پشتو اور اردو کے معروف اداکار ریاض اختر بے بسی اور بے کسی کے عالم میں انتقال کرگئے۔ ریاض اختر کا جنم 1960 میں مردان میں ہوا تھا۔ وہ پاکستانی لیجنڈ اداکار محمد علی سے بہت متاثر تھے اس لیے انہوں نے بھی اداکاری میں انے کا من بنا لیا۔ انہوں نے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز 20 سال کہ عمر میں 1980ء میں پاکستان ٹیلی ویژن سینٹر پشاور سے کیا۔ انہوں نے کئی پشتو، اُردو اور ہندکو ڈراموں میں مرکزی کردار ادا کیے۔ انہیں شہرت پشتو ڈرامہ سیریل ’’بندونہ‘‘ سے ملی تھی۔ پی ٹی وی پشاور کی پشتو ڈرامہ سیریل ’’ورکے لارے‘‘ (گمشدہ راستے) ’’خاندان‘‘ ’’اتم سمندر‘‘ (اٹھواں سمندر) اور سیریل ’’تلاش، بساط، دوراہا‘‘ سمیت پی ٹی وی لاہور مرکز سے ’’لگن، مہر انساء کا شکریہ، فصیل جان سے آگے‘‘ اور اسکے علاوہ جیو ٹی وی کے مشہور مزاحیہ پیروڈی پروگرام ’’ہم سب اُمید سے ہیں‘‘ میں وزیر خارجہ خواجہ آصف کا کردار ادا کرکے خوب داد سمیٹی۔ اس کے علاوہ وہ فلموں میں بھی نظر آئے۔ پشتو زبان کی فلم ’’نعرے مے ولے ناورے‘‘ (میری آواز کیوں نہیں سنتے)، ’’زہ بدمعاش یم‘‘ (میں بدمعاش ہوں) ستمگر اور ’’زڑگیہ وار خطا شے‘‘ (اے دل نہ گھبرا) جیسی کامیاب فلموں میں کام کیا۔ انہوں نے سٹیج پر بھی خوب کام کیا۔ ریاض اختر لمبے قد، خوبصورت شکل، رعب دار آواز، عمدہ چال، اور نیچرل اداکاری کیوجہ سے بہت پسند کیے جاتے تھے۔
اُنہوں نے کچھ عرصہ پہلے ایک انٹریو میں کہا تھا
پشتو ٹی وی ڈراموں فلموں اور پشتو سی ڈی ڈراموں فلموں سے میں اجکل نالاں ہوچکا ہوں کیونکہ اب بعض ایسے ہدایت کار آگئے ہیں جو پختون روایات کے برعکس پشتو ٹیلی فلمیں پیش کر رہے ہیں۔ پشتو سی ڈی کی ابتداء میں اچھی اور معیاری سی ڈی فلمیں ریلیز ہوئی تھیں لیکن موجودہ دور میں معیاری ٹیلی فلمیں بنانا آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ آج کل سی ڈی ڈرامے کی کہانی نہیں ہوتی، دو تین شوقیہ فنکار اکٹھے ہو کر ایک دن میں ٹیلی فلم تیار کر لیتے ہیں۔ ہرکوئی پشتو سی ڈی کا ڈائریکٹر بنا ہوا ہے۔
انہوں نے بعض شعراء پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ موجودہ شعراء اور موسیقار انڈین گانوں کی دُھنوں پر پشتو گانے گا رہے ہیں اور شاعری میں ذومعنی الفاظ استعمال کرتے ہیں، جس کا ہمارے معاشرے سے کوئی تعلق نہیں۔ آج کے گلوکار، گلوکاری کم، اداکاری زیادہ کرتے ہیں۔ اسٹیج پر نام نہاد ڈانسروں کے ہمراہ ڈانس کرتے ہیں جو ان کو زیب نہیں دیتا۔ پشتو موسیقی دنیا میں ایک مقام رکھتی ہے۔ 70 کی دہائی میں گلوگاروں گلنار بیگم، خیال محمد، شکیلہ ناز، ہدایت اللہ اور معشوق سلطان نے کئی سالوں تک اپنی آواز کے ذریعے پختون قوم کے دلوں پر راج کیا اور آج بھی مختلف ایف ایم ریڈیو اسٹیشنوں پر ان گلوگاروں کے گیت نشر ہو رہے ہیں، جن کو سامعین بیحد پسند کر رہے ہیں۔
عرصہ ایک سال سے وہ گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے چند ماہ پہلے علاج کیلئے اسلام اباد کے الشفاء اسپتال میں بھی داخل رہے۔ اجکل مردان کمپلیکس اسپتال سے ہفتے میں دو مرتبہ ڈائلیسز کرواتے تھے۔ ریاض اختر نہایت خودار انسان تھے اس لیے انہوں نے امداد کیلئے ہاتھ نہیں پھیلائے انکے پاس جو کچھ تھا وہ انہوں نے اپنی بیماری پر خرچ کیا۔ لیکن انکے یار دوستوں نے انکی مدد کیلئے حکومت سے بار بار اپیل کی جسے صوبائی حکومت نے سنجیدہ نہیں لیا گیا۔ انکے جائیداد کو قبضہ مافیہ گروپ نے ہتھیا لیا تھا جس کیلئے الگ بے چارے عدالتوں میں ذلیل ہورہے تھے جو ابتک انہیں واپس نہیں کی جاسکی۔ ریاض اختر کی کوئی نارینہ اولاد نہیں تھی انکی تین بیٹیاں تھیں جن میں سے دو کی شادیاں ہوچکی ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔