ریاست کا کسی بھی طرح کا قومی مذہب،قومی زبان، قومی شاعر یا قومی لباس مسلط کرنا ایک فضول حرکت ہے اور بعض اوقات یہ انتہائی مضر ثابت ہوتی ہے جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے اس پاگل پن کے مظاہرے روزانہ کی بنیادوں پر دیکھے جاسکتے ہیں، جس کی مثال ریاست کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالی، مذہبی شدت پسندی، ضرورت سے زیادہ حب الوطنی اور مصنوعی تقدس کے نام پر زباں بندی ہے۔
اقبال کی طرح کے متلون مزاج شعراء دنیا میں نجانے کتنے ہونگے مگر چونکہ پاکستان کی لالچی مگر طاقتور قوت کو ہر اوٹ پٹانگ اور زہر آلود کاموں میں بے پناہ مالی فوائد ملتے ہیں لہذا انہوں نے علامہ اقبال کو قومی شاعر بنانے کے بعد ڈنڈے کے زور پر تقدس کا ایک ایسا دیوتا بنادیا کہ جس پر کسی طرح کی تنقید قابل نفرت ٹھہری، اسی وجہ سے ایک ایسی دقیانوسی فکر قوم پر تھوپ دی گئی جس سے بظاہر تو چھٹکارا ملنا ناممکن ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں لاتعداد شعراء تھے اور ہیں جن کی شاعری، ادب اور دانش سے ایک دنیا استفادہ حاصل کرتی ہے مگر چونکہ ان کا فن اور خیالات بشری خامیوں سے مبرا نہیں لہذٰا انہیں تقدیس کا مقام بھی نہیں دیا جاتا اور نہ ہی ان پر تنقید قابل ملامت فعل سمجھی جاتی ہے۔
اگر ہم اقبال کے نظریات اور شخصیت کو پرکھتے ہیں تو یہ اندازہ ہوتا ہے سرکاری سطح پر رحمتہ علیہ بنائے جانے والے اور اصل اقبال دو مختلف شخصیات ہیں۔
پاکستان کا قومی شاعر بنائے جانے سے پہلے والے اقبال ایک شاعر اور عام انسانوں کی صفات رکھنے والی شخصیت ہے، جس نےمختلف موضوعات پر شاعری بھی کی اور بادشاہوں کے قصیدے بھی لکھے اور محبت بھی، اقبال نے عشق بھی کیا اور اس بازار جاکر گیت و سنگیت سے بھی لطف اندوز ہوئے، عطیہ فیضی اور Emma Wegenast کو عشقیہ خطوط میں اپنے جذبات سے آگاہ بھی کیا، اور سچی محبت نہ ملنے کے دکھ بھی بیان کیا۔ یہ سب ایک نارمل انسان کا رویہ ہے کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔
اقبال کی شاعری ان خیالات کے حوالے سے شدید تضادات کا مجموعہ ہے جس میں ہر طبقہ فکر کا فرد اپنی سوچ کے مطابق کچھ نا کچھ ان کے کلام سے ڈھونڈ لاتا ہے۔
جس طرح ہر وہ مسلمان جس پر ادھیڑ عمر میں آکر ہدایت کے بند باب وا ہوجاتے ہیں اقبال بھی اسی قبیل میں سے ایک ہیں جنہوں نے شاعری میں عمل، دانش، فکر اور فلاسفی کی جگہ صرف مذہب ڈال دیا اور نوجوانوں کو دنیا کی ترقی کے بجائے نکمے پن یا جہادی بننے کے گر سکھانے پر اکتفا کرلیا۔
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے۔
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
ریاست نے اقبال کے تصوف اور اسلامی نشاہ کی فکر کے نام پر مذہبی جنونیت، جہاد، جہالت، جنگ وجدل، شہادت کا خوب پر چار کیا۔ اقبال کی بے تکی خودی، عقل مخالف تصوف، ترقی و جمہوریت پسندی کی مخالفت اور دیگر دقیانوسی خیالات نے تقریباً ہر پاکستانی کو اقبال بنادیا۔
جب ہر شخص اقبال ہوگا تو پاکستان کے حالات بر تعجب کیسا!!
لہذا بھگتیں مولوی خادم حسین رضوی، اوریا مقبول جان، مولانا طارق جمیل، انصار عباسی، قاسم علی شاہ، اور تو اور ابھی جو زمین سے پورے باہر نہیں نکلے حماد صافیوں جیسے نومولودوں کو!!!!
تمھارے نام آخری خط
آج سے تقریباً پندرہ سال قبل یعنی جون 2008میں شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے ’اثبات‘ کااجرا کرتے ہوئے اپنے خطبے...