ایک دفعہ کا ذکر ہے، ریشم کی سرزمین میں ایک خوبصورت شہزادی رہا کرتی تھی۔ ایک روز بادشاہ نے اسے بتایا کہ اس کی شادی قیمتی پتھروں کی زمین کے بادشاہ سے طے کر دی گئی ہے۔ پتھروں کے بادشاہ کو ریشم بنانی نہیں آتی تھی۔ یہ ریشم کے بادشاہ کا راز تھا۔ شہزادی نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی نئی رعایا کے لئے ایک قیمتی تحفہ لے کر جائے گی۔ ریشم کے راز کا تحفہ۔ اس کے ذہن میں اس کے لئے ایک ترکیب آئی۔ اس کے لئے درکار سارا سامان، جیسا کہ شہتوت کے بیج اور ریشم کے کیڑے کے انڈے سر پر باندھی شاہی چادر میں لپیٹے۔ اسے پتا تھا کہ شاہی گارڈ اس کے سر کی تلاشی نہیں لیں گے۔ خوتان کی سلطنت کو ریشم کا راز مل گیا۔
آج سے 1400 سال پہلے ہونے والی ٹیکنالوجی کی یہ بڑی چوری کی کہانی “ریشم کی شہزادی کی داستان” سے مشہور ہے۔ خوتان سِلک روڈ پر آزاد سلطنت ہوا کرتی تھی جو آج مغربی چین کا حصہ ہے۔ اس راستے پر ہونے والی تجارت میں قافلے یہاں سے گزرا کرتے، پڑاوٗ ڈالا کرتے۔
سِلک روڈ قدیم زمانے کا انٹرنیٹ کہا جاتا ہے۔ بحرالکاہل سے بحیرہ روم تک ساڑھے چھ ہزار کلومیٹر لمبا راستوں کا نیٹورک۔ جہاں سے نہ صرف ریشم، عطر، گینڈے کے سینگ، سونا، جواہرات، مصالحے گزرا کرتے، بلکہ لوگ، عقائد، خیالات، ٹیکنالوجی، کہانیاں، موسیقی بھی۔ بدھ مت انڈیا سے یہاں داخل ہوا اور چین کے مشرق تک پہنچا۔ اسلام ایشیا میں دور تک پہنچا۔ ان کا راستہ یہی رہا تھا۔
سِلک روڈ کی اصطلاح 1887 میں جرمن جغرافیہ دان نے بنائی تھی۔ اس نام کی وجہ مغرب میں ریشم کا سحر تھا۔ دور سے آنے والا خوبصورت، پرتعیش اور پائیدار میٹیریل جو عجیب تھا اور پرسرار تھا۔ ریشم ہزاروں سال تک چین کا چھپایا گیا راز رہا۔ راز کہانیوں کو جنم دیتا ہے۔ پرومیتھیس کی چرائی آگ کی طرح شہزادی کی ریشم کی کہانی بھی مشہور ہے۔ اس قصے میں شہزادی نے خانقاہ تعمیر کروائی۔ شہتوت کے درخت اگائے، ریشم کے کیڑے پالے جن کو کوئی نہیں مار سکتا تھا۔ سِلک روڈ پر ملنے والی عبادت گاہوں میں مہاتما بدھ، ہندو اور فارسی دیوتا کے ساتھ ریشم کی شہزادی کی یادگاریں بھی ہیں۔ آج کے خوتان (چین کے موجودہ صوبہ ہیتان) میں ریشم ایک بڑی صنعت ہے اور سالانہ پندرہ کروڑ میٹر پیدا کی جاتی ہے جسے کپڑوں اور قالینوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریشم کی پیداوار کو سیریکلچر کہا جاتا ہے۔ سب سے پرانی ریشم چین میں 3630 قبلِ مسیح میں حینان کے صوبے میں ملی ہے، جو چینی تہذیب کا گڑھ رہا، جبکہ ایک چھ سے سات ہزار سال پرانے ہاتھی دانت کے برتن پر ریشم کا کیڑا بنا ملا ہے۔ چین کی اپنی لوک کہانیوں کے مطابق ریشم سے کپڑا بنانے والی کھڈی کو چینی ملکہ سی لنگ شی نے ایجاد کیا تھا اور سیریکلچر کی بھی ابتدا کی تھی۔ کچھ چینی ٹیکسٹ میں سی لنگ شی کو ریشم کی دیوی کہا گیا ہے۔ بہت لمبا عرصہ ریشم صرف چین کے بادشاہ، شاہی خاندان اور اعلیٰ عہدیداروں تک محدود رہا۔ بادشاہ سفید ریشم محل میں پہنا کرتا۔ باہر جاتے ہوئے زرد ریشم۔
بڑے عرصے کے بعد پہلے یہ امراء تک پہنچا، پھر دوسرے استعمال بھی شروع ہوئے۔ دستاویزات جو ریشم کے کپڑے پر لکھی جاتیں۔ مچھلی کے کانٹے میں، موسیقی کے آلات میں۔ اس نے چینی زبان کو متاثر کیا۔ آج بھی مینڈرن کے پانچ ہزار میں سے دو سو الفاظ کا تعلق ریشم سے ہے۔
ہان کے دور میں ریشم کرنسی کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔ سرکاری ملازمین کو تنخواہ ریشم کی صورت میں دی جاتی رہی۔ کسی چیز کی قیمت کا یونٹ ریشم کے دھاگے کی لمبائی بن گیا، ویسے ہی جیسے دنیا میں کئی جگہوں پر سونا یا چاندی کا وزن قیمت کا یونٹ رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہزاروں سال چین تک محدود رہنے کے بعد ریشم کا راز پھیلنا شروع ہوا۔ خوتان میں ریشم کا راز پہنچانے والی کی شہزادی کی کہانی 440 کی ہے۔ ساتھ لگی تصویر اس شہزادی کی جو خوتان سے ایک بدھ خانقاہ سے 1900 میں ملی تھی۔
ریشم کی تاریخ پر