ریاست، قوم، حب الوطنی کے تصورات:
جو استحصالی طبقے ہوتے ہیں۔ ان کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے لوگوں کو Abstract تجریدی تصورات کو حقیقت بنا کر ان سے پوجا کروائی جائے۔ مقصد حکمران اشرافیہ کلاس کے مفادات اور لوٹ مار پرپردہ ڈالنا ہوتا ہے۔ آپ پرہوتے ہوئے ظلم اور استحصال پر سونے کا ورق چڑھا دیا جاتا ہے۔ اور آپ کا جس زریعے سے استحصال ہورہا ہے۔ اسی کی پوجا کرنی شروع کردیتے ہیں۔ پھر مذکورہ استحصالی قوتیں پوری کوشش کرتی ہیں کہ عوام اس اندھی عقیدتوں سے نکلنے نہ پائیں۔۔ کیونکہ ساری دکانداری ہی ختم ہو جائے گی۔۔ اس کی سب سے بڑی اور پرانی مثال تو مذہب ہے۔۔ یہاں ہر چیز خیالی abstract ہوتی ہے۔ کچھ بھی ٹھوس، مادی شکل میں نہیں ہوتا۔۔ کئی سو بلکہ ہزاروں سال کے پرانے قصے اور شخصیات ہوتی ہیں۔ جن کا کوئی اتہ پتا نہیں ہوتا۔۔ نہ ان واقعات و حالات کی کوئی تصدیق ہو سکتی ہے۔ آپ کو عبادتوں اور نذرانوں کے بدلے میں بھی کچھ نہیں ملتا۔۔ خیالی ثواب و گناہ کے کھیل میں لوگ گرفتار رہتے ہیں
یہ چیز سیاست میں بھی دہرائی گئی۔۔ پرانے زمانے میں بادشاہ اور اس کے خاندان کو خدا کا نائب، روپ بھیجا ہوا کہا گیا۔۔ سلطنت اس کی ملکیت ہوتی تھی۔۔ جدید زمانے میں 'ریاست' اور 'قومیت' کے تصوراتی مقدس بت بنا کرپیش کردیئے۔ ریاست بھی ایک تصوراتی تجریدی لفظ ہے۔ پتا نہیں یہ کون ہے، کہاں ہوتی ہے، ریاست والے بھی کہیں گے، بس ریاست ہے۔ سارا غیرمرئی کھیل ہے۔۔ اس کا نفاذ کرنے والے، اس کے نام پر بدمعاشی کرنے والے، فائدہ اٹھانے والے سامنے ہونگے۔۔ لیکن جس 'ریاست' نامی چیز کے نام پریہ سب کچھ ہورہا ہوگا۔۔ وہ کہیں نہیں ہوگی۔۔ اسی طرح قومیت کا بھی تصور ہے۔۔ اس پربھی مفکروں اور فلاسفروں نے بہت لکھا ہوا ہے۔ یہ بھی ایک سطح پرڈھونگ ہے۔۔ 14 اگست 1947 کے دن ہم ہندوستانی شہری تھی، ہندوستان ہمارا وطن تھا۔۔ رات کے 12 بجے ہم پاکستانی ہوگے۔ پھر ایک دن آدھا پاکستان بنگلادیشی ہوگیا۔۔ کدھر گئی 'قوم' اور قومی تصور۔۔ ملک اور قومیں بنتی بگڑتی مٹتی رہی ہیں۔ بس ایسے ہی شناختیں دے کرگروپ بندی کروائی جاتی ہے۔ اور استحصالی طبقے اپنا اپنا 'حلقہ اثر' بناتے ہیں۔
سماجی زندگی کے لئے شناختیں ضروری ہوتی ہے۔ یہ ہمارے اندر تنظیم پیدا کرتی ہیں۔ کچھ احساس تحفظ دیتی ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ملوحظ رکھنا چاہئے یہ سب سطحی اور فروعی چیزیں ہیں۔ یہ ابدی حقیقتیں نہیں ہیں۔ اور اس کا انحصار آپ کے ماننے اور مائنڈ سیٹ پر ہے، حب الوطنی بھی اسی طرح ایک فریب نظر ہوتا ہے۔ حب الوطنی کا فائدہ ہم وطنوں کو کم حکمران اشرافیہ کو زیادہ مل رہا ہوتا ہے۔ وہ خود آپ کے وطن کے وسائل پرقابض ہوتے ہیں۔ عیش کی زندگی بسرکرتے ہیں۔ اور آپ کو حب الوطنی کا لولی پاپ چوسنے کے لئے دے دیتے ہیں۔
حقیقی حب الوطنی افراد/شہریوں کی ترقی ہیومن ڈویلیپ منٹ میں ہونی چاہئے۔ عوام کے رہنے سہنے کے لئے خوشگوار ماحول دیا جا رہا ہے یا نہیں۔ انہیں آج کی زندگی کی سہولتیں اور مستقبل کا تحفظ مل رہا ہے یا نہیں۔۔ لیکن نعروں اور ترانوں میں ایک شور شرابا برپا کردیا جاتا ہے۔ جدید سیاسی فلسفے تجریدی نظریوں کو نہیں عوام کو مضبوط، بااختیار، آزاد بنانے پر زور دیتے ہیں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔