رائیٹ ونگ قوتوں کا فروغ؛ کیا کیا جائے؟
پاکستان میں رائٹ ونگ قوتوں کا مسلسل فروغ ہو رھا ہے۔ ان کے ووٹ بینک میں اضافہ اورسماجی طاقت بڑھ رھی ہے۔ اب رائیٹ بمقابلہ رائیٹ ہے۔ لیفٹ اور پروگریسو نظریات سکڑتے جا رھے ہیں اور ان کی جماعتوں اور گروپوں میں کوئی قابل قدر آضافہ نظر نہیں آ رھا۔
عوامی سطح پر مزھب کااثرورسوخ بھی ہر طرف دکھائ دیتا ہے۔ ہر ریڑھی والا اپنے گاھک کو "حاجی صاحب" کہ کر مخاطب ھوتا ہے ۔ یہ مزھبی طرز مخاطب تقریباء ہر جگہ نظر آتا ہے۔ ماضی قریب میں گاھک کو "چاچا جی، بھائ جی یا بزرگو" کہ کر مخاطب کیا جاتا تھا۔ شہروں میں برقعہ اور نقاب کا استعمال بڑھ رھا ہے اور مزھبی اجتماعات میں عام لوگوں کی بھرپور شرکت ہوتی ہے-
نوجوانوں میں داڑھی رکھنے کا فیشن بڑھ رھا ہے۔ جس سیاسی سوچ کا معاشرہ میں غلبہ بڑھتا جا رھا ہو اس کا اظہار کئی شکلوں میں ھوتا ہے۔ کرکٹرزسینچری بنانے کے بعد سجدہ کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ سرفراز احمد کی قیادت میں چئمپین ٹرافی جیتنے کو اسکے حافظ قران ہونے سے جوڑا جاتا ہے اور اس سے کرکٹ کی باتیں پوچھنے کی بجائے نعت شریف سنی جاتی ہے۔
رائٹ ونگ کی سیاسی اصطلاح کا آغاز فراسیسی انقلاب (1789) کے بعد معرض وجود میں آنے والی پارلیمنٹ سے ہوا، سپیکر کے بائیں جانب وہ بیٹھتے تھے جو محنت کشوں کے حامی تھے، حقیقی جمھوریت کی بات کرتے تھے، عوامی حقوق کے علمبردار تھے اور بادساھت کے خلاف تھے۔
جبکہ دائیں جانب وہ پارلیمنٹیرینز بیٹھتے تھے جو بادشاھت کے حامی تھے، ماضی میں گم رھتے تھےاور نظریاتی طور پر امرانہ اور جابرانہ طرز حکومت کے حامی تھے۔ یہ خاندانی روایات کے پجاری تھے اور حقیقی تبدیلی کے خلاف تھے۔
سپیکر جب بادشاھت پسند پارلیمنٹیرینز کو مخاطب ہوتا تھا تو کہتا تھاکہ اب رائیٹ والے بات کریں۔ اس طرح یہ سیاسی اصطلاح عام ہو گئی۔ اس سے ایک خاص سوچ کا اظہار ہوتا ہے۔
آج دو طرز کی سیاسی آصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ ایک رائیٹ ونگ اور دوسری انتہا پسند رائیٹ ونگ۔
رائیٹ ونگ میں ھم آج پاکستان میں مسلم لیگ ن اور تمام دیگر مسلم لیگی دھڑے اور تحریک انصاف کو شامل کر سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا آغاز ایک لیفٹ ونگ پروگرام سے ہوا تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ بھی اب ایک رائیٹ ونگ طرز سوچ کو اپنا چکی ہے۔
انتہا پسند رائیٹ ونگ میں تمام مزھبی سیاسی جماعتیں شامل ہیں جو مزھبی بنیادوں پر تمام مسائل کو دیکھتی ہیں اور سیاست کرتی ہیں۔ یہ جمھوریت کے جھوٹے نعرے اپناتی ہیں اور اگر کبھی انکی حکومت آگئی تو یہ مزھبی بنیادوں پر آمرانہ طرز کو اپنانے میں اپنا بنیادی فریضہ سمجھیں گی۔ ان رائیٹ ونگ انتہا پسندوں میں مزھبی دھشت گرد، نسل پرست اور فاشسٹ بھی شامل ہیں۔
پنامہ کیس میں بھی رائیٹ ونگ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔ یہاں انہوں نے بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کوایشو بنایا ہے۔ دونوں طرف ہی بدعنوان اور لٹیرے موجود ہیں اور ایک دوسرے کو روزانہ انہیں القابات سے نوازنے میں کوئ قباہت نہیں سمجھتے۔
رائیٹ ونگ عمومی طورپر عام لوگوں کے خلاف ہوتے ہیں۔ یہ مارکیٹ اکونومی کے حامی ہوتے ہیں۔ پرائیوٹائزیشن کو فروغ دیتے ہیں۔ کیونکہ ان میں سے اکثر کو تعلق سرمایہ دار و جاگیردرانہ طبقات سے ہوتا ہے اس لئےیہ ریاست کی مدد سے اپنی دولت میں مسلسل اضافہ کرنے کے لئےعوام مخالف پالیسیوں کو شدومد سے ٹھونستے ہیں۔
رائیٹ ونگ سیاسی جماعتوں میں عام لوگوں کی اکثریت ہوتی ہیں جواپنے محنت کش طبقے کی سیاست کی بجائے مختلف وجوھات کی بنیاد پر ان سرمایہ دار اور مزھبی جماعتوں سے جڑ جاتے ہیں۔ انکی سوچ کو اپنا لیتے ہیں اور انکی وجہ سے ہی ان پارٹیوں کی قیادت مزید لوگوں کو یہ دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جاتی ہیں کہ یہ عوامی پارٹیاں ہیں۔
موجودہ دور میں رائیٹ ونگ قوتوں کے مسلسل فروغ کی وجہ سے ہی اسے ہم ایک رجعتی اور رد انقلابی دور کہتے ہیں۔ یہ ایک تکلیف دہ دور ہے جس میں سرمایہ داری جاگیرداری اور مزھبی جماعتوں کا اثرورسوخ بڑھ رھا ہے اور جس کی وجہ سے محنت کش طبقات پر سیاسی اور معاشی جبر کی شدت میں اضافہ ہو رھا ہے اورمستقبل میں مزید ہو گا جس کی وجہ سےعوام کی زندگی مزید دوبھر ہو گی۔
اگلے عام انتخابات جو کہ 2018 میں متوقع ہیں میں انہیں جماعتوں اور گروھوں کی حکومت بننے یا جاری رھنے کی توقع ہے۔ یہ میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں اس لئے نہیں کہ ان کے نظریات میں جان ہے بلکہ اس لئے کہ میڈیا بھی انہی گروھوں کی ملکیت میں ہے یا یہ ان کو زبردست معاشی فائدے پہنچاتے ہیں۔ یہ خریدوفروخت کے ماھر ہیں۔ انہیں اس نظام کی تمام چالاکیاں معلوم ہیں اور ان کا خوب استعمال کرتے ہیں۔
پنامہ کیس میں فلیٹ بھی موجود ہیں نواز فیملی اس کی ملکیت کو تسلیم بھی کرتی ہے۔ مگر پیسے کیسے برطانیہ پہنچے یہ بتانے سے گریز کرتے ہیں اور مختلف بہانے بازیاں اور جواز پیش کرتے ہیں۔
یہی حال عمران خان کا ہے 300 کینال کے بنی گالہ کی خرید میں جو رقم اس نے خرچ کی اس کی منی ٹریل بتانے سے قاصر ہے۔ یہ سرمایہ درانہ موشگافیاں ہیں اور وکلاء عدالتوں میں دولت کے زرائع کو چھپانے کے ماسٹرز ہیں۔
مزھبی جماعتیں جن میں جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام سر فہرست ہیں، اج امیر تریں سیاسی جماعتیں ہیں۔ یہ مزھبی دھشت گردی کو سیاسی کور فراھم کرتی ہیں اور مدرسوں کی مدد سے اپنی سیاسی طاقت میں اضافہ کرتی رھتی ہیں۔ زیادہ تر مدرسے حتمی طور پر مزھبی جنونیت کے فروغ اور پھر ان میں سے ہی خودکش نوجوانوں کی مسلسل زنجیر بنی رھتی ہے۔
ان مزھبی جماعتوں کے ووٹ بینک میں2018 کے عام انتخابات میں اضافہ کو ابھی سے ہی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کے علاوہ یہ جماعتیں پنجاب اورسندہ میں بھی قابل زکر ووٹ تناسب حاصل کر سکتی ہیں۔
مزھبی جنونیت اب ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکھیں نہیں چرائی جا سکتیں۔ اگرچہ یہ ریاست کی مدد سے ابھریں مگر اب کافی حد تک یہ آزاد سیاسی حیثیت میں کام کر رھی ہیں۔
یہ وہ بھوت ہے جو پاکستانی ریاست نے امریکی سامراج کی مدد سے پالا اور اب کافی حد تک انُکے کنٹرول سےباھر اپنی وحشت پھیلا رھا ہے۔ اس مزھبی جنونیت نے نہ صرف دھشت گرد انتہا پسند نئی جہتوں کی تشکیل کی بلکہ اسکی ساتھ ساتھ ان سیاسی جماعتوں کی مقبولیت میں بھی اضافہ کیا جنہوں نے انہیں کھل کر یا چھپ کر ان کو سیاسی ومعاشی طور مدد کی۔
تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن دونوں رائیٹ ونگ قوتوں نے ان مزھبی جنونی قوتوں کے ساتھ نہ صرف اپنے قریبی روابط رکھے بلکہ ان کی سرگرمیوں پر اپنی آنکھیں بند رکھیں اور ان کو سیاسی طور پر مظبوط کیا۔ یہ اپس کی لڑائی کے زریعےجنونی قوتوں کے فروغ سے عوام کوبے خبر رکھنا چاھتی ہیں۔ اب تو دھشت گرد تنظیمیں چن چن کر پولیس اور فوجی افسران اور جوانوں کو مار رھی ہیں اور ریاست اور میڈیا کا ان کی طرف رویہ ایسے ہے جیسا کچھ ھوا ھی نہیں۔
رائیٹ ونگ قوتوں کافروغ آج بائیں بازو کے لئے سب سے اھم چیلنج بن کر ابھرا ہے۔ یہ انکی زندگی یا موت کا سوال ہے مگر اسے جس طریقے سے زیر بحث لا کر اس بارے لائحہ عمل اور اس سے نپٹنے کے لئےجو حکمت عملی ترتیب دی جانی چاھیے تھی اس کی شدید کمی محسوس ہوتی ہے۔
آج ضرورت ہے کہ پاکستان کے تمام ترقی پسند، سوشل ڈیموکریٹس، سماجی تحریکیں، چھوٹے،بے زمیں کسان اور مزارعین تنظیمیں، پروگریسو ٹریڈ یونینں اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں اور گروپس بحث ومباحثہ کے بعد ایک مشترکہ سیاسی پروگرام، پلان اف ایکشن اور حکمت عملی تشکیل دیں۔
ضروری ہے کہ بائیں بازو اور ان کی سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں ملک میں موجود طبقاتی تحریکوں اور مزاحمتی قوتوں کو مضبوط کریں، ان کی مدد کریں اور انکو وہ نظریاتی سوشلسٹ بنیادیں فراھم کریں جن کی مدد سے وہ سرمایہ درانہ اور جاگیردرانہ استحصال کی بنادوں کو سمجھ کر اپنا لائحہ عمل تشکیل دے سکیں۔
یہ کام سٹڈی سرکلز، لیکچرز، ورکشاپس اور سیمینارز کے علاوہ بڑے جلسے جلوسوں اور کانفرنسوں کے زریعے کیا جا سکتا ہے۔ بائیں بازو تاریخی بحثوں میں الجھ کر اپنے اپ کو گروھوں اور گروپوں میں تقسیم کرنے کی بجائےموجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق اپنا اتحاد قائم کرے، ایک رد انقلابی دور میں انقلابی دور کے تجزیوں کی بجائے رد انقلابی ادوار میں انقلابیوں کی حکمت عملی اور ایکشن کو دیکھا جائے۔
رائیٹ ونگ کے جواب میں ھمیں ایک مشترکہ لائحہ عمل عوام میں لے جانے کی ضرورت ہے۔ رایٹ ونگ کا فروغ پاکستان کو مزید جنگوں، سول جنگوں اور خون خرابہ کی طرف لے جائے گا۔ امریت کی جڑیں اسی سیاسی سوچ میں دبی ہوئی ہیں۔ آمر فوجی جرنیل ضیالحق نے مزھبی جنونیت کے فروغ کا جو بیج بویا تھا وہ اج تناور پودےکی شکل اختیار کر گیا ہے۔
بہت ہو چکی، اب جاگنے اور کچھ کرنے کا وقت ہے۔
(فاروق طارق عوامی ورکرز پارٹی کے ترجمان اور پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے سیکریٹری ہیں، ان سے رابطہ [email protected] پر کیا جا سکتا ہے)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“