی ایک رچنا (رگ وید منڈل ۰۱۔۵۷) کا ترجمہ جو دریاؤں کو مخاطب کرکے کہی گئی ہے۔ اگر دریاؤں کو بھی دیوتا مانا جائے تو وہ بھی خاکی دیوتاؤں کی فہرست میں شامل ہوں گے۔ جن دریا کا مخاطب کیا جاتا ہے وہ پنجاب کے دریا ہیں اور اس منتر میں بہت کچھ جغرافیہ پر روشنی پڑتی ہے۔
”اے دریاؤں! رشی یگ کے استھان میں تمہای عظمت کو تسلیم کرتے ہیں کہ سات اور سات مل کر وہ تین راستوں سے نکلے ہیں۔ لیکن سندھو اپنے طاقت کے لحاظ سے باقی دریاؤں سے بڑھ چڑھ کر ہے”۔
”جب تو دوسرے دریاؤں کے مقابلے میں دوڑتا ہے تو وارن تیرے لیے تیز چلنے کے لیے رستہ کھودتا ہے تو زمین کے ناہموار پشتہ پر آگے بڑھتا ہے تو تمام دریاؤں کے آگے آگے بطور رہبر مالک کے قدم رکھتا ہے”۔
”تیری گرج زمین سے آسمان تک اوپر جاتی ہے۔ وہ اپنی بے حد طاقت کو بڑے شان و جلال کے ساتھ ظاہر کرتی ہے۔ جب کہ سندھ بیل کی طرح گرجتا ہوا آتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بادل سے بجلی کڑک رہی ہے”۔
”اے سندھو تیری طرف دوسرے دریا اس طرح آتے ہیں۔ جس طرح بچھڑے اپنی ماں کے پاس دودھ لینے کے چلے آتے ہیں۔ جب تو ان دریاؤں کے سامنے پہنچتا تو جس طرح لڑائی میں بادشاہ اپنی دو صفیں بنالیتا ہے تو بھی دو حصوں میں منقسم ہوجاتا ہے”۔
”اے گنگا، جمنا، سرسوتی، شوتدری (ستلج) اور بھرشنی (راوی) میری درخواستیں کو قبول کرو اور مردور، دہا، اسکنی اور وتشٹھا (جہلم) کے ساتھ او آرجکیا تو شوما کے ساتھ سُن”۔
”او سندھو پہلے تو ترشتامہ، سرتو، رسا اور سوینی کے ساتھ مل کر سفر پر چلتا ہے۔ دریائے کھیا (دریائے کابل) کے ساتھ مل کر گومتی (گومل) کی طرف سندھو کے ساتھ مل کر سفر کرتا ہے”۔
”اجات شترو سندھو جو سب سے تیز رفتار ایک خوبصورت گھوڑا جو ہوا سے باتیں کرتا ہے۔ اپنی شان و عظمت کے ساتھ چمکتے ہوئے پانی کو میدانوں سے پار لیجاتا ہے یہ نظارہ قابل دید ہے”۔
”گھوڑوں، رتھوں، پوشاک، سونے، مال، غنیمت، پشم اور چارہ وغیرہ سے مالامال سندھو خوبصورت اور نوجوان اپنے کو میٹھے پھولوں سے ملبوس کرتا ہے”۔
”سندھو نے اپنے ہلکے رتھ کو گھوڑوں کے ساتھ جوتا ہے۔ وہ ہمارے لیے میدان میں انعام حاصل کرے۔ اس کے رتھ کی بزرگی کی بہت تعریف کی جاتی ہے۔ یہ رتھ اپنا جلال اور بہت طاقت رکھتا ہے”۔
ایک اور منتر میں اسے ”چمکنے والا، درخشان، عالی شان، نہ فتح ہونے والی ہے، سب ندیوں سے زیادہ اس پانی میں ہے۔ خوبصورت ابلق گھوڑی کی طرح حسین ہے۔ اس کا پانی گھاٹ سے ادھر ادھر چڑھ جاتا ہے”۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آریاؤں کی روحانی زندگی کا مرکز ثقل ابھی تک دوسرے مقام پر یعنی سندھ ندی سے اس پار منتقل نہیں ہوا تھا۔
رگ وید کے زمانے میں سندھو دریا میں بہت سے ندیاں گرتی تھیں اور ان سب کی پہچان مشکل ہے۔ وہ کہتا ہے اے سندھو، پہلے ترشتما Trishtama سے مل کر بہتی ہے پھر تو سسرتو Susartu اور رسا، سویتی (سوات) سے، کھبا (دریائے کابل)، گومتی (گومل) میتہوMehtanu اور کرموں (کرم) کے ساتھ مل کر بہتی ہے۔
اس رچا سے معلوم ہوتا ہے کہ تصنیف کرنے والے رشی کو اس علاقہ کے جغرافیہ سے غیر معمولی واقفیت تھی۔ اس منتر میں اس نے ایک ساتھ تین بڑے دریاؤں کو جو شمال مغرب کی طرف سے سندھ میں گرتے ہیں اور جو شمال مشرق سے اس کے ساتھ آملتے ہیں اور وہ جو شمال مشرق سے اس کے ساتھ ملتے ہیں پیش کیا ہے۔ دوسری طر گنگا اور جمنا معہ اپنے معاونوں کے نقشہ پر دیکھنے سے معلوم ہوجائے گا کہ کس طرح یہ تینوں فوجیں صف آراستہ ہیں۔ لیکن رشی کے پاس کوئی نقشہ نہیں تھا اس کے سامنے بڑے بڑے پہاڑوں کے سوا کچھ نہ تھا اور ان کی پیمائش کرنے کے لیے آنکھوں کے علاوہ کچھ نہ تھا اور اس نے دریاؤں کی تین کوچ کرنے والی فوجوں کی خوبصورت اور حقیقی تشبیہ دی ہے۔ وید میں دریائے کابل کوبھاج اور یونانیوں نے کوفن کہا ہے۔ اس میں ہندوستان کی حدودیں بتائی ہیں کہ شمال میں برفانی پہاڑ (ہمالیہ) دریا سندھ کوہستان سلیمان، مغرب میں دریائے سندھ، مشرق میں دریائے گنگا و جمنا اور جنوب میں بحر ہند واقع ہیں۔ اس سے ہمیں کسی حد تک اس زمانے کے تاریخی واقعات سے آگہی اور ویدوں کے قدیم جغرافیہ سے آگہی ہوتی ہے۔
اس منتر سے معلوم ہوتا کہ تمام دریا چھوٹے بڑے دریا اپنے خاص نام سے مشہور تھے اور مقامی باشندے ان دریاؤں کو ان خاص خصوصیت سے پکارتے تھے۔ چنانچہ دریاؤں کو ڈوڑنے والا، سرسبز کرنے والا، تیر رفتار گھوڑا، گائے، باپ، ماں، چوکیدار اور پہاڑوں کا بیٹا بھی کہا گہا ہے۔ کئی دریاؤں کے نام مختلف حصوں میں بدل جاتے تھے انہیں بھی پیش کیا گیا ہے۔
اس رچا سے معلوم ہوتا ہے کہ تصنیف کرنے والے رشی کو اس علاقہ کے جغرافیہ سے غیر معمولی واقفیت تھی۔ اس منتر میں اس نے ایک ساتھ تین بڑے دریاؤں کو جو شمال مغرب کی طرف سے سندھ میں گرتے ہیں اور جو شمال مشرق سے اس کے ساتھ آملتے ہیں اور وہ جو شمال مشرق سے اس کے ساتھ ملتے ہیں پیش کیا ہے۔ دوسری طر گنگا اور جمنا معہ اپنے معاونوں کے نقشہ پر دیکھنے سے معلوم ہوجائے گا کہ کس طرح یہ تینوں فوجیں صف آراستہ ہیں۔ لیکن رشی کے پاس کوئی نقشہ نہیں تھا اس کے سامنے بڑے بڑے پہاڑوں کے سوا کچھ نہ تھا اور ان کی پیمائش کرنے کے لیے آنکھوں کے علاوہ کچھ نہ تھا اور اس نے دریاؤں کی تین کوچ کرنے والی فوجوں کی خوبصورت اور حقیقی تشبیہ دی ہے۔ وید میں دریائے کابل کوبھاج اور یونانیوں نے کوفن کہا ہے۔ اس میں ہندوستان کی حدودیں بتائی ہیں کہ شمال میں برفانی پہاڑ (ہمالیہ) دریا سندھ کوہستان سلیمان، مغرب میں دریائے سندھ، مشرق میں دریائے گنگا و جمنا اور جنوب میں بحر ہند واقع ہیں۔ اس سے ہمیں کسی حد تک اس زمانے کے تاریخی واقعات سے آگہی اور ویدوں کے قدیم جغرافیہ سے آگہی ہوتی ہے۔
اس منتر سے معلوم ہوتا کہ تمام دریا چھوٹے بڑے دریا اپنے خاص نام سے مشہور تھے اور مقامی باشندے ان دریاؤں کو ان خاص خصوصیت سے پکارتے تھے۔ چنانچہ دریاؤں کو ڈوڑنے والا، سرسبز کرنے والا، تیر رفتار گھوڑا، گائے، باپ، ماں، چوکیدار اور پہاڑوں کا بیٹا بھی کہا گہا ہے۔ کئی دریاؤں کے نام مختلف حصوں میں بدل جاتے تھے انہیں بھی پیش کیا گیا ہے۔
پانی اور ندیوں کو بھی صحیح معنوں میں دیویاں نہیں کہا جاسکتا ہے۔ گو ان کا انتہائی اعزاز ہوتا تھا اور مخلوقات میں ان کو سب سے مقدس خیال کیا جاتا تھا۔ اس سے مراد اکثر آسمانی پانی سے ہوتی ہے جس سے اگنی پیدا ہوا اور سوما کا ایک مسکن ہے۔ یہ وجہ پراسرار اور انتہائی تقدس کا باعث ہے۔ یہ تقدس قدرتی طور پر دنیاوی پانی میں منتقل ہوگیا جو سوما کی شراب کا جزو ہے۔ آریاؤں کو اس کی روحانی طہارت کا احساس تھا۔ کہ یہ مقدس ندیاں ناپاکی دور کرتی ہیں ان میں نہانے والا پاک ہوکر نکلتا ہوں اور یہی تقدس موجودہ دور میں ہندوؤں میں منتقل ہوگی۔ وہ جانتے تھے ندیوں کا پانی چیزوں کو صاف و پاک کرتا ہے، نباتات کا اس پر دارو مدار اور مویشی اسی سے جیتے ہیں۔ پانی کا تخیل ندیوں کی شکل میں زیادہ تر ہے۔ جن کو مختلف اشیاء سے تشبیہ دی گئی ہے جو ان کو پیاری تھیں۔ مثلاً دودھ دینے والی گائیں، تیز اور خوبصورت گھوڑیاں، بہنیں اور مائیں۔ ندیوں کی تعریف میں ایک مشہور بھجن ندی استوتی ہے جس میں آریائی ہندوستان کی ہر ندی کا نام موجود ہے اور اس کو زمانہ ماقبل تاریخ کے جغرافیائی معلومات کا خزانہ کہہ سکتے ہیں۔ کیوں کہ اس میں سپت سندھو کی تمام ندیوں کے علاوہ کئی اور ندیوں کا ذکر ہے۔ جس کا اب تک نشان نہیں ملا ہے اور جن سے بہ مقابلہ پنجاب کی ندیوں کے آریا زیادہ واقف نہ ہوں۔ یہ ندیاں غالباً اس ملک کی ہوں گیں جن میں آریا زمینوں اور چراہگاہوں کی تلاش میں حال میں داخل ہوئے تھے۔ کیوں کہ تمام مجموعے میں یہی ایک نظم ہے جس میں گنگا اور جمنا کا نام آیا ہے۔ ”ہم ایسی سرزمین پر آگئے ہیں جہاں چراہگاہیں نہیں ہیں (یعنی جمنا کا مشرقی) زمین وسیع ہے مگر ہم پر تنگ ہوگئی ہے۔ ہمیں جنگ کی راہ دیکھا اے برہستی”۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آخری زمانے کی ہے۔ مگر ان ندیوں کا صرف نام آیا ہے اور نصف سے زیادہ اشعار سندھ ندیوں کی تعریف میں ہے۔
سندھ اور گنگا کے نام ہزاروں سالوں سے قائم ہیں۔ قدیم زمانے کے تاجر بحری و خشکی سندھ کو اچھی طرح جانتے تھے۔ دریاؤں کے نام وہی قدیم ہیں جو وید عہد میں تھے۔ سکندر کے عہد کے نام ویدی تھے۔ اگرچہ یونانیوں کے لہجہ کی وجہ سے مختلف معلوم ہوتے ہیں۔ سندھو جو سرحدی دریا تھا اور اس کے مغرب کی قومیں جو ایرانی زبانیں بولتی تھیں۔ وہ اہل فارس کی طرح س کو ہ بولتی تھیں اور اس طرح سندھو ہندو بن گیا۔ جس سے اندو اور انڈیا نکلا ہے۔
ان پانچ دریاؤں میں سے ہر ایک کے قریب قریب پانچ نام ہیں۔ برہمنوں کے عہد رزمیہ میں جو نام تھے وہ موجودہ ناموں سے مختلف ہیں جو قدیم نام ویدوں میں پائے گئے ہیں یونانیوں نے ان ندیوں کو جن ناموں سے یاد کیا ہے ہے وہ مختلف ہیں اور مقامی ناموں سے معمولی مشابہت رکھتی ہیں۔
ستلج ستدری یا شوتدری اور بعد میں ستدرو بنا جس کے معنی سو ندیوں میں دوڑنے کے ہیں۔ ٹالمی زوارس، پلائینی سائیداس میحتیز زادارِیس لکھتے ہیں اس پہلے شوتدری اور پھر شتادرد کہتے تھے پانچوں ندیوں میں ستلج طول و عرض میں سب سے بڑی ہے۔ ویدوں میں ذکر ہے کہ کوہ وائی پس کے ساتھ یہ دریا مل کر پنجاب کا سرحدی علاقہ بنتا ہے اور اس زمانہ میں یہاں خونریز لڑائیں ہوئیں ہیں۔
غالباً دریائے ستلج کے شمال مغربی معاون وریا پاسا پر سکندر کی فوج نے مراجعت کی تھی اور آگے جانے سے انکار کردیا تھا۔ اس وقت اس دریا کا نام یونانیوں نے ہائی نے سس لکھا تھا، پلانیئی نے اس کا نام پائی پاسز کہتا ہے جو ویدک وائی پس کے ساتھ ملتا جلتا ہے۔ جس کے معنی بیڑیوں سے آزاد ہونے کے ہیں اور اس کا آج کل بیاس ہے۔ ویاس یا بیاس کو وید کے زمانے میں وپاس کہتے تھے۔ یونانیوں نے ہائی پاسس، ہائی پاس اور وِپاسس کر دیا اور اس کا نام اکثر سندھ کے ساتھ آتا ہے۔
دوسرا دریا مغرب میں ویدک پرشسنی ہے۔ جو ایراوتی کے نام سے زیادہ مشہور ہے۔ آرین اس کا نام ہائی ڈراؤٹیز لکھا ہے۔ اب یہ راوی کہلاتا ہے۔ اس دریا کنارے دس راجاؤں کی جنگ ہوئی تھی۔ (رگ وید۔ ۷۔ ۸۱۔ ۸۔۹) راوی یا اِرُوتی کو ویدیوں میں بھرشنی اور رزمیہ نظموں کے عہد میں ارِاوتی کہا گیا ہے۔ یونانیوں نے اس کو ہائیڈراوئتیس کہتے تھے۔
چناب کو ویدوں آسکنی اور یونانی آکی سفوس کہتے تھے۔ جس کے معنی کالے کے ہیں اور اس کا دوسرا نام چندر بھاگا ہے۔ جس کے معنی چاند کی دھاریاں ہیں۔ ویدوں کے زمانے میں اس کو مارُو دورِدھ کہتے تھے اور چندر بھاگا مشہور ہوا۔ جسے یونانیوں نے بگاڑ کر ساندروفاکس کردیا۔
ویدک کا ونسٹا ہے جو کہ پنجاب کا آخری دریا ہے۔ جسے یونانی ہائیڈ سپیز کہتے ہیں۔ اسی دریا کے راستہ سکندر کا بحری بیڑا دریائے سندھ روانہ ہوا تھا۔ اس دریا کو ویدوں اور نام نہاد رزمیہ نظموں وِتاستا اور یونانیوں نے ہائی ڈاس پینس کہا ہے۔ اب اسے دریا بہت یا جہلم کہتے ہیں۔
ٰایک رشی نے رگ وید میں گنگا، جمنا، سرسوتی، درشدنی اور پنجاب کی پانچ ندیوں کا ایک ہی دسویں منڈل میں سوکت (75) کا جائزہ لیا ہے۔ لیکن سندھو ندی کی تعریف کرتے ہوئے اس کا جی نہیں بھرتا ہے۔ وہ کہتا ہے، سندھو ندی تو اجیت ہے (کسی کے جیتنے والی نہیں) وہ سیدھی بہتی ہے۔ اس کے پانی میں تیزی بہت ہے۔ اس کا رنگ سفید و روشن ہے (پانی سا میلا نہیں) اور وہ بڑی ندی ہے اس کے پانی میں تیزی بہت ہے اور چاروں طرف سیلاب لاتی ہے۔ جو بھی محترک چیزیں ہیں اتنی تیز رفتار نہیں ہیں جس طرح یہ یہ سندھو ہے۔ یہ واحد بھجن ہے جس میں گنگا اور جمنا کا ذکر آیا ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے یہ ان کے سرحدی علاقے تھے۔
ٰٓوہ رشی مزید لکھتا ہے کہ اے سندھو تو میدانوں میں بہتی ہے تب اپنے ساتھ بے شمار کھانا لاتی ہے (یعنی تیرے پانی سے بے شمار فضلیں ہوتی ہیں)۔ تیرا پانی اتم ہے اے سندھو تیری خوبصورتی کا موازنہ کیا جائے تو نویلی دلہن جیسی ہے۔ سندھو تم سدا جوان سدا خوبصورت ہو۔
وہ مزید لکھتا ہے سندھو کی گرج سے زمین کانپ اٹھتی ہے اور اس سے آسمان بھر جاتا ہے۔ سندھو نہایت زور سے بہتی ہے وہ سندر دیکھتی ہے۔ اس کے پانی کی آواز آتی ہے جو دل کو یوں لگتی ہے جیسے گویا برسات کے پرنالے گرج کر برس رہے ہوں۔ دیکھو سندھ بیل کی طرح دکاڑتی ہے۔
اے سندھو جس طرح دودھ دیتی گائیں دودھ سے بھرے تھنوں کے ساتھ اپنے بچھڑے کی طرف ڈورتی ہیں، اس طرح دوسری ندیاں علحیدہ علحیدہ جگہوں سے پانی لے کر تمہاری طرف ڈکارتیں ہوئی آتی ہیں۔
اے سندھو، جس طرح کوئی راجہ جنگ کرنے کے لیے نکلتا ہے اور اس کے پیچھے لشکر ہوتا ہے۔ اس طرح تو بھی (شان و شوکت سے) ندیوں کے آگے پیشوا بن کر چلتی ہے اور دوسروں ندیاں ایک قطار میں تیرے پیچھے اس طرح چلتی ہیں گویا ایک ہی رتھ میں سوار ہو۔
اس وقت دریائے سندھ مٹھن کوٹ کے مقام پر پنجاب کے دریاؤں کے ساتھ مل کر ایک دریا کی صورت میں آتی ہے۔ لیکن رگ وید کے زمانے میں اس کی بہت سی شاخیں بن جاتی تھیں۔ اس لیے اسی دسویں منڈل میں سوکت 75 میں کہا گیا ہے کہ سندھو وارن دیوتا نے تیرے لیے بہت سارے راستے بنائے ہیں۔ ان راستوں کا تذکرہ پارسی پستکوں میں بھی ملتا ہے۔
ابتدائی ویدک زمانے میں صرف ایک ندی سندھو کا ذکر ہے اور اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ سرسوتی سے مراد سندھو ہے جو اس کا اصلی نام تھا۔ مگر رفتہ رفتہ اس کو صرف سندھو یعنی ندی کہنے لگے۔ جب آریا ندی کو عبور کرتے ہوئے بہت دور مشرق کی طرف چلے گئے وہ ایک ندی کے پاس رگ گئے جہاں انہیں ایک زمانے تک ٹہرنا پڑا اور وہیں ان کی آبادیاں قائم ہوگئیں۔ اس ندی کو بھی قدیم تعلقات اور ایام گزشتہ کے لحاظ سے سرسوتی کا نام دیا گیا جو آریاؤں کو بہت پیارا تھا۔ کیوں کہ سرسوتی سنسکرت میں مترادف ہے قدیم ایرانی ہرقیتی کا جو اوستا میں نام ہے۔ جو مشرقی ایران (افغانستان) کی بڑی ندی کا نام جسے اب ہلمند کہتے ہیں۔ واضح رہے ہلمند سمندر میں نہیں گرتی ہے بلکہ ایک بڑی جھیل میں جس پر وید کی اصطلاح میں سمندر کا اطلاق صحیح ہے۔ اس ندی کے کنارے غالباْ علحیدہ ہونے سے پہلے کچھ ہندی و ایرانی آریا قبائل یقینا مقیم ہوں گے۔ جو بعد میں کوہ سلیمان کے تنگ دروں گزرتے ہوئے دریائے سندھ پہنچے۔ اس لیے انہوں نے قدیم وطن کو یاد کرنے لیے سندھو ندی کو اس نام سے موسوم کیا۔ اس کی تصدیق (رگ ششم منڈل ۰۱) سے ہوتی ہے جس میں تین سرسوتیوں کا ذکر ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ پہلی ندی ہرقیتی، دوسری سندھو ندی اور تیسری سوسوتی تھی۔
ان ندیوں میں ایک سرسوتی البتہ ایسی ہے جو بلحاظ اپنے انتہائی اعزاز اور متعدد شکلوں کے ایک اصلی دیوی خیال کی جاسکتی ہے جس کو چڑھاوے چڑھائے جاتے تھے اور سوما پینے کے لیے بلائی جاتی تھی۔ آخری ویدک دور اور اس کے بعد کے عہد میں سرسوتی کا نام اور اس کا تقدس ایک چھوٹی سی ندی سے منسوب تھا جو اب صحرا کی ریت میں غائب ہوگئی ہے اور زمانہ قدیم میں بھی جب کچھ بڑی ہوگی اس اسقدر اہمیت ہوسکتی سوائے اس کے کہ وہ آریائی فتحوحات کی مشرقی حد تھی جس کے اس پار سے اگنی ویشو نارا یعنی قربانی کی آگ نہیں گئی تھی جس سے مراد آریائی فتوحات اور آریائی تمدن سے ہے۔ نہ یہ ممکن ہے کہ جس ندی کی انتہائی تعریف کے ذیل کے اشعار میں کی گئی ہے۔ وہ بھی سرسوتی ہو۔ (رگ ویدساتواں منڈل ۵۹،ا۔۲)
”سرسوتی آتی ہے، شور و شغب کرتی ہوئی، غذا لیے ہوئے، ہماری جائے پناہ ہے، پیتل کا قلعہ ہے، مثل ایک سورما کے جو اپنے رتھ کو دوڑاتا ہو وہ سندھو (ندی) تیزی کے ساتھ آتی ہے۔ دوسری ندیاں پیچھے رہ جاتی ہیں ”۔
سرسوتی ندیوں میں وہ سب سے پاک ہے، وہ پہاڑوں سے آکر سمندر میں گرتی ہے۔ دنیا کے لیے وہ دولت اور فلاح لے کر آتی ہے۔ جو لوگ اس کے کناروں پر آباد ہیں ان کے لیے اس کے پانی میں دودھ اور شہد ہے”۔
ویدک کے زمانے کے بعد سرسوتی کی پرستش زیادہ تر فضاحت و بلاغت کی دیوی کے ہوتی ہے۔ گو ندی کی دیوی ہونے تخیل کبھی مٹا نہیں۔ تاہم ایسے فقرے مستعمل ہیں مثلاً الفاظ کا بہاؤ، زبان کی روانی، فضاحت کا دریا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ندی کی دیوی سے فضاحت کی دیوی بن جانا دور از قیاس نہیں ہے۔ رگ وید میں اس کی یہ خصوصیت نمایاں نہیں ہے۔ مگر قربانی سے اس کا تعلق ظاہر ہے اور بھجنوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رگ وید کے بعد کے حصوں میں سرسوتی سے نہ صرف مقدس نظموں کی بلاغت سے ہے۔ بلکہ ان کی بحروں سے بھی جن کو برہمنوں میں بہت سرہایا گیا ہے اور دیوتاؤں کے برابر کردیا گیا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...