امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ریکس ٹلّرسن کو امریکہ کا نیا سیکرٹری آف سٹیٹ مقرر کیے جانے کا دو ایک روز سےروس کے ذرائع ابلاغ میں بہت تواتر سے ذکر کیا جا رہا ہے۔ پہلے صدر روس ولادیمیر پوتن کے معاون خاص یوری اوشاکوو نے ایکسون موبل کے سربراہ ریکس ٹلّرسن کو امریکہ کا نیا سیکرٹری آف سٹیٹ یعنی وزیر خارجہ نامزد کیے جانے پر اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ روس ان کے ساتھ مل کر روس امریکہ تعلقات میں اٹکی گھنڈی سے نکلنا چاہے گا۔ اس کے بعد روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروو نے بیان دیا کہ روس امریکہ کے نئے سیکرٹری آف سٹیٹ کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہے گا ساتھ ہی خود ٹلّرسن نے امریکہ کے ایک چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ روس کے خلاف (امریکہ کی عائد کردہ) پابندیاں غیر موثر ثابت ہوئی ہیں۔
دنیا کو، جس کے کان میں پھونک دیا گیا ہے کہ روس کے ہیکروں نے امریکہ کے صدارتی انتخابات میں تکنیکی بدعنوانی کرکے ڈونلڈ ٹرمپ کو جتوایا ہے، یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے دوست کو امریکہ کا نیا سیکرٹری آف سٹیٹ نامزد کر دیا ہے۔
دونوں ہی باتیں عجیب ہیں۔ پہلی یہ کہ امریکہ کی تاریخ میں شاید پہلی بار ایک ٹاپ کمرشل مینیجر کو امور خارجہ سے نمٹنے کی ذمہ داری سونپی جا رہی ہے اور دوسری یہ کہ امریکہ کے روایتی مدمقابل ملک کے ایسے صدر کی کاروبار سے وابستہ ایک فرد کے ساتھ دوستی کا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے جن کا کاروبار سے دور پار کا لینا دینا نہیں رہا۔ ان کا تعلق یا تو خفیہ معلومات حاصل کرنے سے رہا یا امور مملکت چلانے سے۔ بات یہ ہے کہ ایکسون موبل روس میں بہت سے منصوبوں پر اپنے طور پر یا مشترکہ کام کرتی رہی ہے اور کر رہی ہے۔ ایکسون موبائل کے سربراہ ریکس ٹلّرسن نے روس کے خلاف امریکہ اور اس کے حامی یورپی ملکوں کی جانب سے اقتصادی پابندیاں لگائے جانے کی مخالفت کی تھی۔ وہ اپنی کمپنی کے منافع جات کے حوالے سے ایسا کہنے پر حق بجانب تھے۔
جس طرح کسی ملک میں "یو ٹیوب" بند کیے جانے کے بعد اس تک رسائی کے ایک سو بیس طریقے ہوتے ہیں، اسی طرح اقوام متحدہ کی بجائے کسی ملک یا ملکوں کی جانب سے کسی ملک یا ملکوں پر لگائی گئی اقتصادی پابندیوں سے بچ کر کام کرنے کے بھی پچیس طریقے تو ہوتے ہی ہونگے چنانچہ ایکسون موبل نے روس میں رجسٹر شدہ اپنی ذیلی کمپنیوں کے ذریعے روس کی سرزمین پر اپنے منصوبوں پر کام کرنا جاری رکھا تھا۔ ان کی اس چابک دستی کے ضمن میں انہیں " آرڈر آف دی فرینڈشپ" کا تمغہ اعزاز کیا گیا تھا۔ یہ تمغہ ملک کے سربراہ کے ساتھ بہتر تعلقات کے صلے میں نہیں بلکہ اس ملک کے ساتھ دوستی نبھانے کی خاطر دیا جاتا ہے۔
آج یعنی 14 دسمبر 2016 کو اٹلی کے اخبار "لا ستامپا" نے لکھا ہے ممکن ہے ریکس ٹلّرسن چاہیں کہ اٹلی کے شہر تیورمانے میں ہونے والی جی سیون کی سمٹ میں روس کو بھی مدعو کر لیا جائے۔ یاد رہے کہ کریمیا کو روس میں ضم کیے جانے کے بعد روس اور یوکرین کی مخامصمت میں یوکرین کا ساتھ دیتے ہوئے امریکہ اور دیگر یورپی ملکوں نے جی سیون میں روس کی رکنیت معطل کر دی تھی۔ یہ بھی یاد رہے کہ جس طرح ایکسون موبل کارپوریشن کے سربراہ بقول ان کے، ان کی کمپنی کو ان پابندیوں کی وجہ سے قریبا" ایک ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے، کی وجہ سے ان پابندیوں کے مخالف ہیں اسی طرح اٹلی بھی خوش نہیں ہے کیونکہ وہاں سے سبزیاں اور پھل روس کو درآمد کیے جانے کا کام بھی گذشتہ تین برس سے رکا ہوا ہے چنانچہ اٹلی بھی چاہے گا کہ یہ پابندیاں ختم ہوں۔
یہ درست ہے کہ تیل کی قیمتیں مسلسل کم ہونے اور روس پر امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے عائد کردہ اقتصادی پابندیوں سے روس کے روبل کی قدر نصف ہو گئی۔ لوگوں کو ملازمتوں سے نکالنا پڑا۔ اشیائے صرف مہنگی ہوئیں اور تنخواہیں کم لیکن یہ امر قطعی فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ روسی بہت زیادہ محب وطن لوگ ہیں اور وہ اپنے معاملات میں کسی بیرونی ملک کی مداخلت کا جواب دینے کی خاطر بے حد سختیاں بھی بخوشی برداشت کر لیتے ہیں تاہم ان پابندیوں کی وجہ سے پولینڈ، جرمنی، یونان اور اٹلی کے کاروباری لوگ بھی خاص طور پر شدید متاثر ہوئے ہیں۔ جس طرح کچھ عرصہ کے لیے روس ترکی تعلقات خراب ہونے سے ترکی کی تجارت اور سیاحت کو شدید نقصان پہنچا تھا اس طرح یورپی ملک بھی نقصان پر نقصان کیے جا رہے ہیں۔
ریکس ٹلّرسن کے سیکرٹری آف سٹیٹ مقرر ہونے سے معاملات کو دو طرفہ مفاد کی بنیاد پر حل کرنے میں مدد مل پائے گی۔ روس پر سے اقتصادی پابندیاں ہٹا لیے جانے سے جہاں ایک طرف روس میں سہی جانے والی اقتصادیاں سختیاں نرم پڑیں گی وہیں یورپ کے کاروباری حلقے بھی اس پیش رفت سے مستفید ہونگے۔
کاروباری امور کو احسن طریقے سے نمٹانے والی یہ شخصیت کیا امور خارجہ کو بھی اسی طرح بہتر طور پر حل کر پائے گی یا نہیں اس کے آثار بہر حال آئندہ چند ماہ تک ہی سامنے آئیں گے۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1652912051401565
“