ریاض احمد خلجی کا تعلق فیصل آباد کی تحصیل جڑانولا سے ہے 2017 میں ان کی پنجابی شاعری (غزلیں ) کی کتاب “بے رنگ چپاں” منظر عام پر آ چکی ہے جسے نقیبی ادبی ایوارڈ میں تیسری پوزیشن اور دل دریا ایوارڈز گجرات جو پلاک لاہور میں دیے گئے چوتھے نمبر پر رکھا گیا، ریڈیو پاکستان فیصل آباد اور ایف ایم چینلز کے مختلف قومی دنوں کے پروگرامز مین انہیں مدعو کیا جاتا ہے، آرٹس کونسل فیصل آباد کے مشاعروں میں بھی شریک ہوتے رہتے ہیں اپنے شہر کی نمائندہ ادبی تنظیم “جڑانوالا ادبی فورم “کے موجودہ صدر ہیں، اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں لیکن ان کی اصل پہچان پنجابی شاعری ہی ہے۔ غزل اور نظم کے علاوہ نعت بھی ان کی پسندیدہ صنف ہے ان کی شاعری میں پنجاب کی روایات اور كلچر کافی نماياں رہتا ہے، ایک غزل کے کچھ اشعار دیکھئے
بوہڑ پرانا ایتھے لگیا رہن دیو
بابا میرے گھر وچ بیٹھا رہن دیو
تہاڈی مرضی پنڈوں ہر شئے ویچ دیو
جہڑا میرا حصہ بن دا رہن دیو
میرے مرنے پچھوں مرضی کر لینا
ہالے پیو دا حقہ ٹنگیا رہن دیو
آپ نے اپنی خوبصورت شاعری میں انسانی جذبات اور روحانیت کے موضوعات کو خوبصورتی سے شامل کیا ہے۔ پنجابی زبان میں لکھی گئی آپ کی غزلوں میں ایمان، خود شناسی اور انسانی تجربے کو فصاحت و بلاغت اور گہرائی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
ریاض احمد خلجی کی شاعری انسانی وجود کی باریکیوں کو بیان کرتی ہے، آپ کے اشعار میں جدوجہد، فتوحات اور معنی کی لازوال جدوجہد کی خوبصورت انداز میں تصویر کشی کی گئی ہے۔ اس کی شاعری میں واضح راستوں کی عدم موجودگی کو بیان کیا گیا ہے۔ شاعری میں ایک اعلیٰ طاقت کے بارے میں ایمان کے ذریعے رہنمائی کے سفر پر نکلنے کے ایک موقع کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ آپ کی شاعری کا یہ بہترین موضوعاتی اسلوب زندگی کی غیر یقینی صورتحال کو نیویگیٹ کرنے میں انسانی روح کی لچک کو واضح کرتا ہے۔
مزید برآں خلجی کی تلخ یادوں اور پُرجوش یادوں کی تصویر کشی ان کے کام میں جذباتی گہرائی کی ایک تہہ ڈالتی ہے۔ وہ ماضی کے زخموں کے ساتھ ناگزیر تصادم کو مہارت کے ساتھ بیان کرتا ہے، شاعر یہ تجویز کرتا ہے کہ ان سے بچنے کی کوششیں ہی ان کے دوبارہ زندہ ہونے کا باعث بنتی ہیں۔ اپنی شاعری کے ذریعے خلجی قارئین کو ان کی ذاتی تعلقات کا سامنا کرنے اور ان سے ہم آہنگ ہونے کی دعوت دیتے ہیں اور ان خامیوں کو تسلیم کرتے ہیں جو ان کی شناخت کو تشکیل دیتے ہیں۔
خلجی کی شاعری کا ایک قابل ذکر پہلو اس کی عالمگیر شناخت بھی ہے جو کہ پنجابی زبان کے ساتھ ساتھ اردو اور کھوار زبان میں تراجم کرکے پیش کی جارہی ہے، آپ کے یہ اشعار دیگر مادری زبانوں میں بھی تراجم ہونے کے بعد لسانی اور ثقافتی رکاوٹوں کو عبور کر گئے ہیں۔ پنجابی سے اردو، کھوار اور انگریزی تراجم کی مدد سے ریاض احمد خلجی کے افکار و خیالات کو وسیع تر قارئین تک پہنچانے کی یہ پہلی کوشش ہے، اس کی مثال راقم الحروف (رحمت عزیز خان چترالی) کے کھوار زبان کے تراجم سے ملتی ہے، جو خلجی کے شاعرانہ وژن کی رسائی کو مادری زبانوں تک مزید وسعت دینے کی پہلی کوشش ہے۔ کھوار زبان میں کیا گیا راقم الحروف کا ہنر مندانہ ترجمہ خلجی کی پنجابی شاعری کے جوہر اور باریکیوں کو محفوظ رکھنے کی پہلی کوشش ہے، جس سے متنوع پس منظر سے تعلق رکھنے والے قارئین کو شاعر کی گہری بصیرت تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
ترجمے کے عمل میں چترال میں بولی جانے والی زبان کھوار اور ثقافت کی پیچیدگیوں کو بڑی تدبیر سے پیش کیا گیا ہے، ترجمہ کرتے وقت اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ خلجی کی شاعری کا جوہر برقرار رہے اور یہ وسیع قارئین تک بھی پہنچے۔ اپنی تراجمی کوششوں کے ذریعے راقم الحروف ثقافتی مکالمے اور گفت شنید کی سہولت فراہم کرنے کی کوشش کی ہے، جو پنجابی اور کھوار ادب دونوں کے لیے ادب کو فروغ کی پہلی کوشش ہے۔
خلجی کی غزلیں اور کھوار تراجم لسانی رکاوٹوں کو عبور کرنے اور جغرافیائی اور ثقافتی تقسیم کے قارئین کے دلوں میں نقش ہونے والی شاعری کی طاقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ شاعر قارئین کو ہمدردی اور افہام و تفہیم کو فروغ دینے میں ادب کی تبدیلی کی صلاحیت کو اجاگر کرتے ہوئے ایمان، لچک اور انسانی حالت کے آفاقی موضوعات پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ریاض احمد خلجی کی پنجابی شاعری جو کہ کھوار کے تراجم کے ساتھ اس مضمون میں شامل کیا گیا ہے، انسانی تجربے کی گہرائی سے تحقیق پر مبنی بہترین شاعری ہے۔ اپنی شاعری کے ذریعے وہ لسانی اور ثقافتی تقسیم کو ختم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور قارئین کو خود شناسی اور روشن خیالی کے ماورائی سفر پر محو سفر ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے ریاض احمد خلجی کی پنجابی شاعری اور کھوار تراجم سے پیش خدمت ہیں۔
*
رب دی آسے جد وی بندہ نکل پیندا اے
ٹر پئیے تے آپے رستہ نکل پیندا اے
یاداں دے پرچھانویں کولوں ڈردا رہنا واں
فر وی کوئی درد پرانا نکل پیندا اے
جے نہ ملنا ہووے تے ان گنت بہانے نیں
جے کر ملنا ہووے ویلا نکل پیندا اے
*
کھوار تراجم
*
کیاوت دی کیہ دی انسانوت کی کیہ دی راہ غیچھی نو گیاو اوشوئے تھے ہسے اللہو بھروسا تان کورمو شروغئیار تھے ہتے زات ہوتے پروشٹی بیکو بچے وسائللان پیدا کوروئے۔
کیہ انسانو زندگیا گیرو نا خوشگوار واقعات کی یادی ہانی تھے کیہ قسمہ بیتی دی ہیتان سار بچ بیکو کہ مشکیتائے تھے کیہ نو کیہ نسبتہ پرانو زخم یادی گونیان۔
وا کیاوتکہ کوسوم ملاؤ بیکو بچے ہردی راضی نو ہوئے تھے کندوری کی توجیحاتن پیش کورونو کی ہونی دی کوریلک بوئے لیکن اگر ته تان کی ارادہ اوشوئے دی تان تمام تر مصروفیاتاری دی وخت نیزین بوئے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...