بسم اللہ الرحمن الرحیم
رپورٹ پروگرام نمبر۱۔ زیرِ انتظام توازن اردو ادب
بعنوان:
حمد باری تعالی
تحقیق و تحریر:
احمدمنیبؔ
حمد کی تعریف:
حمد عربی لفظ ہے،جس کے معنی‘‘تعریف‘‘ کے ہیں۔ اللہ کی تعریف میں کہی جانے والی نظم کو حمد کہتے ہیں۔ حمد باری تعالیٰ،ہر زبان میں موجود ہے۔ عربی، فارسی، کھوار اور اردو زبان میں اکثر دیکھی جاسکتی ہے۔
حمد و مناجات کے متبادل انگریزی کے کئی الفاظ وضع کیے گئے ہیں:
Praise of God
اور Hymn
یا پھر Psalm ہے ۔
ان کا لفظی معنی (Literal Meaning) یا حتمی تعریف ثنائے رب کریم ہے۔
اللہ کی تعریف و توصیف ہر زمانے میں ہوتی رہی ہے۔ یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ اللہ رب العزت یعنی خدا کو انگریزی میں God کہتے ہیں۔
G یعنی Generator ،
Oیعنی Operator ،
D یعنی Destructor مطلب یہ کہ خدا خالق، پالنہار اور قہار بھی ہے۔
ہندو دھرم میں اس کے متعدد ناموں میں ایک نام ’’نارائن‘‘ ہے۔سنسکرت کے اس لفظ کا اشتقاق کچھ یوں ہے۔ ’’نار‘‘ بمعنی پانی اور ’’آئن‘‘ بمعنی متحرک۔ ڈاکٹر یحییٰ نشیط کے مطابق ادیان سنسکرت نے اس کا معنی قرآن کی آیت ’’وکان عرشہ علی الماء‘‘ (خدا کا عرش پانی پر ہے) سے ملا دیا ہے۔
اس ترکیب کے دوسرے معنی بھی دستیاب ہیں۔ مثلاً ’’نار‘‘ بمعنی آگ اور ’’آئن‘‘ بمعنی ہالہ، گھیرا یعنی نور کے ہالے والا۔ اس معنی کے رو سے بعض نے ’’اللہ نور السمٰوت والارض‘‘ سے ملایا۔ مطلب یہ کہ ثنائے رب جلیل کے عالم انسانیت کے جذبے اور رویے میں یکجہتی اور یکسانیت کے آثار پہلے سے ہی موجود ہیں۔ تفریق و امتیاز محض مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے عقائد میں ہے لیکن سبھی کے عقائد خداوندی میں تلاش وحدت ہی ہے۔
فرہنگ آصفیہ، جامع اللغات، نور اللغات اور دوسری لغت کی کتابوں میں ’’مناجات‘‘ کے لغوی اور فنی معنی اپنا بھید کہنا یا پھر طلب نجات کے لئے خدا کی بارگاہ میں دعا کرنا سے بیان کئے گئے ہیں۔
قرآن کریم اور حمد و مناجات:
مدح کے لغوی معنی تعریف، توصیف، ستائش جبکہ منت سماجت بمعنی عرض معروض، خوشامد اور درخواست ہیں۔
اول الذکر سے ’’حمد‘‘ اور ثانی الذکر سے ’’مناجات‘‘ کی اصطلاحات مشتق ہیں۔ یہ اصطلاحات ذات باری تعالیٰ کے لئے مخصوص ہیں۔ لہٰذا حمد اور مناجات کا اطلاق خدائے وحدہ لاشریک کے علاوہ کسی اور کے لئے روا نہیں رہا۔
مولانا ابوالکلام آزاد حمد کی تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
’’عربی میں حمد کے معنی ثنائے جمیل کے ہیں یعنی اچھی صفات بیان کرنا۔ اگر کسی کی بری صفتیں بیان کی جائیں تو وہ حمد نہ ہو گی۔ ‘‘ (ترجمان القرآن، جلد اول،ص:۳۱)
قرآن حکیم کی کئی سُوَر کا حمد یا الحمد کے لفظ سے آغاز اس کاغماز اور ترغیب ہے کہ بندے بھی اللہ کی پاکی بیان کریں۔ پس خدائے لم یزل کی پاکی بیان کرنا، اس کی ذات و صفات کی تعریف حمد ہے اور یہ قرآن حکیم کا منفرد اسلوب بیان ہے۔
سورۃ الحشر، الصف ،سورۃ الجمعہ اور التغابن کی ابتدا میں ہے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے اللہ کی تسبیح و حمد کرتا ہے ۔ مؤمنین کو بعض جگہ حکم دیا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کیاکریں۔ مثلاً:
’’سبح باسم ربک الاعلیٰ‘‘ (سورۂ الاعلیٰ، آیت نمبر ۱)
’’واللہ الاسماء الحسنیٰ فادعوابھا‘‘ (سورۂ الاعراف، آیت نمبر ۱۸۰)
اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا احاطہ ممکن نہیں اس لئے حمدمیں جو چاہے بیان کر لیں اسے مبالغہ نہیں بلکہ حقیقت ہی کہا اور سمجھا جائے گا۔
حمد مدح رب العالمین ہے تو مناجات اس سے مانگنے کا ایک مخصوص انداز! بندہ اپنے رب کے حضور خودکو کمتر، حقیر اور گناہ گار پیش کرتے ہوئے التجا کرتا ہے۔ ہر مناجات دعا کا ہی رنگ رکھتی ہے میرا ماننا ہے کہ دعا تو ہر کوئی کرتا ہے لیکن مناجات کا تعلق ایمان سے ہے۔ سورۂ فاتحہ حمد و مناجات کی بہترین مثال ہے۔
قرآن پاک میں حمد کے مفہوم کی بے شمار آیات موجود ہیں جن میں سے چند نمونہ پیش ہیں۔
الحمد اللہ الذی خلق السمٰوٰت والارض (سورۃ الانعام )
ھواللہ الذی لا الہٰ الاھو، عالم الغیب والشھادہ ھوالرحمن الرحیم۔ ھواللہ الذی لا الہٰ الاھو الملک القدوس السلام المؤمن المھیمن العزیز الجبار المتکبر سبحٰن اللہ عما یشر کون۔ ھواللہ الخالق الباریٔ المصورلہ الاسماء الحسنیٰ یسبح لہ مافی السمٰوٰت والارض وھوالعزیز الحکیم۔ (سورۃ الحشر آخری تین آیات)
آیت الکرسی حمد کی بہترین مثال ہے۔
حمد و مناجات اور شریعت:
دعا، مناجات، التجا، گزارش، دہائی، فریاد، معاونت یا استعانت مترادفات ہیں۔ جب ان الفاظ کا رشتہ براہ راست خالق کائنات سے جُڑتا ہے تو نہ صرف ان کا احاطہ فکر وسیع و آفاقی ہو جاتا ہے بلکہ عقیدتوں کی پاکیزگی ، ادب و احترام کی نازکی اور روحانی لطافت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ روحانی اثرات پر مکمل یقین اور اعتقاد رکھنے والا جھونپڑی کا مکین ہو یا محل میں قیام پذیر، آقا ہویا غلام، کسان ہو یا امیر ذیشان، قلندر ہو یا سکندر، شاہ ہو کہ گدا، ڈاکٹر،عالم، انجینئر یا سائنسدان ہو یا ناخواندہ سیدھا سادا ملازم پیشہ انسان۔ اس کی زندگی کے تمام گوشے، سکھ دکھ، اونچ نیچ، دھوپ چھاؤں یہاں تک کہ فرط انبساط اور دلفگار غم میں بھی ایک دلربائی اور چہروں پر قلب مطمئنہ کا جمال نظر آئے گا۔
آستان ناز پر جس کی جبیں ہے سجدہ تو کیا
اس کو کوئی تاج سلطانی بھی پہنائے تو کیا؟
اللہ کو ’’علی کل شیئٍ قدیر‘‘ تسلیم کر کے اپنی عاجزی، انکسار، بے کسی اور مجبوریوں کا اظہار اسلوب مناجات ہے ۔
حضرت فرید الدین عطارؒ فرماتے ہیں :
ذکر حق آمد غذا ایں روح را
مرہم آمد ایں دل مجروح را
حضرت مولانا رومیؒ فرماتے ہیں :
خود چہ شیرین ست نام پاک تو
خوشتر از آب حیات ادراک تو
خاقانیؒ لکھتے ہیں کہ:
پس از سی سال این معنی محقق شد بخاقانی
دے با باد حق بودن بہ از ملک سلیمانی
حضرت سعدیؒ اور حکیم سنائی نے اسم ذاتی اللہ کو بہترین حمد و مناجات قرار دیتے ہوئے ’’سلطان الاذکار‘‘ کہا ہے۔
اسلامی معاشرے کا یہ خاصہ ہے کہ
کسی کام کی ابتدا کرے تو کہے، بسم اللہ۔
وعدہ کرے تو کہے، ان شاء اللہ۔
کسی خوبی کی تعریف کرے تو کہے، سبحان اللہ۔
کوئی تلطف اور تکلف سے پیش آئے تو کہے، جزاک للہ۔
کسی سے اپنی خیر و عافیت کا ذکر کرے تو کہے، الحمد اللہ۔
جانے اَن جانے میں گناہ سرزد ہو تو کہے، استغفراللہ۔
کسی کو رُخصت کرے تو کہے،فی امان اللہ،
نا زیبا کلمات زبان و قلم پر آئیں تو کہے، نعوذ باللہ اور
موت کی خبر سنے تو کہے، انا للہ و انا اللہ راجعون۔ وغیرہ وغیرہ۔
حمد و مناجات کا اسلوب:
حمد و مناجات کا اپنا کوئی مخصوص اسلوب نہیں ہے۔ غزلیہ ہیئت کے علاوہ قصیدہ، مثنوی، قطعہ، رباعی، نظم، آزاد غزل، مخمس، مسدس، مثلث، مربع، ثلاثی، دوہے، سانٹ، ترائیلے اور ہائیکو جیسی اصناف میں بھی حمدیہ و مناجاتی شاعر ی ہو رہی ہے لیکن غزلیہ ہیئت کو دیگر اصناف کے مقابلے میں بہرحال زیادہ شہرت ملی ہے۔
حمد کی تاریخی اہمیت:
حمدیہ ترانوں کے ابتدائی نقوش اور تاریخی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے ڈاکٹر یحییٰ نشیط فرماتے ہیں :
’’ کُلدانیوں اور حُطیوں کے مٹی کی پکی اینٹوں پر کندہ کیے گئے حمدیہ ترانوں سے لے کمپیوٹرائزڈ کتابوں کے دور تک حمدیہ ترانے برابر لکھے اور اَلاپے جا رہے ہیں۔ ان کی گنگناہٹ جہاں فضائے آسمانی کو معمور ہوئے ہے وہاں قلوب انسانی میں بھی ہلچل پیدا کرنے کا سبب ہے اور بعید نہیں کہ ثنائے رب کریم کا یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے۔ ‘‘
حمد کی دینی و ادبی قدر و قیمت:
حقیقی معبود اللہ رب العزت ہے، وہی ادب کا ہنر بھی عطا کرتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پروردگار نے مجھے ادب عطا کیا ہے۔ دراصل ادب ظاہر اور باطن کی تہذیب اور آراستگی ہے۔ کمال، مکارم اخلاق سے اور مکارم اخلاق، تحسین اور تہذیب خلق سے ہے۔ اردو زبان میں جب سے شاعر ی کا تجربہ ہوا تبھی سے حمد لکھی گئی۔
حمد کی دینی اور ادبی قدر و قیمت کی وجہ سے یہ صرف ہمارے مضطرب جذبات کی تسکین کا سامان، تفنن طبع، احساس جمال، انفرادی لذّت کوشی، خوف خدا، بصیرت و بصارت کی توثیق یا شاعر ی برائے شاعر ی ہی نہیں ہے بلکہ ادب میں اس کی مستقل صنفی حیثیت ہے۔ یہ درست ہے کہ عروض و بلاغت اور قواعد ِاصنافِ سخن کی کتب میں حمد و مناجات کی صنفی حیثیت کا ذکر نہیں ہے کیونکہ عقیدت اور بسم اللہ کے طور پر حمدکہی جاتی ہےاور حمد و مناجات کے لئے والہانہ عشق ضروری ہے کیونکہ اظہار افعال و اعمال سے وابستہ ہے۔ مہارت و محاربت، متانت و سنجیدگی اور جوش ربانی کی فراوانی کے بغیر کوئی بھی شاعر حمد میں اظہار عقیدت نہیں کر سکتا۔
الہام، القا، گیان اور دھیان کے تصور سے مملو یہ صنف سخن، ماورائی، داخلی اور ذہنی قوت کی دین ہے۔ شعر ی روایت کے معنوی تسلسل میں حمد تصور و تفکر، عبقریت، ذہنی رفعت اور جذبات و حواس کے ذریعے سے دخیل ہے۔ سیموئل ٹیلر کولرج کہتے ہیں:
’’میں متخیلہ کو بنیادی اور ذیلی سمجھتا ہوں۔ بنیادی متخیلہ وہ ہے جو تمام انسانی ادراک کا محرک ہے اور وہ خارجی تخلیق کاری میں دماغ کے محدود حصہ کی نمائندگی کرتا ہے۔ جبکہ لامحدود حصہ اس کی ذات "I am” ہوتی ہے۔ ذیلی تصور بنیادی تصور ہی کی بازگشت ہوتا ہے جو شعوری ارادے کے ساتھ منسلک ہوتا ہے لیکن وہ تقریباً بنیادی تصور کی طرح تخلیق کا محرک ہوتا ہے۔ ‘‘
’’میں ہوں ‘‘ کی طرف سے موضوعی تخلیق کا یہ لائحہ عمل داخلی آواز ہے جو Objective Co-relatives میں ضم ہو کر شعر ی روایت کے داخلی اور خارجی عناصر کی Pure Subjectivity کی طرح حمدیہ شاعر ی کے معنوی تسلسل کو جنم دیتی ہے یا تابع بناتی ہے۔
آغازِ سخن وری سے ۱۹۳۷ء تک ادب اور مذہب ہم آہنگ رہےلیکن ترقی پسند تحریک اور روسی اشتراکیت کے نظریے سے متاثر ہونے والوں نے ادب اور مذہب کو تقسیم کرنے کی شعوری کوشش کی جس کا منفی اثر سرمایۂ ادب پر ضرور پڑا۔ لیکن ۱۹۶۰ء خصوصاً ۱۹۸۰ء کے بعد شعرا نے حقیقت سمجھ کر اس سے جان چھڑا ئی اور متعین طرز اظہار ’’حمد‘‘ کو بلا جھجک اپنا لیا ہے۔ قرآن کریم کے سولہویں پارہ میں سورۃ الکہف کی تیسری رکوع کی آخری آیت ہے کہ:
’’قل لوکان الجرمداد الکلمٰت ربی النفدالبحرقبل ان تنفد کلمت ربی ولوجئنا بمثلہٖ مددا۔ ‘‘
حمد سے بے توجہی کی وجہ Anthroposphere ماحول بھی رہا ہے۔ ویسے سچائی یہ بھی ہے کہ اردو میں حمدیہ شاعر ی کا پہلا مجموعہ غلام سرور لاہوری کا ہے جو ’’دیوان حمد ایزدی‘‘ کے نام سے ۱۸۸۱ء میں مطبع نول کشور، لکھنو سے شائع ہوا۔ مثال دیکھئے :
زباں پر ذکر حمد ایزدی ہر دم رواں رکھنا
فقط یاد الٰہی سے غرض اے مری جاں رکھنا
مختلف ادوار میں حمد کے فکری اور اسلوبیاتی تجربے ہوتے رہے اور یہ اسلوبیاتی تغیر مرحلہ وار محسوس کیے جاسکتے ہیں۔
حمد اور مناجات کی اہمیت و ضرورت:
حمد کا لفظ شکر کے لفظ سے زیادہ عام اور مقبول ہے اس لئے کہ وہ لازم اور متعدی دونوں صفات کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ مخلوق پر اللہ کی نعمتیں ان گنت ہیں ۔ انسان میں عالم اکبر کی تقریباً ساری ہی مثالیں موجود ہیں۔ ہمارا جسم حد نگاہ تک پھیلی ہوئی زمین کی طرح، ہمارے بال، نباتات کی مثال تو ہماری ہڈیاں پہاڑوں کی مانند ہیں۔ جسم کو خون فراہم کرنے والی شریانیں، وریدیں اور عروق شعر یعنی باریک رگیں تو دریاؤں، نہروں اور چشموں کی مثال ہیں جن کے ذریعہ عالم اکبر یعنی زمین کی سرسبزی کی طرح عالم اصغر یعنی ہمارے جسم کی شادابی برقرار رکھی جاتی ہے۔
جملہ نُعما متقاضی ہیں کہ انسان اپنے محسن اور منعم یعنی اللہ، الرحمن الرحیم کے احسانات اور انعامات کی شکر گزاری میں اس کی حمد و ثنا کرتا رہے جس کی ترغیب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے کلام پاک کو لفظ ’’الحمد‘‘ سے شروع فرما کر دلائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عبادات میں حمد و ثنائے الٰہی کا مقام کلیدی ہے۔
قدیم حمدیہ شاعر ی:
عربی، فارسی کی طرح اردو شاعر ی میں بھی حمد کہنے کی روایت برابر ملتی ہے۔ اردو شعرا نے عقیدت و ایمان کے گل ہائے معطر حمدکی لڑیوں میں پرو کر باری تعالیٰ کے اوصاف حمیدہ اور اسمائے حسنیٰ کے گیسو ہائے معتبر سجائے ہیں۔
’’کدم راؤ پدم راؤ‘‘ (۱۴۲۱ء اور ۱۴۳۴ء ) از فخر الدین نظامی بیدری کو حالیہ تحقیق کے مطابق اردو کی قدیم ترین تصنیف تسلیم کیا گیا جو اُردو مثنوی کے عناصر ترکیبی میں حمد و نعت و منقبت کا شہکار ہے۔
پھر عبدلؔ کاابراہیم نامہ،خوب محمد چشتی کا خوب ترنگ، شاہ برہان الدین جانم، غواصی، ابن نشاطی کا ’’پھول بن‘‘ تو صنعات لفظی و معنوی کا بیش بہا خزانہ ہے، نصرتی دکن کی دو مثنویاں ’’گلشن عشق‘‘ اور ’’علی نامہ‘‘،قلی قطب شاہ معانیؔ کا صنعت ردالعجز میں خوبصورت کام، علی عادل شاہ ثانی شاہیؔ کی حمدیہ غزل اور مثنوی ’’خیبرنامہ‘‘ حمد کے ارتقا کی مثالیں ہیں۔ ’’احسن القواعد‘‘ میں محمدنجف علی خاں نے مثنوی کے اقسام، اشعار اور اوزان سے بحث کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’داستان مثنوی کے لیے تمہید شرط ہے اور ربط کلام کا سلسلہ واجب اور مثنوی کے دیباچہ میں کئی چیزیں لازم ہیں توحید، مناجات، نعت، مدح سلطان زماں، تعریف کے دیباچہ میں ان سب باتوں کے موجد حضرت نظامی گنجوی ہیں۔ ان سے پہلے مثنوی کو فقط قصے سے شروع کیا کرتے تھے۔ ‘‘
فنی اعتبار سے مناجات کے اجزائے ترکیبی:
فنی اعتبار سے مناجات کے اجزائے ترکیبی حسبِ ذیل ہیں:
۱ تعریف خداوندی
۲ انسان کی بے کسی و عاجزی
۳ نجات طلبی
۴ حمدیہ استدلال
۵ دعائیہ
قارئین محترم!
توازن اردو ادب کے تحت منعقدہ14جولائی 2019ء حمدیہ دن کے صدر ذی وقار جناب کامل جنیٹوی صاحب کا تعارف اور سفرِ فکر و فن
محترم المقام عبدالغفار خان۔ کامل تخلص کرتے ہیں۔ یکم جنوری 1959 کو بھارت کے ایک دُور اُفتادہ قصبہ جنیٹہ ضلع سنبھل میں پیدا ہوئے۔
تعلیم نامکمل لیکن علم، باطن کا عرفان اور دیدہ ٔ گیان و سُت مکمل و کامل!
تاریخ گواہ ہے اور بڑے بزرگوں سے بھی سنا ہے کہ پہلے پہل جب سکول و مدارس کا مربوط نظام نہیں ہوتا تھا تو برصغیر میں لوگ اپنے بچوں کو قرآن کریم، کچھ احادیث اور تصوف کی کتب اور مثنوی از حضرت مولانا روم، بعض بزرگان دین متین سے درساً پڑھوایا کرتے اور زیورِ اخلاق و تمدن سے آراستہ کرواتے تھے۔
محدثین، مفسرین اور مؤرخین کا یہی وطیرہ دکھائی دیتا ہے کہ وہ تحصیل علم کی خاطر دوردراز کے سفر اختیار کرتے اور جہاں کنواں ملتا پیاسے اُمڈ آتے تھے۔ سبحان اللہ!
بخارا، ثمرقند اور نیشاپور سے اس زمانہ میں حجاز کا سفر آسان کام نہ تھا گویا قربانی کرنے والوں نے مبارک عضامِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم چن چن کر صحاحِ ستہ ترتیب دیئے۔
محترم کامل جنیٹوی آج کے دَور میں بھی ایسے دیہہ میں پیدا ہوئے جہاں آج بھی بقول شمُا اردو کا اخبار میسر ہے نہ کسی قسم کا ادبی ماحول۔ پھر اس قدر پختہ خیال، اعلیٰ شاعری اور قادرالکلامی محض عطائے ربانی نہ کہوں تو اور کیا ہے؟
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
گویا ادب و سخن کے یہ سوتے اندر سے پھوٹے!
تاریخ لکھنے کا فن، خطاطی کا فن اور اس قدر مہارت سے الاظ برتنے کا فن اللہ رب العزت کی عطا ہے۔
بدیع السماوات والارض نے اندھی عقل کو الہام کیا اور اسے دو آتشہ کر کے نورِ علم و معرفت کی مشعل جلائی جس کا نام عبدالغفار رکھا اور کامل سے مُخلّص کیا۔
سلیقہ ہی نہ ہو اظہارِ مدعا کا تو پھر
کسی دعا میں کسی کی اثر نہیں ملنا
ادراک کے بنا یہ بات کہی کیسے جا سکتی ہے؟
عجز کا اظہار اس سے بڑھ کر کیسے ہو کہ:
روز کہنے کو کہہ لیتا ہوں غزلیں کاملؔ
فنی اقدار سے اب تک ہوں مگر ناواقف
قادر الکلامی دیکھیے اور عاجزی مشاہدہ ہو۔
یہی ہے پھر اور تو کچھ نہیں!
کامل جنیٹوی کا اپنا کچھ نہیں سب میرے رب کی ربوبیت کی جلوہ گری ہے اسی لیے تو کامل اپنے پاس کچھ رکھتے نہیں جو لکھتے ہیں پیش کر دیتے ہیں اور اللہ رب العزت نے ایسے سامان پیدا فرما دیئے کہ ہم کوسوں نہیں میلوں دور بیٹھ کر بھی اس بانسری کی لے پر سر دُھنتے اور اکتسابِ فیض کرتے ہیں۔
جو ذرائع مہربان قدرت نے مہیا کیے ہیں وہ ہمارے لیے تو باعثِ رحمت ہیں کہ محترم کامل جنیٹوی جیسے جلیل کا کلام پڑھ سکتے ہیں اور راہیں متعین کر سکتے ہیں اور گنگنا بھی سکتے ہیں۔
کامل جنیٹوی اکیلا انسان نہیں بلکہ ایک متحرک اور چاک و چوبند دستہ کا نام ہے،
ایک رنگا رنگ انجمن آرائی کا نام ہے۔
دولتِ سخن سے مالا مال متمول خانوادے کا نام ہے۔
فکر و فن کے ایک مدرسے کا نام ہے۔
عطائے ربانی ہے۔
ایک فضلِ باری کا نام ہے۔
ھٰذا مِن فضلِ ربی!
ھذا من فضل ربی!
بے شک بے شک۔
گاؤں کی گلیوں میں سنتے ہیں کہ اپنا پن ہے
شہر کی سڑکوں پہ محشر ہے بپا تیز چلیں
خاکسار کے اس تعارف پر محترم صدر مجلس نے فرمایا:
بھائی احمد منیبؔ صاحب! اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو سنگ تراشی کا وہ فن عطا کیا ہے کہ آپ ایک تاریک سنگ ریزے کو بھی گوہر آبدار بنا کر پیش کر دیتے ہیں ۔آپ کے اس فن کی داد نہ دینا بھی سراسر ناسپاسی ہوگی کہ آپ نے مجھ حقیر ذرے کو بھی اپنی فنی شعاعوں سے تابندہ کردیا ۔آپ کی اس درجہ پذیرائی اور حوصلہ افزائی کے لیے دل نہیں روح کی گہرائیوں سے سراپا سپاس گزار ہوں ۔ اللہ آپ کو شاد وآباد رکھے ،سلامت رکھے ۔آمین یا رب العالمین
تحریک توازُن اُردو ادب کا آج پہلا دن اور ہم نے آغاز کیا حمد باری تعالی کے پروگرام سے جس کی کرسئ صدارت پر محترم کامل جنیٹوی سے متمکن ہونے کی درخواست گزاری گئی جو انہوں نے ازراہِ شفقت قبول فرمائی۔ ان کی صدارت میں احباب نے اپنی طرف سے حمدیہ کلام پیش کرنے کی سعادت پا ئی۔ بہت خوب صورت انداز میں صدارت کا آغاز فرمایا۔ اور اپنی نہایت خوب صورت حمدیہ کلام سے نوازا اور ہر ایک شاعر کو داد بھی عطا فرما رہے ہیں۔
جیتے رہیے جیتے رہیے اور کامل کمال کرتے رہیے۔
خاکسار
احمد منیبؔ
١۴جولائی ٢٠١٩ء
نمونۂ کلام:
میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
پہلے تیرا نام لکھا تھا
جو پایا ہے وہ تیرا ہے
جو کھویا وہ بھی تیرا تھا
پہلی بارش بھیجنے والے
میں ترے درشن کا پیاسا تھا
(ناصر کاظمی ۔ شعری مجموعے “پہلی بارش” سے انتخاب اشرف علی اشرف صاحب)
ایک شعر
مان بھی لو کہ سبھی کچھ ہے خدا کا یارو
اب بہت ہوچکا ہر بات میں تیرا میرا
تہذیب ابرار
حمدیہ و دعائیہ قطعات:
قطعہ : 1
ایک اللّٰہ حمد کے لائق
سب جہانوں کو پالنے والا
ہر سہارے کا وہ سہارا ہے
ہر کسی کو سنبھالنے والا
قطعہ : 2
ہے کرم ذاتِ کبریا کا یہ
مجھ کو بخشی متاعِ دانائی
اور تابِ سخن کی یہ دولت
شعر گوئی ، شعورِ گویائی
خاکسار نے حمد باری پیش کی:
پڑھ رہا ہوں قل ھو اللہ احد
ہوں سراپا احتیاج اور وہ صمد
احمد منیب
محترم نورالحسن حفیظی صاحب نے کلام پیش فرمایا:
توئی اک ذاتِ پر اسرار بھی ہے
تُو ہر محفل میں جلوہ بار بھی ہے
۔۔۔۔
روبینہ میر جموں کشمیر بھارت سے شانِ باری تعالیٰ بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ:
وہی رب ہے وہی اللہ جس کا بول بالا ہے
ثنا کرتی ہوں اُس کے نام کی جو رحم والا ہے
۔۔۔۔۔۔
محترم عامر حسنی صاحب نے حمد باری تعالیٰ پیش کی:
تعریف اس خدا کی جو ذات جاودانی
ویسا نہیں جہاں میں کوئی بھی یارجانی
۔۔۔۔۔۔۔
بہت ہی کوب صورت لب و لہجہ اور سہل ممتنع کے ماہر شاعر جناب امین اوڈیرائی صاحب نے کلام عطا فرمایا کہ:
ذکر تیرا، ترا خیال ہے بس
ذات تیری ہی لازوال ہے بس
۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم امیرالدین امیر بیدر کرناٹک بھارت سے حمدیہ قطعہ پیش فرمایا:
اے میرے دن کے رات کے مالک
جلوۂ کائنات کے مالک
امن کی بھیک مانگتا ہے امیر
اس لرزتی حیات کےمالک
۔۔۔۔۔۔
محترم رضاالحسن رضا نے پائتی کلاں امروہہ یو پی بھارت سے حمدیہ قطعہ احباب کی نذر فرمایا:
کبھی نہ دل سے تصوُّر میرے ہٹا تیرا
میرے لبوں پہ ہے ہر لمحہ تزکِرہ تیرا
بڑی ہے سب سے تیری ذات لا مکاں والے
کروں بیان میں کس مُنھ سے مرتبہ تیرا
۔۔۔۔۔۔۔۔
حمد
محترم ریاض انور بلڈانوی صاحب نے ایک سے زائد حمدیہ کلام پیش فرمایا:
شاملِ حال ترا ،فضل وكرم ہو، آمین
مجھ كودرپیش مصیبت،نہ توغم ہو، آمین
میرے بہت ہی محترم ڈاکٹر سراج گلاؤٹھوی انڈیا نے حمد پیش فرمائی کہ:
اے مولیٰ ترے بندے ہم
دور کردے سبھی اپنے غم
تیری حمد و ثنا میں لکھوں
میرا جب تک چلے یہ قلم
احمدمنیبؔ نے ایک مناجات پیش کی:
جس پہ تازہ گلاب کھلتے ہوں
ایسی شاخِ نہال دے یا رب
جن میں حصہ ہو سب غریبوں کا
ایسے مال و منال دے یارب
محترمہ غزالہ انجم صاحبہ نے خوب صورت حمد پیش فرمائی کہ:
صورت انجم ؔو خورشد عیاں ہوتا ہے
ہفت عالم کی حقیقیت ہے خدا کا جلوہ
محترمہ روبینہ میر صاحبہ نے کشمیر سے مناجات عطا کی کہ:
ہر مصیبت کو جھیل پاؤں میں
اتنا صبرو قرار دے یارب
جائزہ لے سکوں میں خود اپنا
دل پہ کُچھ اِختیار دے یا رب
احمدمنیبؔ نے ایک حمد مزید پیش کرنے کی سعادت پائی:
آنکھ اس کو نہ دیکھ پائے ہے
وہ خود آنکھوں کے پاس آئے ہے
محترم ملک سکندر ۔ چنیوٹ پاکستان سے حمد عطا فرمائی:
وہی خالق خدا میرا ، وہی رازق خدا میرا
وہی، پانی کے جوہر سے نکالی زندگی جس نے
بنا کر جوڑے جنسوں سے اجالی زندگی جس نے
رکھی الفت جو سینے میں بچالی زندگی جس نے
محترم ریاض انور بلڈانوی نے بھارت سے کلام عطا فرمایا:
اللہ مہربان بھی ہے کارساز ہے
دستِ عطا بھی اس کا ہمیشہ دراز ہے
محترم صدر مجلس نے کلام عطا فرمایا:
قلم کی نوک پر لفظوں کا لشکر بھیج دیتا ہے
لکھوں جب حمد وہ رحمت کی چادر بھیج دیتا ہے
ایک اور حمد میں آپ نے لکھا کہ:
تونے کیا کیا نہ مجھے خالق اکبر بخشا
اب زم زم یہاں بخشا وہاں کوثر بخشا
فہم و ادراک دیا علم کا جوہر بخشا
جو بھی بخشا مجھے بہتر سے بھی بہتر بخشا
پہلے معمور کیا نور سے ان کے مرا دل
پھر مجھے عشق کے جذبوں کا سمندر بخشا
جب یہ سوچا کہ لکھوں نعت رسول اکرم
نور کا ہالہ مری نوک قلم پر بخشا
ایک اور نعت آپ نے عنایت فرمائی:
ہر اک ذرے میں یارب نور تیرا
ہر اک شے سے ہویدا تیری قدرت
خطبۂ صدارت:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمدللہ
توازن اردو ادب کا آج اللہ تبارک و تعالیٰ کی حمد پاک کے خصوصی پروگرام سے باقاعدہ آغاز ہوا۔
انتظامیہ کی طرف سے یقیناً یہ بابرکت پیش رفت ہوئی جس میں احباب نے اپنا بیش بہا فنی تعاون بخشتے ہوئے خوب صورت ، مرصع اور معیاری حمدیہ کلام کلام سے مستفیض فرمایا۔ ساتھ دیگر احباب کے کلام پر دادو تحسین سے نوازتے ہوئے اپنے تاثرات کا اظہار بھی کیا اور احباب کی پذیرائی و حوصلہ افزائی بھی کی۔
مجھے یقین ہے کہ ذی مرتبہ آئندہ بھی اسی طرح گروپ کو اپنے تعاون سے سرفراز فرماتے رہیں گے اور ہمارا یہ کاروانِ ادب ان شاءاللہ خلوص ومحبت کی سرسبز وادیون سے گزرتا ہو رواں دواں اپنی منزل کی جانب گامزن رہے گا۔
میں جناب احمد منیبؔ صاحب اور جناب مسعود حساس صاحب کی محبتوں کو نیازمندانہ سلام پیش کرتے ہوئے ان کے ساتھ ہی انتظامیہ کے حضور بھی سپاس گزار ہوں کہ انہوں نے مجھ احقر کو آج کے اس عظیم الشان مشاعرے کا اس کا اہل نہ ہوتے ہوئے بھی صدر منتخب کر کے پذٰرائی اور حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اعزاز بخشا۔
انتظامیہ کے ساتھ ہی میں ان سبھی ذی مرتبت احباب کا شکریہ ادا نہ کرنا بھی ان کے ساتھ ناانصافی تصور کرتا ہوں جنہوں نے اپنی فنی نگارشات سے نواتے ہوئے آج کے اس پہلے مشاعرے کو کامیابیوں کی بلندیوں سے ہم کنار کیا۔ میں ان سبھی کے حضور صمیم قلب سے مبارک باد اور ہدیۂ تشکر پیش کرتا ہوں۔
اللہ ہماری محبتوں کو ہمیشہ قائم رکھے اور اللہ کرے کہ ہمارا یہ کاروان یوں ہی اپنی منازل کی طرف بڑھتا رہے۔ آمین
والسلام
خاکسار
کامل جنیٹوی۔ بھارت
۱۴جولائی ۲۰۱۹ء