یہ سارا سلسلہ جوتم دیکھ رہے ہو، یہ بڑے بڑے دفتر، یہ کارخانے، یہ دوردورتک پھیلے کھیت، یہ انگریزوں کے متروکہ محلات جوکئی کئی سو ایکڑوں پر محیط ہیں، یہ سب میرے تصرف میں ہیں۔ بس یوں سمجھو یہ میری این جی او ہے۔
ایک بڑا حصہ تو میں نے اپنے بھائی کے سپرد کردیا ہے۔ اس کا انداز سربراہی بھی دلچسپ ہے۔ اسے کسی منیجر ، کسی نائب ناظم کی ضرورت نہیں پڑتی۔ سب کچھ وہ اپنی مٹھی میں رکھتا ہے۔ سوئی سے لے کر ہاتھی تک۔ نچلے ملازم سے لے کر چیف ایگزیکٹو تک ہر شے اس کے اختیار میں ہے۔
جو حصہ اس کے دائرہ کار میں ہے، وہ بھی باقی حصوں کی طرح، غیرمحفوظ ہے۔ کھیتوں سے بھیڑبکریوں کو درندے اٹھا لے جاتے ہیں ۔ کارخانے چلانے والوں سے ڈاکو سب کچھ چھین لیتے ہیں، لیکن بھائی کے اعصاب اس قدر مضبوط ہیں کہ اسے کچھ پروا نہیں۔ اس کے برعکس وہ ہرطرف ، ہرجگہ دوڑتا پھرتا ہے۔ یوں جیسے سخت مصروف ہو۔ تقریریں کرتا ہے تو ثابت کردیتا ہے کہ وہ کرۂ ارض کا بہترین منتظم ہے۔ ایک کام اور اس نے کمال کا کیا ہے۔ اپنے فرزند کو سینئر اور تجربہ کار منیجروں کے اوپر بٹھادیا ہے۔ کچھ دن پہلے وہ ایک کارخانے کا معائنہ کرنے گیا تو تخت رواں پر سوار ہوکر گیا۔ بالکل جیسے مغل شہزادے آگرہ سے جونپور جاتے تھے۔ تختِ رواں سے اترا تو پچیس رتھ ہم رکابی کے لیے ہمراہ تھے۔
این جی او کے باقی حصے بھی میں نے خاندان کے مختلف افراد کے سپرد کیے ہوئے ہیں۔ کہیں سمدھی ہے،کہیں بھانجا اور کہیں بھتیجا ، کہیں ہم زلف کا صاحبزادہ ہے تو کہیں قبیلے کا کوئی اور رکن!آپ غیروں پر کیسے اعتبار کرسکتے ہیں اور وہ بھی اس عہد پر آشوب میں ! اقربا پروری کامیابی کی کلید ہے۔
تاہم کچھ عرصہ پہلے جب این جی او کی نام نہاد سربراہی کے لیے کسی کو مقرر کرنے کا وقت آیا تو اعزہ واقربا نے مشورہ دیا کہ خاندان سے باہر کے کسی مناسب شخص کو اس نمائشی عہدے پر فائز کیا جائے ۔ حکمت انہوں نے یہ بتائی کہ دوسرے ملکوں کے جو نمائندے مال اسباب خریدنے یا فروخت کرنے ہماری این جی او میں آتے ہیں وہ این جی او کے نام نہاد سربراہ ہی کو آکر ملتے ہیں۔ این جی او کی حفاظت کے لیے جو پہریدار مقرر ہیں ان کے دستے بھی اسی نمائشی سربراہ کو رپورٹ کرتے ہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ وہ اپنے خاندان سے نہ ہوتا کہ کسی کو اعتراض کا موقع نہ ملے۔ میں نے مشورہ مان تو لیا لیکن مشکل میں پڑ گیا۔ کوئی مناسب شخص اس منصب کے لیے مل ہی نہیں رہا تھا۔ کسی کے سر میں دماغ تھا تو کسی کے سینے میں دل۔ کوئی بدبخت صاحبِ مطالعہ
تھا تو کوئی زبان کے جوہر دکھاسکتا تھا۔ ایسے لوگ کسی نہ کسی موقع پر خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ مجھے ایسے شخص کی تلاش تھی جو حالات موزوں دیکھ کر پرپرزے نکالنے والا نہ ہواور خطرناک نہ ثابت ہو۔
بالآخر میں نے فیصلہ کیا کہ نمائشی سربراہ آرڈر پر بنوایا جائے۔ چنانچہ سنگل ٹینڈر بنیاد پر ایک فرم کو منتخب کیا گیا اور اسے ضرورت سے آگاہ کر کے مسئلے کے حساس پہلوئوں سے مکمل طورپر روشناس کیا گیا۔
فرم نے بہت ہی کم مدت میں آرڈر کی تعمیل کی۔ جس تاریخ کا وعدہ تھا ، اس سے ایک دن آگے پیچھے نہ ہوئی۔ مقررہ دن ایک بہت بڑا کنٹینر نما پیکٹ موصول ہوا۔ این جی او نے مختلف شعبوں کے انچارج حضرات کو اس اہم موقع پر تقریر پر مدعو کیا گیا تھا۔ کنٹینر کھولا گیا تواس میں سے نمائشی سربراہ پارٹس کی صورت میں نکلا۔ ٹانگوں کی پیکنگ الگ تھی اور بازو الگ پیک کیے گئے تھے‘ پائوں الگ تھے جنہیں پنڈلیوں سے جوڑا گیا۔ اوپر گھٹنے فٹ کیے گئے۔ پھررانیں لگائی گئیں۔ پیٹ کی پیکنگ کھولی گئی تو گردے جگر ہرجزو الگ الگ تھا۔ سب کو اسمبل کیا گیا۔ معدہ غیرمعمولی طورپر بڑا رکھا گیا تھا۔ ایسا کہ زیادہ سے زیادہ خوراک اس میں سما جائے۔ معدے میں ایک خصوصی نلکی بنائی گئی تھی جس سے تیزاب کے قطرے خوراک کے اوپر گرتے تھے۔ یوں ثقیل سے ثقیل اور مرغن سے مرغن غذا بھی تھوڑی دیر میں ہضم ہوسکتی تھی۔ زبان ہرگز لمبی نہ تھی۔ پیکنگ کے اوپر لکھا تھاکہ کم بولنے والی زبان ہے۔ بالخصوص نازک مواقع پر بالکل نہیں کھلے گی۔ حیرت انگیز پرزہ سرکا نکلا۔ حجم میں بڑا لیکن اندر سے خالی اور کھوکھلا۔ این جی او کے کچھ اہلکاروں نے اعتراض کیا لیکن فرم کے نمائندوں نے بتایا کہ آرڈر بک کرتے وقت خصوصی طورپر تلقین کی گئی تھی کہ سر کے اندر دماغ نہ ہو یا بالکل چھوٹا سا برائے نام ہو، چنانچہ فرم نے بنایا ہی نہ تھا۔ بالآخر سارے پرزے ایک دوسرے میں پیوست ہوگئے اور سربراہ کا بدن مکمل ہوگیا۔ حیرت انگیز طورپر مناسب اور متناسب‘ ہرپرزہ میری مرضی کے مطابق!!
جب سربراہ کو کرسی پر بٹھادیا گیا تو فرم کا نمائندہ آگے بڑھا اور مجھ سے مخاطب ہوا کہ دوخصوصی انتظامات مزید کیے گئے ہیں۔ اس نے مجھے ایک ریموٹ کنٹرول دیا۔ ’’سر! یہ آپ اپنی تحویل میں رکھیں گے۔ جب بھی آپ کوئی فائل یا دستاویز نمائشی سربراہ کے پاس بھیجیں تو اس ریموٹ کنٹرول میں لگاکر سرخ بٹن دبائیں۔ نمائشی سربراہ کا دایاں بازو حرکت میں آجائے گا۔ اس کا ہاتھ آگے بڑھے گا اور فائل پردستخط کردے گا۔ دستخط ہوجانے کے بعد آپ کو سبز بٹن دبانا ہوگا۔ اس سے ہاتھ اور بازو اپنی پہلی پوزیشن میں آجائیں گے۔ یوں دستخط کرانا یا نہ کرانا کلی طورپر آپ کے اختیار میں ہوگا۔‘‘
دوسری ہدایت فرم کے نمائندے نے یہ دی کہ جب بھی مجھے نمائشی سربراہ کے دفتر میں جانا ہو تو کمرے میں داخل ہوتے ہی میں اپنا دایاں ہاتھ اوپر کروں۔ یہ وائرلیس بندوبست ہوگا۔ نمائشی سربراہ فوراً اپنی کرسی سے اٹھے گا اور میرے سامنے آکر دست بستہ کھڑا ہوجائے گا۔ دوسری دفعہ ہاتھ اوپر کرنے سے سربراہ رکوع میں جھک جائے گا۔
الحمد للہ این جی او پر مکمل کنٹرول ہے۔ کیا اہلکار کیا ناظم اور کیا منیجر نمائشی سربراہ بھی ، قسمت نے یاوری کی ہے۔ کٹھ پتلی جیسا مل گیا ہے۔ اب بظاہر راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ بس دعا کرتے رہیے کہ مفسد اور حاسد ادھر کا رخ نہ کریں۔