پندرہ اگست ۲۰۲۱ء کوریاض گلشن کے نہ ہونے کی ہونی سُن کر دِل دہل گیا۔ آدھیوال، سرگودھا روڈ، جھنگ میں مقیم یہ شگفتہ مزاج شخص گزشتہ چھے عشروں سے انسانیت کی بے لوث خدمت میں مصروف تھا۔ دردمندوں، ضعیفوں، الم نصیبوں اور جگر فگاروں سے بے لوث محبت کرنے و الا درد آ شنا مسیحا چل بسا۔
جو لیس سیزر نے AUC 708میں رومن کیلنڈرمیں ترمیم کر کے جولین کیلنڈرپیش کیا جو یکم جنوری AUC 709سے نافذا لعمل ہوا۔ مغربی ممالک میں اس وقت گریگورین کیلنڈر مروّج و مقبول ہے جسے پوپ گریگوری XIIIنے 1582ء میں متعارف کرایا۔ یورپ میں اس کیلنڈر نے جولین کیلنڈر کی جگہ لی۔ یہ دونوں کیلنڈرسال کے آٹھویں مہینے کواگست کے نام سے پکارتے ہیں۔ جب بھی ماہِ اگست کا ذکر ہوتا ریاض گلشن آٹھ آٹھ آنسو روتا۔ وہ گلو گیر لہجے میں کہتا تھا:
’’میں نے قرۃ العین حیدر کا ناول ’’آگ کا دریا‘‘ پڑھا ہے اور تقسیم ہند کے واقعات کے بارے میں بھی سب حقائق مجھے معلوم ہیں۔ سال 1947ء میں آزادی کے موقع پرریڈکلف کی شقاوت آمیز ناانصافیوں اور تعصب کے باعث جو سرحد ی لکیر کھینچی گئی اُس کے نتیجے میں بہت سے بے گناہ انسان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اگست 1973ء میں دریائے چناب میں جو قیامت خیز سیلاب آیا اُس نے جھنگ شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ایسے یگانۂ روزگار لوگ ان آفات نا گہانی کی بھینٹ چڑھ گئے کہ اُن کے متبادل کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ نامۂ تقدیر کو ہاتھ میں لے کر دیکھتا ہوں کہ میں نے اپنی زندگی میں اگست کے مہینے کے جو دُکھ دیکھے ہیں اُن کے باعث یہ مہینا میرے لیے ہمیشہ سے پریشان کُن رہا ہے۔‘‘
حیف صد حیف کہ ریاض گلشن کے اندیشہ ہائے دُور دراز صحیح ثابت ہوئے اور وہ کوہِ ندا کی صدا سُن کر پندرہ اگست 2021ء کو ساتواں درکھول کر ہماری بزمِ وفا سے نکل کر وہاں چلا گیا جہاں سے کوئی کبھی واپس نہیں آتا۔
اپنی تہذیب ،ثقافت اور معاشرت سے ریاض گلشن کو بہت محبت تھی اس کے باوجود سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کو وہ بہت پسند کرتا تھا۔ گاؤں میں اس کے کئی احباب اس بات پر تشویش کا اظہار کرتے کہ نئی تہذیب و ثقافت کے سیلِ رواں میںصدیوں پرانی تہذیبی و ثقافتی نشانیاں خس و خاشاک کے مانند بہہ گئی ہیں۔ وہ اس بات پر گہرے دکھ اور اضطراب کا اظہار کرتے کہ ماضی کے متعدد پیشے اور ہنر جدید دور کی حیران کن سائنسی ایجادات اور صنعتی ترقی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ریاض گلشن اپنے قریبی احباب کی باتوں کو نا سٹلجیا پر محمول کرتا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ اگرچہ یہ سادہ لوح لوگ آئین ِنو سے ہراساں نہیں تھے اور نہ ہی وہ طرزِ کہن پر اڑناپسند کرتے تھے مگر اپنے ماضی کی حسین یادوں کے سِحرسے بچ نکلنا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ دیہاتوں کے دہقانوں نے اپنی دنیا آپ پیدا کی تھی اور حقیقی معنوں میں وہ جفاکش انسان تھے۔ انھوںنے کٹھن حالات میں بھی حوصلے، اُمید اور عزم و استقلال سے کام لیا اورکبھی حرفِ شکایت لب پر نہ لائے۔ اُس کا خیال تھا کہ سائنس کی نئی نئی ایجادات کے بعد صدیوں پرانے پیشے اور ان سے وابستہ افراد ماضی کی یاد بن گئے ہیں۔ اب سقہ ،ماشکی ،نان بائی،کنجڑا،دُھنیا،رفوگر،بھٹیارا، کھوجی، نقارچی،صراف،خیاط،پنواڑی،تیلی،مالشیا،جراح،ماندری،عامل ،نجومی،رمال،جوتشی،سنیاسی،جوگی،بازی گر،مداری،کوزہ گر ،آ ہن گر،نقاش ،سنگ تراش،مشاطہ،شتر بان،کوچوان،رتھ بان ،فِیل بان، موہانہ ،قلعی گر،کہار، ٹھٹھیرا ،رنگ ریز،چُوڑی گر،پُتلی تماشا دکھانے والا،ریچھ اور بندر کا ناچ دکھانے والا،جو لاہا اور نہاراکہیں دکھائی نہیں دیتا۔ قدیم اشیا سے محبت ایک فطری بات ہے ،گاؤں کے با شندے اس بات پر فکر مند تھے کہ ماضی میں روزمرہ استعمال میں آنے والی متعدد چیزیں اب صرف عجائب گھروں میں ملیں گی مثال کے طور پر کنواں ، گھڑاٹھی ،گھڑونچی،سُبی ،سروچا،مِسی ،مُساگ،بوہکر ،مانجا،پُھونکنی،دھونکنی،کُنی،پالیاں ،ماہل، کھوہی ،رسی اور ڈول ،پنگھٹ ،پینگاں،کشتیاں ،پتن ،تانگہ،رتھ،بیل گاڑی،ہتھ گاڑی،سائیکل رکشا،ڈولی،پالکی،بگھی،چرخہ،تکلا ،اٹیرن،بیلنا ،ترینگل،سو ہاگہ،ہل ،پنجالی،جندرا،کراہ،تانی، کِرچ ،تَندی،زین ،گادھی،کچاوے،واہنگہ، مدھانی ،چھاج،چھلنی،ڈوئی، صحنک ،گھڑا ،چٹورا،کلہوٹی،پڑ چھتی،کُچِن ،خراس،ہتھ چکی، شیشوں والی پنکھی ،چوپال ،ہاون دستہ،فسد ،جونک ،مسہل،قاصد کبوتر اور نامہ و پیام سب کچھ خیالِ خام بن کر رہ گیا ہے ۔ ماضی کی کیسی کیسی حسین یادیں زمانۂ حال میںقلب ِحزیں کی فریادیں بن کر رہ گئی ہیں۔ دیار ،مغرب کے مکینوں کی بھونڈی نقالی میںفاسٹ فوڈ کی بھرمار نے ہمیں اپنے آبا کے پسندیدہ کھانوں اور مر غوب غذاؤں سے محروم کر دیا ہے۔ہماری نئی نسل کو چِینے کا باٹ ، گندم کے بھت ،کِھچڑ،بُھسری ،ٹِکڑے ،ٹانگری، پتاشے،الائچی دانہ،تاندلے کی روٹیوں ،منڈوے کے پراٹھے،ستُو اور گُڑ کے شربت اورپنجیری کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ،کئی خو د رو سبزیوں جیسے الونک ،اکروڑی،گنار،باتھو،ڈیہلے،پِیلوںاورپیلکاں کا اب کہیں سراغ نہیں ملتا۔ ہماری جنم بھومی کے صدیوں پرانے کھیل دولت کی ریل پیل میں گردِ راہ بن گئے ۔اب تو نئی نسل کو کبڈی،گُلی ڈنڈا ،کشتی،کُھدو کُھونڈی،رسہ کشی،سٹاپو،ککلی ،کو کلا چھپاکی،لُکن مِیٹی ،بندر کِلا،لَک بَھننا،پِٹھو گرم،اکڑ بکڑاور لنگڑ ا شیر جیسے مشاغل کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ گاؤںسے تعلیم کی خاطر شہر پہنچنے والے نو جوان یہ بھی بُھول جاتے ہیں کہ اُن کی ماں نے اپنے لختِ جگر کوز یور ِتعلیم سے آ راستہ کرنے کی خاطر چاندی اور سونے کے کتنے زیورات فروخت کیے۔کاش دیہی علاقوں کے نو جوان بڑے شہروں میں گُل چھرے اُڑانے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ ان کے ضعیف والدین کس طرح اپنا پیٹ کاٹ کران کے اخراجات پُورے کر ر ہے ہیں۔
ریاض گلشن اپنے سادہ لوح دیہاتی احباب کی باتیں توجہ سے سنتا اور ان پر واضح کر دیتا کہ تاریخ کا ایک مسلسل عمل ہوتا ہے ۔وقت کی مثال سیلِ رواں کی مہیب موجوں کی سی ہے ۔اس عالمِ آب و گِل میں کوئی بھی شخص اپنی شدید تمنا اور دلی خواہش کے با وجود بیتے لمحات اور آب ِ رواں کے لمس سے دوبارہ کسی صورت میں فیض یاب نہیں ہو سکتا۔ماضی کی یہ سب نشانیاں بلا شبہ اب تاریخ کے طوماروں میں دب چکی ہیں۔اب ان کی یاد میں دِل بُرا کرنے کے بجائے اپنے دِل میں نئی ایجادات کو جگہ دینی چاہیے۔جدید دور میں سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے ذریعے انسان سورج کی شعاعوں کو گرفتار کر کے ستاروں پر کمند ڈال چکا ہے۔پرِ زمانہ کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ اس کی رفتار تو پروازِ نُورسے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔ماضی میں زندگی سنگ پشت پر سوار تھی مگر جدید دور میں تو زندگی ہوا کے دوش پر سوار ہے اور بادل کا ہاتھ تھام کراس محیر العقول انداز سے خلا کو مسخر کر رہی ہے کہ نجومِ فلک بھی کاروانِ ہستی کی گردِ راہ ہیں۔
ریاض گلشننے جدید ذرائع مواصلات میں اختصاصی مہارت حاصل کر رکھی تھی۔ایک محنتی ،دیانت دار اور فرض شناس پر وفیشنل کی حیثیت سے محکمہ ٹیلی فون اور ڈاک کے اعلا افسر اس کی خدمات کے معترف تھے۔جدید دور کی سائنسی ایجادات جن میں وائرلیس،براڈ بینڈ ،انٹر نیٹ ،سمارٹ ٹیلی ویژن،برقی ڈاک،برقی کتب ،ڈیجیٹل کتب خانے ،سائبر کتب خانے ،مختصر پیغام کی خدمات(SMS)،سکین ،پر نٹنگ ،ویب کیم ،واٹس ایپ اور سکائیپ وغیرہ شامل ہیں ان سب کے استعمال کے بارے میں اسے کا مل آ گہی حاصل تھی۔ روزانہ اخبارات ، علمی و ادبی رسائل اور کتب کا مطالعہ وہ با لعموم انٹر نیٹ پر کرتا تھا۔علامہ اقبال سائبر کتب خانہ کی بیش تر کتب کا اس نے مطالعہ کیا ۔اس کتب خانے کو وہ دنیا بھر میںعلم کے فروغ کی جانب ایک عظیم جست سے تعبیرکرتاتھا۔قرآن حکیم کی تفسیر ،احادیث کی کتب،تاریخ اسلام کی کتب،ادبیات عالم ،عالمی کلاسیک،علوم شرقیہ ،نفسیات ،علم بشریات،طب اور فلسفہ کی سیکڑوں کتب انٹر نیٹ پر اس کے زیر مطالعہ رہیں ۔قرأت ،حمد و نعت اور قوالی سننے کااسے بہت شوق تھا ۔اپنے ذوق سلیم کی تسکین کے لیے اس نے یو ٹیوب کو وسیلہ بنایا۔ ریاض گلشننے پیرا سا ئیکالوجی کو ہمیشہ ناقابل عمل، غیر معتبر اورجعلی سائنس قرار دیا مگر اس کے بعض پر اسرار اثرات کے بارے میں وہ خود حیرت زدہ تھا۔اس کا خیال تھا کہ شاہراہ ِ حیات کے آبلہ پا مسافروں کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ مصائب و آلام اور غم و اندہ کا بارِ گراں تن تنہا اُٹھا کرسُوئے منزل رواں دواں رہیں۔وہ تعلق ِ ذہنی،دُور اندیشی،دُور بینی،دروں بینی،پیش بینی ،تزکیۂ نفس ،نفسی تحریک اور جہد للبقا کے بارے میں اس قدر ثقاہت سے اظہار ِ خیال کرتا کہ اس کی باتیں نوائے سروش محسوس ہوتیں ۔وہ اس بات پر اکثر زور دیتا کہ یہ کا ئنات ابھی تکمیل کے مراحل میں ہے ۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ باطنِ ایام پر نظر رکھنے والے بصیرت سے متمتع لوگ پیہم صدائے کن فیکون سُن رہے ہیں۔
وہ اس بات کی جانب اکثر متوجہ کرتا کہ ساری دنیا میں سائنسی، تہذیبی ،ثقافتی ،معاشی اور معاشرتی انقلاب کی دستک زنی کا غیر مختتم سلسلہ جاری ہے ۔گردشِ افلاک کے نتیجے میں زمین بھی تغیر و تبدل کی زد میں ہے مگر آلامِ روزگار کے پاٹوں میں پِسنے والی دُکھی انسانیت کے حالا ت جوں کے توں ہیں۔ریاض گلشن کے پڑوسیوں اور احباب کی نو جوان اولاد نے محنت مزدوری اور حصول روزگار کے سلسلے میں ملک کے بڑے شہروں یا بیرونِ ملک قیام کر لیا۔وقت انسان کو کس قدر مجبور کر دیتا ہے کہ بُوڑھے والدین نے اپنی نو جوان اولاد کو دِل پر ہاتھ رکھ کر جُداکیا اور ان کی صحت و سلامتی کے لیے سدا دعا کی۔
ریاض گلشن کو تاریخ سے وابستہ کئی حکایات یاد تھیں ۔اُس کے پڑوسی رمزی کے ایک عزیزجھابو قرق نے ایک کتا پال رکھا تھا۔یہ خارش زدہ کتا اکثر رمزی کی گلی میں گھو متا پھرتا دیکھا گیا۔ ایثار اورسرفروشی کی اداکاری کرنے والا طالع آزما اور مہم جوجھابو قرق دراصل جو فروش گندم نما مسخرا تھا۔وہ اکثر یہ بات کہتاکہ حصولِ زراور جلب ِ منفعت کی لذت اس وقت بڑھ جاتی ہے جب اس مقصد کے حصول کی خاطرٹھگی ، دھوکہ دہی اور فریب کاری سے کام لیاجائے۔جھابوکی کھوپڑی میں دروغ گوئی،عیاری ،مکاری اورفریب کاری کُوٹ کُوٹ کر بھری تھی۔ نا معلوم کیوںرمزی کی گلی کی ہرباؤلی کتیا اس ابلہ کے پالتوخارش زدہ کتے کو دیکھ کر اپنی دُم اُٹھالیتی اور اس کے پاؤں چاٹنے لگتی ۔کچھ عرصے کے بعد جھابوقرق کا پالتوکتاگلی کی ایک آوارہ کاتک کی کتیاکو ساتھ لے کر غائب ہو گیا اور کالا باغ کے نواحی جنگل میں جا پہنچا۔واقفِ حال لوگوں کا خیال تھا کہ جھابو قر ق کے پالتوکتے کا شجرہ نسب دیو جانس کلبی کے وفادار پالتو کتے سے ملتاہے ۔اپنے مالک جھابو قرق کی آواز سن کر ہر راہ گیر پر غرانے اور کاٹنے کے لیے دوڑنے والے اس قسم کے کتے ہر گوٹھ اور گراں میں کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔ گرگ آشتی کے پوشیدہ طریقوں اور پیچیدہ اسرار و رموزسے آگاہ لوگوں نے اس قسم کا ہما شما تر س کتا ضرور دیکھا ہو گا جو کُوڑے کے ہر ڈھیر کو گردن جھکا کر سُونگھتا اور دُم ہلاتاپھرتا ہے اور وہاں سے اپنے مطلب کے اُستخواں اُٹھا کر انھیں نوچتا اور بھنبھوڑتا پھرتاہے ۔گردشِ ایام سے آنکھ مچولی کھیلنے کی وجہ سے جھابوقرق کے کتے کی خارش زدہ جلد پر تپسیا کے اثرات اس کی حرص و ہوس ، کُوڑا بینی،عفونت پسندی اور مردار خوری کی نشانی بن گئے تھے۔ گردن جھکا ئے اپنی عفونت زدہ زخمی دُم خالی پیٹ سے لپیٹے یہ سگِ آوارہ جس طر ف سے بھی گزرتا کوچہ و بازار کے مکینوں کی ملامت ،حقارت ،ماردھتکار اور پھٹکار اس سگِ راہ کا تعاقب کرتی ۔ یہ خارش زدہ سگِ راہ زدِ جاروب کھاتا لنگڑاتا ہوا اس قدرخست ،خجالت اور ذلت و تخریب اور نحوست و ندامت سے چلتا کہ دیکھنے والوں کو گمان گزرتا کہ گویا طویل عرصہ تک ہر رہرو کو دیکھ کر پیہم بھونکنے کی وجہ سے ندامتِ ِعصیاں اور حلق کے ہلکان کے شدید احساس سے اس کی طوطے جیسی آ نکھیں پتھرا گئی ہیں ۔ آنکھیںبند کر کے گلی کے عین درمیان میں اپنی اگلی اور پچھلی ٹانگیں پھیلاکر لیٹ جانا اس خارش زدہ کتے کا معمول تھا۔ اس کتے کی ہئیت کذائی دیکھ کر اس پر مشکوک نسب کے متفنی چربہ ساز ، تنقیص کو وتیرہ بنانے والے بے کمال سارق اور کفن دُزدجہلا کا شا ئبہ ہوتا تھا۔جب یہ خواب کے عذاب میں ہوتا تو دیکھنے والے سوچتے شاید یہ سگ ِ راہ معاشرتی زندگی کے حوصلہ شکن تضادات اور بے ہنگم ارتعاشات پر غور و فکر میں جی کازیاں کر رہا ہے ۔ شبِ تاریک میں یہ کتا رمزی کے گھر کے سامنے والی تنگ گلی کی ناکہ بندی اس انداز میں کرتا کہ اپنی کریہہ جسامت سے پوری گلی کے داخلی درواز ے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا۔سفلی علوم کے ماہر کئی سگ شناس اور سگ پرست اسے دیکھتے ہی پکار اُٹھتے کہ یہ سگ اپنے پچھلے جنم میں یقیناً کوئی تارک الدنیا مٹی کامادھوہوگا۔بدلتے ہوئے موسم کی شدت بھی اس پر اسرار سگ ِ راہ کے معمولات اور معاملات میں حائل نہ سکی ۔ جب کبھی جھابو قرق رات کی تاریکی میں ناگاہ اس کی دُم پر پیر رکھ دیتا تو یہ کتا پیچ و تاب کھانے لگتا اور محسن کشی میں بروٹس کی مثال بن کر بھونکنے لگتا ۔’’ ارے بچے !میں تمھیں مثلِ کاہ سمجھتا ہوں ۔ جہاں فنا!ہمیں کاہے کو پریشان کرتے ہو ہماری دم مروڑنے اورگرد ن توڑنے والے دیکھ کے چل کہ ہم علیل اور تارک الدنیا مٹی کے مادھوبھی تو خاک ِ راہ میں پڑے ہیں ۔‘‘
ضعیف معلم شبیرنے یہ باتیں سنیں توبولا:
’’ یہاں دیو جانس کلبی کی تلمیح سے یاد آیا کہ ممتاز یونانی فلسفی ارسطو (B:324 BC.D:322 BC) اور مشہور یونانی فاتح سکندر اعظم ( B: 356 BC,D:323 BC )کے دور سے تعلق رکھنے والا نا بینا قناعت پسند دانش ور دیو جانس کلبی بصارت سے محروم تھا مگر بصیرت رکھتاتھا۔ آخری عمر میں دیو جانس کلبی ایک دُور دراز علاقے کے ویرانے میں مٹی کے ایک گول سے ٹب میں پڑ ارہتا تھا۔ وہ کہا کرتاتھاکہ انسان کا دشمن انسان ہے جانور نہیں۔ ظالم و سفاک ،موذی و مکارآدمی سے بچو جس کی خون آشامی ہزارہا خونخواردرندوں پر بھاری ہے ۔‘‘
شیر خان نے اپنی یادوں کے حوالے سے بتایا:
’’جب جنگ جُوفاتح سکندر اعظم نے پوری دنیا فتح کر لی تو اس کی غیر معمولی مہم جوئی کے بارے میں دیو جانس کلبی نے کہا:
’’اگر انسان قناعت پسند ہو تو وہ مٹی کے اس ٹب میںبھی خوش رہ سکتاہے لیکن اگر وہ حریص ہو جائے تو پوری کائنات بھی اس کے لیے چھوٹی ہے ۔‘‘
شبیر نے اپنے ساتھیوں کو اپنے تاثرات سے آ گاہ کیا :
’’پوری دنیا کو مسخر کرنے کے بعد سکندر اعظم اپنے اُستاد اور محسن دیو جانس کلبی کی خدمت میں حاضر ہوا۔ شدید سردی کا موسم تھا قناعت پسند فقیر دیو جانس کلبی سردی سے بچنے کے لیے دُھوپ میں بیٹھاتھا۔ اتفاق سے سکندر اعظم اس طرح کھڑاتھا کہ سورج کی شعاعیں فقیر دیو جانس کلبی پر نہیںپڑ رہی تھیں ۔سکندر اعظم نے نہایت عاجزی سے دیوجانس کلبی سے کہا:
’’ یااُستاد! میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ مجھے اپنی کوئی خواہش بتائیں تا کہ میں اس کی تعمیل کر سکوں ۔‘‘
مگر دیو جانس کلبی نے سکندراعظم کی بات سُنی اَن سُنی کردی کیو نکہ وہ جانتا تھا کہ دنیاکی ہوس کے اسیر حاکم کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ حریت ِضمیر سے جینے والے اور حریت ِفکر و عمل کو زادِ راہ بنانے والے درویش منش انسانوںکی خدمت کرے۔جب سکند ر اعظم کا اصرار حد سے بڑھنے لگا تو دیو جانس کلبی نے ایک شانِ استغنا سے پوری دنیا کو اپنے زیر نگیں کرنے والے فاتح جنگ جُو سالارسے کہا:
’’ فاتح اعظم !سورج کی شعاعوں اور میرے درمیان آ پ سدِ سکندری بن کرحائل ہو گئے ہیں اور دُھوپ مجھ تک نہیں پہنچ رہی ۔یہاں سے ہٹ جائیں تا کہ خورشید جہاں تاب کی شعاعیں مجھ تک پہنچیں اورمیں سردی سے بچ سکوں ۔‘‘
اس قناعت پسند مردفقیر کی یہ بات سن کر سکندر اعظم اپنا سامنھ لے کرر ہ گیا اور سر جھکائے واپس چلا گیا۔
ریاض گلشن اپنی گل افشانی ٔ گفتار سے ہر محفل کو کِشتِ زعفران بنا دیتاتھا۔ میر چُغد نامی اس کا ایک پڑوسی اپنی طوطا چشمی ،محسن کشی اور فریب کاری میں بروٹس سے بھی آگے نکل گیا۔یہ متفنی اپنا شجرہ نسب کھینچ تان کر میر جعفر سے ملاتا اور اس پر اتراتا اور اپنے زعم میں عوج بن عنق بن بیٹھتا۔ میر چُغد نے ایک نیا مکان بنوایا تو کسی ستم ظریف نے میر چُغد کو مشورہ دیا کہ مکان کے مرکزی دروازے پر طوطے کا ایک بڑا مجسمہ نصب کر دیا جائے ۔میر چُغد نے آؤ دیکھا نہ تاؤ شہر کے ایک ماہر سنگ ترا ش سے سبز رنگ کے قیمتی پتھر سے طوطے کا بڑامجسمہ بنوایا اور اُسے اپنے گھر کے مرکزی دروازے پر نصب کر دیا ۔ دروازے سے اندر داخل ہونے پر ایک ڈیوڑھی تعمیر کی گئی تھی ۔میر چُغد نے فخریہ انداز میں نئے مکان کا دروازہ اور ڈیوڑھی دکھانے کے لیے ریاض گلشن اور اُس کے رفقا کو اپنے گھر دعوت دی ۔ جھنگ میں لوگ اپنے مکانوں کے دروازے پر ’’ ما شا اللہ ‘‘ لکھواتے ہیں ۔ریاض گلشن نے جب میر چُغد کے نئے مکان کے دروازے پر طوطے کا مجسمہ دیکھا تو وہ ششدر رہ گیا اور بر جستہ کہا :
’’ میاں چُغد! تمھارے نئے مکان کے بڑے دروازے پر نصب طوطے کا مجسمہ تو تمھاری طوطا چشمی کی علامت ہے مگر ڈیوڑھی پر لال باغ مرشد آباد ( مغربی بنگال )میں واقع اپنے خاندان کے مورث میرجعفر کی ڈیوڑھی پر درج ’’ نمک حرام ڈیوڑھی ‘‘ بھی لکھوا دو ۔یہ تحریر نہ صر ف تمھاری خاندانی تاریخ بل کہ تمھارے ذاتی کردار کی بھی عکاسی کرے گی ۔‘‘
پاس کھڑے ایک واقف حال شخص رُلدو مو ہانہ نے رائے دی اس نئے مکان پر اس کے مالک کے نام کے حوالے سے اگر’ چُغدبسیرا‘‘ لکھا جائے تو خوب رہے گا۔
یہ سننا تھا کہ وہاں موجود سب لوگ ریاض گلشن کی تاریخ دانی اور رُلدو موہانہ کی بر جستگی پر اش اش کر اُٹھے ۔
ریاض گلشن نے ساری زندگی شہر ِ سدا رنگ جھنگ ہی میں بسر کی اُس کا خیا ل تھا کہ جھنگ کی فضا رومانی ہے جب کہ صنعتی شہروں کا ماحول ہیجانی اور طوفانی ہے ۔ کبھی کبھی وہ احباب کی خیر خبر معلوم کرنے کے لیے نواحی شہروں ،قصبات اور دیہات میں چلاجاتا مگر جلد ہی واپس جھنگ آجاتا۔اس بار جب وہ سفرِ آخرت پر ر وانہ ہونے والا تھا تو اُس کی آخری آرام گاہ کے لیے بھی جھنگ ہی کا انتخاب کیا گیا ۔ تاریخ ،عمرانیات ،علم بشریات علم و ادب اور خدمتِ خلق کے اس آسمان کو جھنگ کی زمین نے ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چُھپا لیا۔وہ جھنگ کو ایسا شہر سمجھتاتھا جہاں کی خاک اِس قدر کیمیاہے کہ سنگلاخ چٹانوں،بے حس مجسموں اور جامد و ساکت پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے ۔ وہ یہ بات زور دے کر کہتاتھا:
’’میں نے اس شہر ِبے مثال میں بہت احتیاط سے قدم رکھایہاں کے باشندوں نے سدا میری راہ میں آنکھیں بچھائیں اور اُن کے حُسنِ سلوک نے مجھے اپنا گرویدہ بنالیا ۔میں نے جب ضلع کچہری کے دروازے کے سامنے زمیں پر بیٹھے طوطے والے نجومی سے سفر کے ستارے دیکھ کر قسمت کا حال معلوم کیا تو یہیں مستقل قیام کا فیصلہ کر لیا۔میرا یہ اعزاز و افتخار ہے کہ میںاس شہر میںرہتاہوں جہاں سلطان باہو ،شاہ جیونہ ،شاہ زندہ ، میاں مراد ،میاں مو چڑا ،سلطان ہاتھی وان،دُڑکی شاہ ،شیخ علی ،لُوہلے شاہ اور حافظ بر خوردار جیسی روحانی ہستیوں نے تبلیغ اسلام کا سلسلہ جاری رکھا۔جہاں تک ادبیات کا تعلق ہے اس خطے کے جن ممتاز ادیبوں نے جریدۂ عالم پر اپنا دوام ثبت کر دیا ان میں سید جعفر طاہر ،محمد شیر افضل جعفری ،مجیدامجد ، رفعت سلطان ،احمد تنویر ،کبیر انور جعفری ،معین تابش،شفیع ہمدم ،صفدر سلیم سیال،گدا حسین افضل ،سجاد بخاری ،احمد بخش ناصر ،حاجی محمد ریاض ،دیوان احمد الیاس نصیب،عاشق حسین فائق ،شفیع بلوچ،خادم مگھیانوی ،رام ریاض ،مظہر اختر،بیدل پانی پتی،خضر تمیمی،شیخ ظہیر الدین،فیض محمد خان ،علی کوثر جعفری ،منیر حسین شاہ اور امیر اختر بھٹی شامل ہیں ۔ ‘‘
جھنگ کے گلی کوچوں کو ریاض گلشن اوراقِ مصور قرار دیتا تھاجہاں نظر آنے والی ہر شکل حُسنِ فطرت کی شاہکار تصویر کے مانند دِل میں اُتر جاتی ہے ۔یہاں تک کہ مسافرت میں بھی اس شہر سدا رنگ کے تصور میں بھی یہاں کی دل کش تصویریں ہی ہمہ وقت اُن کے پیشِ نظر رہتیں۔ اپنے ہر خواب میں اُسے اپنے اسی مسکن کی تعبیر نظر آتی تھی ۔ اپنے شگفتہ انداز میں وہ جب جھنگ کے مسائل بیان کرتا تو سننے والے دنگ رہ جاتے ۔ایک مرتبہ اُس نے ماسٹر خالد ،منیر حسین ،سجاد حسین ،بشیر احمد اور حبیب کو بتایا:
’’ جھنگ شہر میںفراہمی ٔ آب اور نکاسی ٔ آب کے سلسلے میں نظام سقہ کا بنایا ہوا ایک منصوبہ طویل عرصے سے زیرِ غور ہے مگرشہر کے لوگوں کو اس نادرو نایاب منصوبے کے التوا میں پڑنے کی پروا ہی نہیں ۔وطن عزیز کے بڑے شہروں میں اورنج ٹرین اور میٹرو بس چل پڑی ہے مگر اس شہر ِنا پرساں میں اب تک بیل گاڑی ،اونٹ گاڑی ،گدھا گاڑی، خچر گاڑی ،گھوڑا گاڑی،بائیسیکل گاڑی،موٹر سائیکل گاڑی اور بندہ گاڑی کاچلن ہے ۔برسات کے موسم میں اِس شہر کی سڑکیں گہری جھیل کا منظر پیش کرتی ہیں جس میں نو عمر بچے تیراکی میں اپنی مہارت دکھاتے ہیں۔‘‘
ملت کالونی جھنگ میں مقیم درویش منش شاعر مرزایامین ساحر کے ساتھ ریاض گلشن کے دیرینہ مراسم تھے۔ شہر میں منعقد ہونے والی ادبی نشستوں میں دونوں اکٹھے جاتے اور ادیبوں کی تخلیقات پر دل کھول کر داد دیتے تھے ۔ریاض گلشن کے ادبی ذوق اور وسیع مطالعہ کا ہر شخص مدا ح تھا۔مرزا یامین ساحر کا گھر پرانی وضع کا تھا جس کے بارے میں حاجی احمد طاہر ملک کہا کرتے تھے یہ گھر طوفان ِ نوح کی باقیات میں سے ہے ۔ریاض گلشن کے نہ ہونے کی ہونی سُنی تو مرزا یامین ساحرنے آدھی وال جھنگ میں سرگودھا روڈ کے مغرب میںلب ِ سڑک واقع ریاض گلشن کے گھر پہنچ کر گلو گیر لہجے میں فہمیدہ ریاض کے یہ اشعار پڑھے جو اُس نے اپنے نو جوان بیٹے کبیرکی اچانک وفات پر لکھے تھے ۔یہ اشعار سُن کر وہاں موجود سب الم نصیب جگر فگار سوگواروں کی آ نکھیں ساون کے بادلوں کی طر ح برسنے لگیں۔ فہمیدہ ریاض کے آخری شعری مجموعے ’’ تم کبیر ۔۔۔۔‘‘کی ایک نظم ’’ نئی ڈکشنری ۔۔۔۔۔۔‘‘زندگی کی حقیقی معنویت کا سامنے لاتی ہے۔اس نظم کی چند سطور پیش ہیں:
بناتے ہیں ہم ایک فرہنگِ نو
جس میں ہر لفظ کے سامنے درج ہیں
وہ معانی جو ہم کو نہیں ہیںپسند
جرعۂ تلخ کی مثل پی جائیں گے
اصل کی اصل جو بس ہماری نہیں
سنگ سے پھوٹتا آبِ حیواں ہے یہ
جو ہمارے اشارے پہ جاری نہیں
ہم فسردہ چراغ اِک خزاں دیدہ باغ
زخم خوردہ اناؤں کے مارے ہوئے
اپنی توصیف حد سے گزارے ہوئے
مسئلہ جبر و قدر کے موضوع پر وہ اکثر اظہارخیال کرتاتھا۔اس کا کہناتھاکہ اِس عالمِ آب و گِل میں انسان توہر معاملے میں بے بس ہے۔مجبور انسانوں پر مختاری کی جو ناحق تہمت لگی ہے اُس کے بارے میںوہ دبستان لکھنو کے ممتاز شاعر شیخ امام بخش ناسخ ؔ ( 1772-1838)کا یہ شعرپڑھا کرتاتھا:
جستجو کرنی ہر اِک امر میں نادانی ہے
جو کہ پیشانی پہ لکھی ہے وہ پیش آنی ہے
قدیم جھنگ شہر اور نوآبادیاتی دور میں آباد ہونے والے جھنگ صدر کے وسط میں ایک بستی ہے جو آدھی وال کے نام سے مشہور ہے ۔ہر قسم کی سہولیات سے محروم اس قدیم بستی کا ماحول آج بھی پتھر کے زمانے کی یاددلاتاہے ۔ریاض گلشن کے آبا و اجداد کئی نسلو ںسے اسی بستی میں مقیم تھے ۔ ریاض گلشن نے اپنی عملی زندگی کاآغاز محکمہ ڈاک میں کلرک کی حیثیت سے کیا ۔جھنگ کے مختلف ڈاک خانوں میںایک مستعد ، محنتی اور فرض شناس ملازم کی حیثیت سے ریاض گلشن نے جوگرا ںقدر خدمات انجا م دیں انھیں ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔محکمہ ڈاک سے ریٹائر ہونے کے بعد ریاض گلشن نے عرضی نویس بن کر اپنے لیے ایک مصروفیت تلاش کر لی اور ضلع کچہری میں واقع جنرل پوسٹ آفس کے مرکزی دروازے کے سامنے ڈیرے ڈال دئیے ۔ اس کا شیوہ تھا کہ عرضی وہ اپنی فہم و فراست اور سائل کی مرضی سے لکھتا اور کسی مصلحت کی پروا نہ کرتا ۔ اللہ کی رضا کی خاطر وہ ہر مظلوم کے پاس مر ہم بہ دست پہنچتااور پھر دستِ دعا بلند کر کے خالق ارض و سما کے حضور گڑ گڑا کر مظلوم کی داد رسی کی التجا کرتا ۔ غریب اور مظلوم سائل کے لیے وہ دیدہ و دِ فرشِ راہ کر دیتا مگرظالم کی بات سننا بھی گو ار انہ کرتا۔ وہ علی الصبح ضلع کچہری میں اپنی مقررہ جگہ پرایک کرسی پر بیٹھ جاتاسامنے رکھے میز پر کاغذات کا پلندہ اور بال پوائنٹ پنسل رکھ دیتا۔ عرضی لکھوانے کے لیے آنے والے سائل بھی وہیںاس کے پہلو میں پڑے ایک بنچ پر بیٹھ جاتے ۔ خلوص کی سوغاتیںاور راز و نیاز کی باتیںدِن بھر جاری رہتیں
ریاض گلشن کے بارے میں یہ بات کسی کو معلوم نہ تھی کہ بادی النظر میں ضلع کچہری جھنگ میںکھلے آسمان کے نیچے بے سر و سامانی کے عالم میں بیٹھا عرضی نویس متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا یہ قناعت پسند انسان کردار، اخلاق اور وقار کے اعتبار سے افلاک کی بلندی پر فائز ہے ۔غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کرنے والے مسائل میں گھرے ہوئے اور ہجوم یاس کو دیکھ کر گھبرائے ہوئے کئی سائل اس کے سامنے فرشِ زمین پر بیٹھ جاتے اور اسے بلا تامل اپنے مسائل سے آ گا ہ کرتے تھے۔وہ آلام روزگار کے مہیب پاٹوں میں پسنے والے مصیبت زدہ انسانوں کی غم گساری بھی کرتا اور سائلین کے بتائے ہوئے حقائق کی بنا پر اُن کی مرضی کے مطابق عرضی لکھ کر متعلقہ دفتر تک ان کی رہنمائی بھی کرتا تھا۔ وہ چاہتاتھا کہ کینہ پرور اور حاسد لوگوں کی خود غرضی اور جھوٹی گواہیوں سے فرضی مقدمات میں الجھائے گئے ان ساد ہ لوح انسانوں کی گلو خلاصی کی کوئی صورت تلاش کی جا سکے ۔ اتفاق سے ریاض گلشن کی لکھی ہوئی ہر عرضی منظور ہو جاتی تھی یہی وجہ ہے کہ سائل اسے اپنا پیر و مرشد قرار دیتے ۔ عرضی نویسی کے اس کام میں اگر کوئی شخص معمولی رقم کی صورت میں اس کی خدمت کرتا تو وہ رقم قبول کر کے اس کے لیے دعا کرتا ۔ اس کام سے ملنے والی کچھ رقم وہ نہایت راز اداری سے دردمندو ں،ضعیفوں،بیماروں،معذوروں اور فاقہ کش انسانوں کی نذر کر دیتا تھا۔ اگر کوئی مجبور شخص درخواست لکھوا کر کوئی معاوضہ دئیے بغیر رخصت ہو جاتاتو بھی دِل برا نہ کرتا بل کہ اس کے لیے بھی صدق دل سے دعا کرتا تھا۔ ریاض گلشن جس شہر میں جاتا وہاں سے کوئی داستان ساتھ لاتا تھا۔ ایک مرتبہ کسی دوست کی شادی کے سلسلے میں ہڈالی ( خوشاب) پہنچا۔واپسی پر اُس نے وادی ٔ سون کے شہر ہڈالی سے تعلق رکھنے والے ادیب خشونت سنگھ کے مداح ایک جوڑے کی داستانِ محبت اور اُس کے الم ناک انجام کے بارے میں بتایا :
’’علمی ،ادبی اور فلمی مجلہ ’’ شمع‘‘ کی مدیرہ سعدیہ دہلوی کی پہلی شادی کلکتہ کی ممتاز سماجی و سیاسی شخصیت خان بہادرمحمد جان کے فرزند محمدسلیمان سے ہوئی ۔سعدیہ دہلوی کی رومانی اور سیمابی شخصیت میں جو بے قراری،اضطراب اور بے چینی پائی جاتی تھی اس کے نتیجے میں پہلی شادی مختصر عرصے کے بعد علاحدگی پر منتج ہوئی ۔سعدیہ دہلوی جب اپنی زندگی کی تینتیس ( 33) بہاریں دیکھ چُکی تو باون (52) سالہ پاکستانی شہری اور اِسلام آباد کی آٹو موبائل صنعت کے ایک افسر رضا پرویز نے اپنی نفاست اور خوش اخلاقی کی وجہ سے سعدیہ دہلوی کو بہت متاثر کیا۔ باہمی رضا مندی سے سعدیہ دہلوی کی شادی سال 1990ء میں رضا پرویز سے ہوئی ۔ رضا پرویز پہلے سے شادی شدہ تھا اور دو نو جوان بیٹوں کے باپ تھا ۔ رضاپرویز اور سعدیہ دہلوی کی شادی کے موقع پرنکاح نامے پر خشونت سنگھ نے وکیل کی حیثیت سے اپنے دستخط ثبت کیے اور سعدیہ دہلوی کو پُر نم آ نکھوں سے پیا کے دیس رخصت کیا۔اللہ دتہ سٹینو نے بتایا کہ شادی کے بعد رضاپرویز اورسعدیہ دہلوی نے خشونت سنگھ کے ہمراہ جھنگ میں واقع رانجھا اور ہیر کے مزاراور قُلی فقیر پر حاضر ی دی۔ رضاپرویز نے آٹھ اپریل 2002ء کو سعدیہ دہلوی بذریعہ ای۔میل طلاق بھجوا دی ۔ سعدیہ دہلوی نے پانچ اگست 2020ء کو عدم کے کُوچ کے لیے رختِ سفر باندھ لیااور دہلی کے نواحی شہرِ خموشاں میں رادئے خاک اوڑھ کر سو گئی ۔ ‘‘
تلا اتائی ایک غبی متشاعر تھااور ادبی محفلوں میں ذہن وذکاوت سے تہی قلعہ ٔ فراموشی کا اسیر یہ ابلہ عوج بن عنق بن بیٹھتا ۔ دس برس قبل اُس کی نائکہ بیوی تفسہہ نے اُس سے علاحدگی اختیار کر لی اور اپنے ایک دیرینہ آ شنا صنوبرسے اپنے پرانے عہدِ وفا کی تجدید کر کے اپنا گھر بسالیا ۔تلااتائی اپنے فرضی اور من گھڑت نوعیت کے خیالات کی وجہ سے بعض اوقات ہوا میں گرہ لگانے کی سعی کرتاتھا۔ تُلااتائی ایک دِل پھینک جنونی تھا اور ہر حسینہ سے محبت کا داعی تھا۔سال 1996&1997میں جب لیڈی ڈیانا پاکستان آ ئی تو تُلا اتائی بھی اِس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لاہور جا پہنچا۔ حضوری باغ ،لاہور کے استقبالیہ ہجوم میں ہاتھ ہلانے والوں میں تلا اتائی بھی شامل تھا ۔اس موقع پر لیڈی ڈیانا نے بھی ہاتھ ہلا کر استقبال کے لیے آنے والوں کے نعروںکا جواب دیا ۔بس یہیں سے تلا اتائی نے یہ سمجھ لیا کہ لیڈ ی ڈیانا اُس کی گرویدہ ہو گئی ہے ۔جب سال 1996ء میں لیڈی ڈیانا کو طلاق مل گئی تو تُلااتائی بہت پُر اُمید تھا کہ اس بار شادی کا قرعہ ٔ فال اُس کے نام کا نکلے گا۔لیڈی ڈیانا نے طلاق کے بعد جب سال 1997ء میں مصری فلم ساز ڈوڈی فائد سے روابط بڑھائے تو تُلااتائی آگ بگولا ہو گیا اورکہنے لگا:
’’ اب اِن کا جانا ٹھہر گیاہے یہ دونو ںصبح گئے کہ شام گئے ۔‘‘
اس کے بعد اکتیس اگست 1997ء کو پیرس میں کار کے ایک حادثے میں لیڈی ڈیانا اور ڈوڈی فائد ہلاک ہو گئے ۔تلااتائی اس حادثے کے بعد نہ جانے کِس جہاں میں کھو گیا۔
ریاض گلشن کو جب تلااتائی کی فکری زبوں حالی،ذہنی افلاس اور خام خیالی کا علم ہوا تو اُس نے تُلا اتائی سے بر ملا کہا:
’’اونہہ ! تم جیسے باگڑ بِلے کو ہمیشہ چھیچھڑوں کے خواب آتے ہیں ،خود فریبی کی یہ بد ترین مثال ہے ۔چھاج تو بولے مگر چھلنی کیابولے جس میں پہلے ہی بے شمار چھید ہیں تمھارے دو بیٹے تمھیں چھوڑ کر کالا باغ چلے گئے ہیں اور تمھیں ساد ہ لوح لوگوں کو سبزباغ دکھاکر لُوٹنے کے سوا کچھ نہیں سُوجھتا۔ منشیات فروشی میں رسوائے زمانہ ڈاکو رمجانی ٹھگ نے تمھیں اپنا آلہ ٔ کار بنا رکھا ہے اور تمھیں کوئی پروا ہی نہیں ۔ تمھارا بیٹا گنوار انتھک اُجرتی بد معاش ،چور اور ٹھگ ہے جو کئی مرتبہ جیل جا چکا ہے ۔تمھاری عیاش اور جنسی جنونی بیٹی مصبہا بنوکے بارے میں سب لوگ کہتے ہیں کہ یہ پورے ہند اورسندھ کا موراہے اور تم نے ان تلخ حقائق سے شپرانہ چشم پوشی کو وتیرہ بنا رکھا ہے ۔تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تُو۔ تم اپنی اوقات میں رہو اور زمین پر توجہ رکھو آسمان سے تمھیں کچھ بھی نہیں مِل سکتا۔‘‘
ریاض گلشن کی کھری کھری باتیں سُنتے ہی تُلا اتائی وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا۔
ریاض گلشن کی گل افشانی ٔ گفتار سنگلاخ چٹانوں ،جامد و ساکت پتھروں،حنوط شدہ لاشوں،بے حس مجسموں اور چلتے پھرتے ہوئے مُردوں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی تھی اپنی شگفتہ بیانی سے وہ سامعین کے دلوں کو مسخر کرنے کا فن جانتا تھا۔ اقلیم معرفت کے اس پُر اسرار بندے کے بارے میں یہ بات زبان زدِ عام تھی کہ ما بعد الطبیعات اور پیرا سائیکالوجی میں اسے کامل دسترس حاصل ہے ۔شہر میں استحصالی عناصر اور ڈرگ مافیا کا پروردہ رمجانی ٹھگ نامی ایک متفنی نو دولتیا سدامظلوم و محروم طبقے کے در پئے آزاررہتا ۔ سادیت کے مرض میں مبتلا اس بزِ اخفش کاجس طرف سے بھی گزر ہوتا دو طرفہ ندامت اور اس کے زخم خوردہ الم نصیبوں کی لعنت ملامت سدا اس کا تعاقب کرتی ۔مشکوک نسب کے اس عیاش اور کینہ پرور درندے کے کبر و نخوت کو دیکھ کر ریاض گلشن نے ایک دن بر ملا کہا :
’’نا ہنجار رمجانی ٹھگ ہر روز اپنے چنڈو خانے سے اِس طر ح اِٹھلاتا ،لٹکتا اور مٹکتا بر آمد ہوتا ہے جس طر ح کسی عفونت زدہ اصطبل سے کوئی مریل خچر لید سے لتھڑی اپنی دُم سے پیٹھ کے زخموں پر بھنکتی مکھیاں اُڑاتا اور غلیظ سُموں سے خاک اُڑاتا باہر نکلتا ہے ۔ یہ ننگ ِ انسانیت ابلہ تو زمین کا بوجھ بن چکا ہے ۔یہ درندہ جلد ہی فطرت کی سخت تعزیروں کی زدمیں آنے والا ہے اور یہ موذی و مکار ٹھگ ایسے غائب ہو گا جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔‘‘
چند روز بعد رمجانی ٹھگ سیم نالے کے کنارے اپنی موٹر سائیکل پر ڈرگ مافیا کے پا س ایک ویرانے کی طرف جا رہاتھاکہ تیز رفتاری کے باعث اُس کی موٹر سائیکل گہرے سیم نالے میں جا گری۔اس سیم نالے میں بہت سے نہنگوں کے نشیمن ہیں ۔اگلے روز سیم نالے کے کنارے چرواہوں نے ایک انسانی ڈھانچے کی نشان دہی کی جس کا ساراگوشت آبی جانوروں اور حشرات نے نوچ کر کھا لیا تھا۔اکثر لوگوں کا گمان ہے کہ یہ ڈھانچہ رمجانی ٹھگ ہی کا تھامگر رمجانی ٹھگ کے لواحقین اب بھی یہی کہتے ہیں کہ رمجانی ٹھگ کو کافرستان میں کاروبار کے تنازع کے باعث اغوا کیا گیاجس کے بعد اُس کا اتا پتا کسی کومعلوم نہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...