رپورٹ برائے پروگرام بہ عنوان : فروغِ ادب
تحریر : غلام مصطفیٰ دائمؔ
————-
عالمی بیسٹ اردو پوئٹری فورم کے زیرِ اہتمام پروگرام نمبر 212 بہ عنوان "فروغِ ادب" بتاریخ 20 جولائی رات 07 بجے انعقاد پذیر ہوا۔
صدارت کے فرائض محترم تہذیب ابرار صاحب نے سنبھالے۔ نظامت کا سہرا صبیحہ صدف کے سر اور رپورٹ کے لیے خاکسار کو ذمہ داری سونپی گئی۔ دیگر شرکاء کے نام ملاحظہ فرمائیں :
✳ممتاز احمد آرزو
✳فانی ایاز احمد گولوی
✳شیخ نورالحسن حفیظی
✳محمد مزمل رضا جاذب
✳حافظ وقار خان
✳جعفر بڑھانوی بھارت
——————–
یاد رہے کہ یہ گروپ صرف گروپ کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اب یہ ایک ادارہ ہے اور باقاعدہ انتظامیہ اس ادارے کو چلا رہی ہے۔ ادارے کی انتظامیہ کا مختصر تعارف یہ ہے :
انتظامیہ ادارہ : بانی و چئیرمین : توصیف ترنل ہانگ کانگ
وائیس چئیرمین : اسلم بنارسی بھارت
صدر : افتخار راغب دوحہ قطر
نائب صدر : غلام مصطفی اعوان دائم پاکستان
جنرل سیکریٹری : صابر جاذب لیہ پاکستان
سیکریٹری : اشرف علی اشرف سندھ
پبلیشر ز : فانی ایاز گولوی رام بن کشمیر، ڈاکٹر سمی شاہد پاکستان، وقاص سعید، ملک محمد شہباز، جان محمد کشمیر
ممبرانِ خاص : گلِ نسرین ملتان پاکستان، صبیحہ صدف بھوپال بھارت، سراج گلاوٹھوی بھارت، نفیس احمد نفیس ناندوروی بھات، خالد سروحی گکھڑ سٹی گوجرانوالہ پاکستان، ایڈوکیٹ متین طالب ناندورہ بھارت، ثمینہ ابڑو پاکستان، ڈاکٹر ارشاد خان بھارت، شفاعت فہیم بھارت، شہزاد نیر لاہور پاکستان
————–
ٹھیک 07 بج کر 02 منٹ کر پروگرام کے لیے سٹیج سج چکا تھا۔ حمد کے لیے نفیس احمد نفیس کو مدعو کیا گیا۔ انھوں نے 08 اشعار پر مشتمل خوب صورت حمد باری تعالیٰ پیش فرما کر خوب داد سمیٹی۔ نعت کے لیے غلام مصطفیٰ دائم کو مدعو کیا گیا جو کہ حاضر نہیں تھے۔ اس لیے ناظم کی طرف سے باقاعدہ پروگرام میں شریک نثر نگار حضرات کو بلانا پڑا۔
پہلے شریک ممتاز احمد آرزو صاحب کو بلایا کہ جو کہ موجود نہ تھے۔
ان کے بعد فانی ایاز احمد صاحب کو مدعو کیا گیا۔ لیکن صد افسوس کہ وہ بھی موجود نہیں تھے۔
بعد ازاں شیخ نورالحسن حفیظى صاحب کو بلایا گیا۔ خوش قسمتی سے آپ موجود تھے اور آپ نے اپنا مضمون بہ عنوان "فروغِ ادب" ارسال کیا۔ آپ کا کہنا تھا کہ ادب پر ہمیشہ سے کام ہوتا آیا ہے لیکن اس دور میں اس کی بہت ضرورت ہے۔ اس کے لیے آنلائن مشاعروں، پروگرامز، سیمینارز وغیرہ کے ذریعے سے نسلِ نو کو ادب کے فروغ میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
نیز انھوں نے ایک معاشرے میں ادیب کی ذمہ داریوں کو بھی بیان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ شعراء و ادباء کے لیے لازم ہے کہ وہ جان و دل سے محنت کریں اور فروغِ ادب میں اپنا حصہ شامل کریں۔
اس کے بعد محمد مزمل رضا جاذب صاحب کو بلایا گیا۔ جو موجود نہ تھے۔ ناظم کی آہ بھری آواز سے بالکل عیاں تھا کہ انھیں اس بات کا بہت دکھ ہے کہ یکے بعد دیگر تمام ادباء ہی آج غائب ہیں۔ اسی آہ بھری آواز میں انھوں نے اگلے شریک حافظ محمد وقار خان صاحب کو دعوت دی۔ لیکن شومئ قسمت کہ وہ بھی آفلائن تھے۔ یا آنلائن تو تھے لیکن پروگرام میں شرکت نہ کی۔
بعد ازاں جناب جعفر بڑھانوى صاحب کو مدعو کیا گیا۔ انھوں نے سوال و جواب کی صورت میں اپنا پیغام قارئین تک پہنچایا۔ ان کا کہنا تھا کہ آج تک میڈیا فروغِ ادب میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
اس کے بعد صدرِ محفل محترم تہذیب ابرار صاحب کو گفتگو اور خطبۂ صدارت کے لیے دعوت دی گئی۔ انھوں نے کہا کہ ادب کی افادیت کے تعلق سے مختلف مکاتب فکر اور طریقہ ہائے عمل اپنی جگہ البتہ ایک سلیم الطبع انسان کو ایک بنیادی حقیقت صاف نظر آ تی ہے کہ انسان اگر واقعی ایک ذمہ دار مخلوق ہے تو ادب اس کی تمام شعوری حرکتوں کا محرک ہے۔
نیز فرمایا کہ ادب برائے ادب، ادب برائے زندگی، ادب برائے اصلاح جیسے نظریات پر اختلافی بحثوں کے باوجود ایک نظریہ ہمیشہ مربوط و منضبط تصور کیا جاتا رہا اور وہ ہے ادب میں زندگی کے تمام عناصر اور تقاضوں کا پوری طرح التزام کہ جس میں انسانی زندگی کی اصلیت اور عظمت بھی اجاگر ہو سکے۔
بعد ازاں خطبۂ صدارت دیتے ہوئے کہا کہ ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کا ادبی کارواں مختلف نشیب و فراز سے ہوتے ہوئے عالمی تنقیدی پروگرامس کے دوسو بارہویں پڑاؤ پر آ پہنچا ہے، یہاں ذرا دیر ٹھہر کر ہمیں فرحت وانبساط کی کیفیت سے دوچار ہونا ہے اور پھر منزل کی جانب عازمِ سفر ہو جانا ے، در اصل یہی طریقہء کار ادارہ کو مسلسل کامیابیوں سے ہم کنار کر رہا ہے۔
اس ادبی سفر میں احباب نے جہاں اظہار واحساس کے نئے دیے روشن کئے وہیں ایک تجزیہ بھی پیشِ نظر رہا کہ آ یا ہم نے اس کامیاب سفر میں ادارہ کے کتنے پرانے جاں نثاروں کو الوداع اور کتنے نئے خیر خواہوں کو خوش آمدید کہا۔
تغیر کائنات کا لازمی عنصر ہے، آ ج کے صارفی اور صنعتی معاشرے میں احباب کی ذہنی ترجیحات تبدیل ہو رہی ہیں لیکن یہ تبدیلی تب لائق تشویش نہیں ہے جب احباب کا تخیل سے زیادہ حقائق سے رشتہ مضبوط ہو۔
فروغ ادب میں ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کی ہمہ جہت کار گزاریوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، کئی ممالک کے نامور ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور مدیروں نے اپنی نثری و منظوم تخلیقات کے وسیلے سے ادارہ کی ترقی میں بھرپور حصہ لیا ہے ۔ خدا کرے ادارہ کی سالمیت، یکجہتی اور باہمی ذہنی ہم آہنگی کے لئے ہم پہلے سے زیادہ مخلص اور متحرک ہوں، تاکہ ادارہ یونہی کامیابی کی منازل طے کرتا رہے۔
ہر روز ایک غزل کا برائے تنقید پیش کیا جانا اور اس پر علمائے ادب کا نقد ونظر فرمانا یقیناً ایک مثبت پیش رفت ہے جس کا پر زور خیر مقدم ہونا چاہئے۔
تنقید کے سلسلے میں صرف اتنا کہوں گا کہ تنقید میں دیانت داری اولین شرط ہے، ناقد کے پاس انصاف کی میزان ہونی چاہئے اور چونکہ انصاف برتنے کیلئے خوبیء کردار لازمی ہے لہذا نقاد کا غیر جانبدار ہونا بھی ضروری ہے۔
ادب تخلیق کرنا کوئی بڑی بات نہیں لیکن اچھا ادب تخلیق کرنا بہت بڑی بات ہوتی ہے، اسی طرح تنقید کرنا بہت آسان ہے لیکن اچھی اور اصلاح تنقید کرنا بہت مشکل ہے ۔خوش کن امر یہ ہے کہ ادارہ میں شامل اہل نظر اس مشکل کام کو آ سان کئے ہوئے ہیں۔
آخر میں انتظامیہ اور بالخصوص بانئ گروپ توصیف ترنل صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے محفل کو ختم کیا۔
الحمد للہ علی کل حال……….