ریختی
ریختی اردو شاعری کی صنف ہے جسے مردوں نے تخلیق کیا
اس صنف شاعری میں خواتین کی زبان میں ان کے اپنے بارے میں اظہار خیال مرد شعراء کی طرف سے کیا جاتا ہے۔
تاریخ
انیسویں صدی میں لکھنؤ، ریاست اودھ (موجودہ اتر پردیش، بھارت) میں اس کی ابتدا ہوئی۔
سعادت یار خان رنگین کو اس کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔
وضاحت
یہ شاعری عام طور پر غزل کی شکل میں لکھی جاتی ہے جس میں خواتین کے خاص محاوروں، انداز گفتگو اور تلفظ کو استعمال کیا جاتا ہے۔
اس کے موضوعات میں خواتین-خواتین، خواتین-مردوں کی آشنائی اور خواتین کی جنسی خواہشات کا اظہار شامل ہوتے ہیں۔
ریختی پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اس میں فحش پن اور شہوت انگیز باتیں زیادہ ہیں ۔ اس کے باوجود لکھنو کے لوگ اسے سر و آنکھوں پر بٹھاتے ہیں ۔ مولانا عبدالسلام ندوی نے کا کہنا ہے کہ لکھنو کے تمذن و معاشرت میں عام طور پر جو زنانہ پن پیدا ہوگیا تھا اس کا واضع اثر وہاں کی شاعری میں نمایاں ہے ۔ اگر لکھنو کے شعرا کے دیوانوں کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں عورتوں کے زیوارات اور سامان آرائش کی مفضل فہرست بنائی جاسکتی ہے اور جابجا ان کا لہجہ بحی زنانہ ہوتا ہے ۔
مرزا قادر بخش صابر نے لکھا ہے کہ رنگین ، جان اور نازمین کی ریختیوں کے بارے میں لکھتے ہیں انہوں نے نامعقول فحش کلام یا شہوت انگیز کلام سے قلم کو آلودہ کیا ہے
ریختی کی مثال
مجھے کہتی ہیں باجی تو نے تاکا اپنے دیور کو
نہیں دبنے کی میں بھی گر نہیں تاکا تو اب تاکا
رنگین سعادت یار خان کی ایک ریختی
( ایک شعر فحش ہونے کی وجہ سے حذف کر دیا ہے)
رشتۂ الفت کو توڑوں کس طرح
عشق سے میں منہ کو موڑوں کس طرح
پونچھنے سے اشک کے فرصت نہیں
آستیں کو میں نچوڑوں کس طرح
بعد مدت ہاتھ آیا ہے مرے
اب ددا میں اس کو چھوڑوں کس طرح
شیشۂ دل توڑ کر رنگیںؔ مرا
اب تو کہتا ہے میں جوڑوں کس طرح