اردو نے وقت کے ساتھ مختلف نام بدلے ہیں۔ ان میں سے ایک نام ریختہ ہے۔ غالب نے کہا ہے
ریختہ کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
اسی نسبت سے ریختی بھی وجود میں آئی۔ جس کے معنی ہی عورتوں کا باتیں کرنا۔ عورتوں اور مردوں کی زبان میں الفاظ و محاورات میں ٖفرق ہوتا ہے اور انہیں عام طور پر مرد استعمال نہیں کرتے ہیں۔ نہ ہی عورتیں ثقل الفاظ نہیں بولتی ہیں۔ ان میں شرم و حیا اور ضعیف الاعقادی ہوتی ہے اس لیے وہ اپنے خیالات کو رمز و کنایہ ادا کرتی ہیں۔ یہ چیز ان گھرانوں میں زیادہ ہوتا ہے جہاں پردے کی پابندی ہوتی ہے۔ اس لیے انشاء و رنگین نے خاص طور پر اس طرز کو عورتوں کی زبان اور نیز عیاشی اور بد اخلاقی پر رکھا۔ عورتوں کی زبان میں فرق ہر زبان میں ہوتا ہے مگر اتنا نہیں جتنا کہ اردو میں۔ اردو میں شاعری مردوں کی زبان میں کہی جاتی تھی۔ حتیٰ عورتیں بھی مردوں کی زبان میں شاعری کرتی تھیں۔ مولانا عبدالحلیم شرر کا کہنا ہے کہ ریختی کا فن باوجود غیر مہذب ہونے کے دلچسپ ہے۔
علی عادل شاہ کے درباری شاعر ہاشمی کا ایک ریختی کا دیوان ملا ہے۔ ڈاکٹر غلام محی الدین زور قادری کا کہنا ہے کہ یہ خیال غلط ثابت ہوگیا کہ ریختی کی ابتدا شمالی ہند میں ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہاشم کی ریختی اتنی اعلیٰ درجہ کی ہے کہ اسے ہم پہلی کوشش نہیں کہہ سکتے ہیں۔ ہاشمی کے بعد اشرف رحیم اور دوسرے معاسریں ولی کی ریختیاں ملی ہیں۔
مولانا آزاد اور کئی تذکرہ نگاروں کا خیال ہے اس کے بانی رنگین اور انشاء ہیں۔ اس پہلے ریختی کی طرز کا جو کلام ملا ہے اس کے بارے میں مولانا عبدالسلام ندوی کا کہنا ہے وہ ریختی نہیں ہے۔ یہ اشعار ہندی شاعری کی طرز پر کہے گئے تھے اور ان عورت کو عاشق اور مرد کو معشوق قراد دیا گیا ہے۔ نواب امیر خان کے کلام کا کوئی نمونہ نہیں ہے اس لیے ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ نواب سعادت یار خان رنگین نے ریختی کو ایجاد کیا اور اسے ترقی دی۔
شرر کا کہنا ہے کہ کچھ شوق طبع جوانوں کو یہ خیال سوجا کہ جس طرح ریختہ کی طرح ایک ریختی ایجاد کیا جائے۔ ریختی جس کی ایجاد گو دہلی سے ہوئی مگر اسے عروج لکھنو میں حاصل ہوا۔ ریختی میں فحش اور بدکاری سے پر ہیز کرکے پاکدامنی اختیار کی جائے تو یہ فن قابل ترقی ہے۔ مگر خرابی یہ ہوئی کہ اس کی بنیاد وہی بدکاری کے جذبات اور بے عصمتی کے خیالات پر تھی۔ اس لیے ریختہ گویوں کا کا قدم اعتدال سے باہر ہوگیا۔
قدیم شعرا مثلاً ہاشمیؔ خاکیؔ کے کلام میں اظہار عشق عورتوں کی جانب سے ہے۔ جب کہ اردو میں فارسی کا اثر ہے اور اظہار عشق مرد کی جانب سے ہے۔ اس وجہ سے اس قسم کی ریختی میں فحش اور ابتذال نہیں ہے۔ برخلاف انشاء و رنگین کی طرز پر دارو مدار عیاشی اور شہوت پرستی پر ہے۔ ان کی غرض عموماً یہ ہوتی تھی کہ ایسا کلام پڑھ کر لوگوں کو ہنسی آئے یا ان کے نفسانی جذبات میں ہیجان پیدا ہو۔ اسی وجہ سے اس قسم کی نطموں میں خلوض اور بلند خیالی یہاں تک بے ضرر سادہ مزاق بھی نہیں ہے۔
ریختی پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اس میں فحش پن اور شہوت انگیز باتیں زیادہ ہیں۔ اس کے باوجود لکھنو کے لوگ اسے سر و آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ مولانا عبدالسلام ندوی نے کا کہنا ہے کہ لکھنو کے تمذن و معاشرت میں عام طور پر جو زنانہ پن پیدا ہوگیا تھا اس کا واضع اثر وہاں کی شاعری میں نمایاں ہے۔ اگر لکھنو کے شعرا کے دیوانوں کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں عورتوں کے زیوارات اور سامان آرائش کی مفضل فہرست بنائی جاسکتی ہے اور جابجا ان کا لہجہ بحی زنانہ ہوتا ہے۔
مرزا قادر بخش صابرؔ نے لکھا ہے کہ رنگینؔ جانؔ اور نازمینؔ کی ریختیوں کے بارے میں لکھتے ہیں انہوں نے ناممعقول فحش کلام یا شہوت انگیز کلام سے قلم کو آلودہ کیا۔
ریختی کے بارے مین ہر تذکرہ مذمت بھرا ہے۔ اس کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ یہ حسن پرستی اور شہوت پرستی کی ایک خاص طرز ہے اور ریختی یعنی اس کا نام عورت کی زبان رکھا گیا۔ یہ لفظ ریختہ سے نکلا ہے اور اس کا مونث ہے۔ عورتوں کی زبان بالذات کوئی خرابی نہیں ہے۔ مگر یہ خرابی یہ ہے کہ اس قسم کے اشعار جذبات نفسانی کو براجگیختہ کرنے کی غرض سے کہہ جاتے تھے اور اسی وجہ سے وہ نہایت فحش اور مخرط اخلاق اور شرفا کو ناگوار گزرتے تھے۔ اسی چیزیں جو عورتوں کے پڑھانے کے قابل نہیں ہوتی ہیں غیر مہذب اور فحش ہوتی ہیں۔ ریخی اس طرز کے بارے میں نساخؔ کی رائے میں اس کے موجد رنگین تھے اور رنگین نے خود اس کا دعویٰ اپنے دیوان کے دیپاچے میں کیا ہے۔
ریخیتی کہنی اجی رنگین کا یہ ایجاد رنگین منہ چڑہاتا ہے موا انشا جیا کس واسطے
ریختہ اس زمانے کی بگڑی ہوئی سوسائٹی کا بہترین آئینہ ہے۔ جب کہ لکھنو کے عیش پسند فرانرراؤں اور امرا کی محفلوں میں عیش و و عشرت اور حسن پرستی کا بازار گرم تھا اور بازاری عورتوں کا عشق داخل فیشن ہوگیا تھا۔ شہر کے نوجوان امراء اس قسم کے بے اعتدالیوں سے متنبہ ہونے کے بجائے کھلالم اور بلاخوف کرتے تھے۔ ظاہر ہے اس زمانے کی نظم بھی ان کے جذبات اور مزاق کا آئینہ ہونا چاہیے اور اس قسم کے ناشائشتہ، غیر مہذب نظمیں، مخرب اخلاق نوجوانوں کے حق میں سم قاتل ہیں۔ انشاء نے دریائے لطافت میں اس کا اعتراف کیا ہے۔ بہرحال یہ طرز اس زمانے میں مقبول تھا اور اس کی ترقی کی معراج میر یار علی خان جاں ؔ صاحب کے دور میں ہوئی۔ لیکن یہ شاعری مقبول نہیں تھی اور مہذب محفلوں میں اسے پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ البتہ مذاق و ظرافت کے وہ اشعار جو دائرہ تہذب سے خارج نہ ہوں پسند کئے جاتے تھے۔
میر حسن و شوق مثنویاں، آتشؔ، ناسخؔ، بحرؔ اور خلیل جیسے شعرا نے ایسے عریاں محاور اور شہوت انگیز استمعال کیئے تو برے نہیں ہیں اور جانؔ رنگینؔ ایسے واقعات کو لکھا تو صابرؔ سے لے کر بابو سکسینہ تک چیخ اٹھے کہ فحش اور مخرب اخلاق ہیں۔ حالانکہ دنیا کی کسی زبان کی شاعری کا مطالعہ کریں تو عریاں شاعری ملے گی۔ سیفوؔ، امراء القیسؔ، شاہنامہ اور انگریزی شاعری میں بھی عریانیت ملتی ہے۔
ریختی کی خوبی یہ تھی یہ نہایت سادہ اور روز مرہ کے مطابق ہے۔ اس میں استعارات اور تشبیہات کی بھر مار نہیں ہوتی ہے۔ اس کو پڑھ کر آپ کو یوں لگے گا کہ یہ مادری زبان کی گفتگو ہے۔ یہ وہی زبان ہے جو ہندوستان کی شریف مائیں بہنیں بولتی ہیں۔ ورنہ میر حسن سے لے کر ناسخ سب نے ایسے کلام لکھے ہیں۔
ریختی میں جہاں فحش اشعار نظر آتے ہیں وہاں اچھے اشعار بھی ہیں نازمین کا خمسہ قدسی کی غزل ملاحظہ کریں۔ اس میں نازمین نے جو بات پیش کی ہے کوئی اور پیش کی ہے کوئی اور پیدا نہیں کرسکا۔
درد عصیاں سے جو تھی نازمین کو بیتابی
منہ پہ آنچل وہ ڈوپٹے کا لیے روتی تھی
دیکھا اس دکھیا کا عالم تو اس کچھ نہ بنی
سیدی انت حبیی و طبیب قلبی
آمدہ سوئے تو قدسی پئے درماں طلبی
اپنی بے تابی سے پریشان کرکے قدسی کو پریشان دار دربار رسالت میں بھیجنا نازمینؔ کا ہی کام تھا۔ اس طرح جان،ؔ صاحبؔ اور رنگین و انشاء نے کوئی مضمون چھوڑا ہے۔
ریختی گوئی کو غزل گوئی کی مماثل قرار دینا چاہیے۔ لیکن اسے اردو ادب میں سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا۔ اسے اردو ادب میں کوئی جگہ نہ دی گئی۔ ادب اور اخلاق دو جدا گانہ شکلیں ہیں۔ ریختی کو ادب کی کسوٹی پر پرکھنا چاہیے نہ کہ اخلاق کی کسوٹی پر۔ ادب کا اگر اخلاقی معیار مقرر کردیا جائے تو بہت سے ادبی شے پارے تلف کردئے جائیں گے، کتابیں تلف کرنی پڑے گی۔