ایک نوخیزلفٹینی کےدنوں کی یادہے۔ آٹھ ڈویژن کےبیٹل سکول میں آفیسرویپن کورس تھا، سنگین لڑائی(bayonet fighting) کی سنگین ترہوتی مشقیں تھیں اورہم تھے
ح ےےدررر!! پری۔بٹ۔کٹ۔پائنٹ ودڈرا!
(ہمارے فوجی بھائی زیرِلب مسکرارہےہیں)
دن بھرکی تھکن کےغبارمیں ہم کمرےمیں واپس ہوئےتوہم سےپہلے ہماراکورس میٹ دیما ***دا ایک سکوت کےعالم میں بستر پردراز تھا۔ ہمارےاستفسارپرکہ ’دیمے! کیاکررہا ہے؟‘ اطمینانِ قلب کی آخری سیڑھی سےاس کی آواز آئی ’یار میں کچھ بھی نہیں کررہا، سانس بھی نہیں لےرہا۔ اپنےآپ آرہی ہےاپنےآپ جارہی ہے‘ صاحبو، فوج کی ناپائیدار زندگی کی حشر سامانیوں میں سے ’کچھ بھی نہ کرنے والی‘ چند ساعتیں رب کائنات کی گرانقدرنعمتوں میں سے ایک نعمت ہیں
چند کلیاں نشاط کی چُن کر مدتوں محو ’سپاس‘ رہتاہوں
توایسے ہی ’کچھ نہ کرنے‘ والے دنوں کا ذکر ہے۔پلٹن سیاچن کے برفاب سے سیالکوٹ اورسمبڑیال ڈرائی پورٹ کی حدِفاصل ریاست ہائےمتحدہ اگوکی کےخط استوامیں اترآئی تھی۔ وہ گرمی تھی کی چیل انڈا اور ہم کمبل کوچھوڑتےتھے۔
افسرانِ خوش خصال ساتھ کےگاؤں سےسپلائی ہوئےمکھن کےپیڑے کوافسر میس کےپراٹھےپر پگھلا چائےمیں ڈبو چیراٹھےکالطف لیتے اور رب کا شکر ادا کرتے تھے۔
اورتواوریونٹ ٹی بارمیں ستو اورشکربھی دستیاب تھی اورکبھی کبھی تپتی دوپہروں میں شیخ رشیدکامقولہ عباسیہ کےافسروں پر حرف بہ حرف صادق آتاکہ ‘فوج ستو پی کے سورہی ہے’
راتیں یونٹ کےسیکنڈ ان کمانڈ کی ذاتی سرپرستی اورمیجر چشتی رحمتہ اللہ علیہ کی آغوش میں ٹوہارٹس اورتھری نو ٹرم کی گردانیں بھگتانےمیں گزرتی تھیں۔ تڑکے فجر کی اذانوں کے ساتھ جب شو ٹوٹتا تو نماز کے بعد علی الصباح میجر علی رضا نقوی کے کمرے سے نصرت فتح علی کی تان بلند ہوتی
ندیوں پار رانجھن دا ٹھانڑاں
کیتے قول ضروری جانڑاں
منتاں کراں ملاح دے نال
من اٹکیا بے پرواہ دے نال
میجر نقوی پی ایم اے پلاٹون کمانڈر رہ کر حال ہی میں واپس آئے تھےاور ایک طرح سے یونٹ سلیبرٹی تھے۔ آپ کی پسند ناپسند بی او کیو کے بیچلرز کے لیے فیشن سٹیٹمنٹ ہوا کرتی تھی۔
اس سارے ہنگام میں یونٹ کے سب سے جونیئر افسر (اس سے مراد ہم خود ہیں) کی گردن مسلسل چھری تلے آئی رہتی تھی کیپٹن ظلِ حسنین یونٹ کےایڈجوٹنٹ تھےاور ہم سیکنڈ لیفٹین مرتا کیانہ کرتاکےمصداق ان کےروم میٹ، وجہ یہ تھی کہ ہمارےکتب بینی اورموسیقی کےذوق بہت ملتےتھے۔ اللہ کیپٹن حسنین کااقبال بلندکرےایڈجوٹنٹ ہونےکےناطے آپ کٹھور افسر تو تھے ہی فرائض کی ادائیگی میں اپنےسےجونیئرافسروں کو زچ کرنےکا کوئی موقع ہاتھ سےجانےنہ دیتے۔ بہت دفعہ ایساہواکہ ڈیوٹی افسرکےفرائض کی انجام دہی میں آپ نےاس مظلوم افسرکو رات کےتینوں پہرمختلف اوقات میں یونٹ کی گارڈ چیک کرنےبھیجا اس احتیاط کےساتھ کہ درمیانی وقفےمیں گھڑی بھرکوآنکھ تولگے مگرنیند کی راحت سےپہلےہی ہڑبڑاکراگلےراؤنڈکاوقت ہوجائے۔
بہت دفعہ ایساہوا کہ مصحفی کاکلام طاہرہ سید کی آواز میں سنتے ہوئےہم کمرےسے گارڈ معائنےکا مہورت کرنےپہلےراؤنڈپرروانہ ہوئے
آتا ہے کس انداز سے ٹک ناز تو دیکھو
کس دھج سے قدم پڑتا ہے انداز تو دیکھو
اورتیسری دفعہ کےگارڈ معائنےسےواپسی پرکیپٹن حسنین نےبصد نازوفرمائش ملکہ پکھراج سنوائی لطف آنے لگا جفاؤں میں
وہ کہیں مہرباں نہ ہوجائے
بے زبانی زباں نہ ہوجائے …
اور پھرکچھ ہی دیر میں فجر کے بعد وہ پو پھٹی وہ کرن سے کرن میں آگ لگی کے سمے میجر نقوی کے کمرے سے مانوس تان بلند ہوتی
من اٹکیا بے پرواہ دے نال ۔۔۔
اچھا اس تمام جنجال پورے میں
اپنی دھن میں رہتاہوں ، میں بھی ‘اپنے’ جیسا ہوں کی کامل تفسیر میجر زاھد اشرف بھی تھے۔ روزانہ شام کوبلاناغہ ٹیبل ٹینس کی نشست پر ٹی وی روم کے ڈیک پر اونچی آواز سے فلم کوئلہ کا مادھوری ڈکشٹ پر فلمایا گیت سنتے اور سنواتے۔ صاحبو کویتا کرشنامورتی نے بھی تو یہ کلام کچھ جی توڑکے گایا ہے اپنے من کی میں جانوں، پی کے من کی راااام
سانسوں کی مالا پہ ۔۔۔۔
سن کے میجر صاحب خود بھی مائل بہ گداز ہوتے اور ان کی حالت دیکھ کے ہمارا بھی دل پسیج جاتا
آپ بھی اشکبار ہو مجھ کو بھی اشکبار کربہت بعدکےدنوں میں جب ہم اکتسابِ گنری کی نیت سے عازمِ نوشہرہ ہوں گے تو میجر زاھد بھی سکول آف آرٹلری میں سکونت پذیرہوں گے۔ تب تک منی رتنم، اے آررحمان اور گلزار کی جوڑی ‘دل سے’ تخلیق کرچکی ہوگی۔ گنری کے پیچ و خم سے جب دل گھبرائے گا تو اسے میجر زاھد اشرف کی بیٹھک میں ہی اماں ملے گی اور تب لتا کی فنی معراج ’جیاجلے جاں جلے، نینوں تلے‘ کی سریلی نزاکتیں میجر زاھد اشرف کے سوا ہمیں اور کون سمجھائے گا ….
ـــ
(اچھا صاحب اگوکی کے اس دلفریب مسخاکے کی یادیں پرانے رشتوں کی طرح الجھی ہوئی ہیں۔ ان میں سے ہم جسقدر کچھ برآمد کرسکے ترتیب دے کر وقتاً فوقتاً اپنے پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔
آپ کا بہت شکریہ)
حاشيہ آرائی
___
اس تهريڈ کی ابتدائی ٹوئيٹ ميں ہم نے byonet fighting کا ذکر کرتے ہوئے ايک خالص فوجی ترکيب استعمال کی تهی
ح ےےدررر!! پری۔بٹ۔کٹ۔پائنٹ ودڈرا!
ميدانِ جنگ میں حملے کے آخری مرحلے ميں مورچوں ميں اگر دو بدو لڑائی کی نوبت آجائے تو سنگين لڑائی اس کی مشق ہے۔ ايک تهکے ٹوٹے جُسّےميں جان پهونکتی حضرت علی حيدرِ کرار سےمنسوب حيدررر کی لکار ہےاور اس کےبعد دشمن کےوار کوجهيلتے اس کےسينے میں سنگين ترازو کرتےکچھ لڑائی کےپينترےہيں۔
ہمارے پڑهنےوالے اگر اس کی تمثيلی جهلک ديکهنا چاہيں تو YouTube پر byonet fighting کو تلاش کرليں
___