آپ کی آنکھ میں پہنچنے والی روشنی، پانی میں عکس، وائرس، نوزائیدہ بچے، آپ کے اور میرے تعلق کے درمیان کیا چیز مشترک ہے؟ اس سے پہلے کچھ بات انفارمیشن کی۔
ہر کوئی جانتا ہے کہ انفارمیشن کیا ہے۔ بس کس وقت روانہ ہو گی؟ آپ کے فون میں کیا سٹور ہے؟ اُن کا فون نمبر کیا ہے؟ اس انفارمیشن کو ہمارا ذہن معنی پہناتا ہے لیکن کیا ہمارے ذہن کے باہر بھی فزیکل شکل میں انفارمیشن موجود ہے؟
جی۔ اس کو ریلیٹو انفارمیشن کہتے ہیں۔ فطرت میں ویری ایبل آزاد نہیں۔ ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثال: ایک مقناطیس کی دو اطراف متضاد قطبین رکھتی ہیں۔ اگر ہم ایک کو جان لیں تو دوسرے کا خود ہی پتا لگ جائے گا۔ اس کا تعلق ہمارے دماغ سے نہیں۔ یہ انفارمیشن کا آپس میں تعلق ہے۔ یعنی دو الگ سسٹمز کے درمیان ریلیٹو انفارمیشن اس وقت کہی جائے گی جب ایک کی حالت کا انحصار دوسرے کی حالت پر ہو۔ ایک سسٹم دوسرے کے بارے میں انفارمیشن رکھتا ہے اور اس انفارمیشن کا تعلق ہمارے ذہن سے نہیں۔
یہ فطرت میں ہر جگہ پر ہے۔ روشنی کا رنگ یہ انفارمیشن رکھتا ہے کہ وہ کس سے ٹکرا کر آئی ہے۔ ایک وائرس یہ انفارمیشن اس خلیے کے بارے میں انفارمیشن رکھتا ہے جس سے وہ اٹیچ ہو سکتا ہے اور نیورون ایک دوسرے کے بارے میں انفارمیشن رکھتے ہیں۔ یہ دنیا آپس میں جڑے واقعات کا مضبوطی سے بنا جال ہے جو ریلیٹو انفارمیشن سے بھرا ہوا ہے۔
جب یہ انفارمیشن ہمارا دماغ استعمال کرتا ہے اور اس کو دوسروں تک پہنچانے کیلئے زبان کی شکل بھی دے دیتا ہے تو یہ دماغی انفارمیشن بن جاتی ہے۔
لیکن اس کا بنیادی جزو فزیکل دنیا میں ہے اور وہ ویری ایبلز کا ایک دوسرے سے تعلق ہے۔ یہ دنیا الگ الگ اپنے میں مگن خودغرض اشیاء کا مجموعہ نہیں بلکہ ہر حالت کسی دوسری حالت کے ساتھ ربط رکھتی ہے۔ ہم فزیکل، کیمیکل، بائیولوجیکل، سوشل، پولیٹیکل، آسٹروفزیکل اور کاسمولوجیکل سسٹمز کو تعلقات کے ان نیٹ ورکس کی مدد سے معلوم کرتے ہیں۔ یہ ریلیٹو انفارمیشن اس دنیا کی بیان کرنے کیلئے ایک طاقتور بنیادی تصور ہے۔
یہ کہنا کہ فزیکل دنیا بنیادی ذرات کا مجموعہ ہے پوری کہانی نہیں بتاتا۔ ان کے درمیان آپس کی انفارمیشن رکھنے کے مضبوط جالوں کی پابندی اصل کہانی ہے۔
چوبیس صدیاں پہلے ڈیموکریٹس نے کہا تھا کہ سب کچھ ایٹم سے بنی ہے لیکن یہ ایٹمز خود حروفِ تہجی کی طرح ہیں جو ہیں تو تیس کے قریب ہی لیکن ان کو آپس میں ملانے کے طریقے اتنے ہیں کہ ان سے کامیڈی بھی بن جاتی ہے، ٹریجیڈی بھی، مزاح نگاری بھی، لمبی نظمیں بھی۔ فطرت بھی ایسی ہی ہے۔ چند ایٹم مل کر طرح طرح کی حقیقت کو روپ دیتے ہیں۔ لیکن یہ تشبیہہ اس سے زیادہ گہری ہے۔ ایٹمز حروفِ تہیجی کی طرح اس لئے ہیں کہ جس طرح یہ ارینج ہوتے ہیں اس کا تعلق دوسرے ایٹمز کے ساتھ بنتا ہے اور یہ سیٹ انفارمیشن رکھتے ہیں۔ لفظ کسی ربط کے ساتھ جملے بناتے ہیں۔
آنکھ تک پہنچنے والی روشنی کے پاس یہ انفارمیشن ہے کہ وہ کہاں سے آئی ہے۔ پانی میں بننے والے عکس کے پاس انفارمیشن ہے کہ اس کے اوپر کیا ہے۔ ایک خلیے کے پاس انفارمیشن ہے کہ اس پر کونسا وائرس حملہ آور ہے۔ ایک نئی جنم لینے والی زندگی کے پاس بہت سی انفارمیشن ہے کیونکہ اس کا تعلق اس کے والدین سے ہے اور اپنی نوع سے ہے۔ اور آپ، جو یہ پوسٹ پڑھ رہے ہیں، یہ انفارمیشن لے رہے ہیں کہ اس وقت میں ان لائنوں کو لکھتے وقت کیا سوچ رہا تھا۔ یعنی میرے ذہن میں یہ لکھتے وقت کیا چل رہا تھا۔ آپ کے دماغ کے ایٹمز کے ساتھ جو ہو رہا ہے، وہ میرے دماغ کے ایٹمز سے آزادانہ اور الگ نہیں۔ ہم کمیونیکیٹ کر رہے ہیں۔
یہ دنیا صرف اندھے ٹکراتے ایٹمز کا مجموعہ نہیں۔ جینیات سے لے کر کوانٹم مکینکس اور تھرموڈائنمکس تک، سوشیالوجی سے کوانٹم گریویٹی تک، انفارمیشن اس سب کو یکجا کرنے کا بنیادی کھیل ہے۔ یہ لامحدود آئینوں کا کھیل ہے جو ایک دوسرے کا عکس لئے ہوئے ہیں کورریلیشنز کی صورت میں۔ ڈیموکٹریس کے الفاظ میں، “یہ کائنات تبدیلی ہے۔ زندکی ایک رائے جو اس کے مطابق بدلتی رہتی ہے”
اس پر کارل روویلی کا انعام یافتہ پیپر (جو شینن کی تھیوری کی ڈیموکریٹس سے ملاقات کرواتا ہے) لِنک
اس پر مزید تفصیل کیلئے
Reality is not what it seems: Carlo Rovelli