ہم اس حقیقت کو تسلیم کریں یا نہ کریں مگر سچ یہی ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے غیر معمولی فروغ کے بعد رسائل کا دور ختم ہوچکا ہے۔ وہ رسائل جن کے ہر شمارے کا قارئین کو انتظار ہوتا تھا اور جن کے مشمولات کبھی زیر بحث ہوا کرتے تھے، ان میں سے کچھ اب بھی نکل تو رہے ہیں لیکن ان کی سانسیں بحال رکھنے کے لیے ’انٹرنیٹ ایڈیشن‘ کے Ventilation کی ضرورت پھر بھی لاحق ہے۔ جہاں تک اردو کے ادبی رسائل کی بات ہے تو میرے خیال میں زبیر رضوی کا سہ ماہی ’ذہن جدید‘ آخری متحرک رسالہ تھا جس سے اردو معاشرے میں چہل پہل دیکھی جا سکتی تھی ۔ اگرچہ اس کے بعد بھی ’تفہیم‘ (مدیر: عمر فرحت) اور ’استفسار‘ (مدیر: عادل رضا منصوری) اب بھی ان باقیات الصالحات میں شمار کیے جا سکتے ہیں جن کے ہر شمارے کے مشمولات تسلی بخش ہوتے ہیں، زندگی بھی ہوتی ہے لیکن یہ دونوں آخر الذکر رسائل اردو کے ادبی معاشرے میں اس طرح کی فعال سرگرمیوں کو برقرار رکھنے میں معذور نظر آتے ہیں جس طرح مثلاً ماضی قریب میں ’سوغات‘، ’شب خون‘، ’ذہن جدید‘ یا ’نیا ورق‘ اور کسی حد تک ’امروز‘کے دم سے قائم سے تھا۔ اگرچہ ’سوغات‘ اور ’نیا ورق‘ دونوں اپنے مدیر وں کی وفات کے بعد بھی نکلتے رہے ہیں بلکہ ’نیا ورق‘ تو اب بھی نکل رہا ہے لیکن ہر رسالہ اپنے اصل مدیر کے وژن کی چھاپ ہوتا ہے یا اسے ہونا چاہیے جو اب اس میں نظر نہیں آتا۔ ’اثبات‘ اب بھی نکل رہا ہے اور اس کا مدیر بھی زندہ ہے لیکن اپنے دوسرے دور میں اسے تقریباً یک موضوع رسالہ اسی لیے بنا دیا گیا چونکہ فی زمانہ ہمارے ہاں اس مقدار میں ایسی تخلیقات سامنے نہیں آ رہی ہیں جو کسی معقول رسالے کے ہر شمارے کا پیٹ بھی بھر پائے اور زندگی کی وہی حرارت بھی باقی رہے۔ سو بہتر یہی سمجھا گیا کہ اسے یک موضوعی رسالہ بنا دیا جائے اور کم از کم اسی بہانے ایسے موضوعات کو ہدف بنایا جائے جسے اردو معاشرہ نظر انداز کرتا رہا ہے، لہٰذا ’ادب میں عریاں نگاری اور فحش نگاری‘، ’احیائے مذاہب‘، ’ہم جنسیت نمبر‘، ’مشاعرہ نمبر‘ وغیرہ پر خاص شمارے نکالے گئے لیکن یہاں بھی یہ احتیاط برتا گیا کہ ان شماروں کے تخلیقی باب میں متعلقہ موضوعات پر معاصر ادب کا انتخاب بھی ضرور شریک اشاعت کیا جائے۔ ان خصوصی نمبروں کے علاوہ بیچ بیچ میں کوشش یہ بھی کی گئی کہ عام شمارے بھی منظر عام پر آتے رہیں تاکہ رسالہ معاصر ادب کا بادنما بنا رہے۔
مجھے یاد ہے ’ریختہ روزن‘ کی آمد کی خبر سن کر میں نے سکھ کی لمبی سانس لی تھی کہ مجھے امید ہی نہیں بلکہ ایک طرح کا یقین بھی تھا کہ اردو رسائل کے اس خلا کو مجوزہ رسالہ پُر کرے گا اور اردو معاشرے میں ایک بار پھر سے زندگی اور گرمی لوٹ آئے گی۔ میرا یہ یقین اس لیے بھی تھا کہ ’ریختہ‘ جیسا فعال ادارہ اس کے پس پشت تھا، ایک پورا متحرک عملہ اور تشفی بخش سرمایہ کے علاوہ فرحت احساس اور سالم سلیم جیسے تخلیقی ذہن اس کے پیچھے کارفرما تھے، اور سب سے بڑی بات یہ کہ سنجیو سراف جیسے فراخ دامن فرشتے کا دست شفقت جس رسالے کے سر پر ہما کی طرح سایہ فگن ہو، بھلا اسے ’کھل کھیلنے‘ میں کون سی رکاوٹ حائل ہو سکتی تھی۔ لیکن معاف کیجیے اگر میں یہ کہوں کہ میری تمام امیدوں پر اوس اس وقت پڑ گئی جب ’ریختہ روزن‘ کے نام پر ایک ’ڈائجسٹ‘ ہاتھ آیا۔ دیکھیے، میں ایک نومولود پرچے کے لیے اتنے سخت الفاظ استعمال نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن دراصل مجھے اسے دیکھ کر جس طرح کا صدمہ لگا ہے، اسے میں نے کافی برداشت کرکے جو مناسب الفاظ میرے ذہن میں آئے، اس کا استعمال کیا ہے۔
’ریختہ روزن ‘ رسالہ نہیں ڈائجسٹ ہے اور ڈائجسٹ کا اپنا ایک مقام ہوتا ہے اور اس کی اپنی افادیت و اہمیت ہوتی ہے لیکن یہ بہرحال اس طرح کا ’جریدہ‘ نہیں ہوتا جو کسی معاصرلسانی یا ادبی معاشرےکی ترجمانی کا حق ادا کرے۔ میری اس بات کی توثیق اس کی مدیر ہ ہما خلیل صاحبہ کے اداریے کے ان جملوں سے بھی ہوجاتی ہے، ’’ریختہ روزن میں زیادہ تر پرانی اور کچھ نئی نگارشات بھی شامل ہیں۔‘‘بلاشبہ ادب ایک تسلسل کا نام ہے لیکن کسی ادبی رسالے میں زندگی کی حرارت محسوس ہونی چاہیے نہ کہ اس میں سے کافور کی خوشبو اٹھنی چاہیے۔ ماضی کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ، لیکن ماضی اسی کا زندہ رہتا ہے جس کا حال زندہ ہو۔ یہی موقف کسی معاصر رسالے کا ہوتا ہے جس کی تائید اسی شمارے میں ’آپ کی رائے‘ کے کالم میں شمس الرحمٰن فاروقی کے تاثرات میں صاف نظر آ رہے ہیں جو انھوں نے اس رسالے کے مسودے کو دیکھ کر 26جولائی 2020 کو رقم کیا تھا۔ فاروقی کہتے ہیں: ’’یہ پرچہ بہت کامیاب ہوگا اور خاص کر اس کے ذریعہ ادب کے مسائل اور مباحث پر معنی خیز گفتگو ہوگی۔ پرچے تو آج کل بہت نکل رہے ہیں، لیکن ان کے مشمولات رسمی اور سرسری قسم کے ہوتے ہیں۔ ادب کے مسائل کیا ہیں، نئے زمانے کا ادب کس طرح کا ہو، پرانے ادب کو ہم کس طرح سمجھیں، ان باتوں پر گفتگو نہیں ہوتی۔ مجھے امید ہے کہ ہما کا یہ پرچہ اس کمی کو پورا کرسکے گا۔‘‘
کیا واقعی شمس الرحمٰن فاروقی کی یہ توقعات ’ریختہ روزن‘ پوری کررہا ہے؟ کیا زیر نظر شمارے میں ادب کے مسائل اور مباحث پر معنی خیز گفتگو شامل اشاعت ہے؟ کیا اس کے مشمولات رسمی اور سرسری نہ سہی لیکن محض پرانے کے نام پر ’آثار قدیمہ کا عجائب خانہ‘ تو نہیں ہے؟ کیا زیر نظر شمارے میں ادب کے مسائل، بطور خاص نئے ادب پر خاطر خواہ مواد موجودہے؟ کیا ’کچھ نئے‘ کے نام پر کچھ معاصر ادیبوں کی تخلیقات کو شامل کرکے صرف خانہ پُری کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے جب کہ اصل ہدف ’پرانا‘ ہی تھا؟
’پرانے‘ کے لیے ایڈیٹر ہما خلیل جواز پیش کرتے ہوئے کہتی ہیں:’’ان نگارشات کا اصل مقصد اس ادب کو منظر عام پر لانا ہے جو وقت کے ساتھ پرانے رسائل اور جریدوں میں مقید ہو کے رہ گیا ہے۔ بہت سے مایہ ناز لکھنے والوں کی تحریریں ان رسائل کے صفحات میں منتشر ہیں جو کتابی صورت میں شائع نہیں ہوئیں، لہٰذا آنے والی نسلیں ان کے استفادہ سے محروم ہوسکتی ہیں۔‘‘
کیوں ہوسکتی ہیں؟ ’ریختہ‘ کی عظیم الشان ویب سائٹ کس دن کام آئے گی جس نے ان تقریباً تمام پرانے اور نئے رسائل و جریدوں کو ڈیجیٹائز کر کے آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کرلیا ہے؟ خود آپ نے،نئی نسل کی ہونے کے باوجود، ان پرانے لکھنے والوں کی تحریروں سے کیسے استفادہ کیا؟ کیا آپ کو نئی نسل پر شک ہے کہ وہ پرانی چیزیں تلاش کرنے کی متحمل نہیں؟ اور خود آپ کی یہ کوشش بھی بیس تیس سال کے بعد آنے والی نسلوں کے لیے پرانی ہوجائے گی جس طرح موجودہ نسل کے لیے ہمارے پرانے مایہ ناز لکھنے والوں کی نگارشات پرانی ہوچکی ہیں۔ اور پھر سب سے اہم سوال یہ کہ آج سے پچیس تیس سال بعد آنے والی نسل ، آج کی نسل کی ’منتشر نگارشات‘ کہاں ڈھونڈے گی چونکہ ہم تو ’ریختہ روزن‘ کے ذریعہ اپنے سے بھی پرانی نسل کی تحریروں کو محفوظ کررہے ہیں؟ گویا ہمارے پاس اپنی آنے والی نسلوں کو دینے کے لیے کچھ نہیں سوائے اپنے آبا و اجداد کے مقبروں کے؟ ایک بات بتائیں، غلام عباس، راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی،جمیل مظہری، شاد عارفی، مظہر امام،چکبست، وزیر آغا، فرقت کاکوروی، راجہ مہدی علی خان، اخترالایمان، امیر مینائی ، خواجہ احمد عباس، فیض احمد فیض،مشتاق احمد یوسفی،مجاز، سجاد ظہیر، سعادت حسن منٹو وغیرہ ڈھیروں مشاہیر کو پڑھنے کے لیے ’ریختہ روزن‘ کیوں پڑھیں، کیوں نہ ہم ’ریختہ‘ کی ویب سائٹ پر جا کر موجود سینکڑوں پرانے رسائل کی ورق گردانی کرلیں یا ان کی کتابوں کی سافٹ کاپی کی ورق گردانی کرلیں؟ لیکن چلیے اگر آپ اپنے کلاسیکی سرمائے کو بھی اپنے جریدے کا حصہ بنانا چاہتی ہیں تو اس کے لیے ہر شمارے میں ایک باب مختص کردیجیے تاکہ نئے اور پرانے کا سنگم برقرار رہے لیکن بہرحال اس کا غالب حصہ تو معاصر ادب کا ترجمان ہی ہونا چاہیے۔ دیکھیے، میری باتوں کا برا نہ مانیں کہ میں یہ کسی بدنیتی کے سبب نہیں بلکہ از راہ خلوص بیان کررہا ہوں ورنہ یہاں آدھے اور پونے رسالوں کا انبار ہے جنھیں میں خاموشی سے برداشت کرتا رہا ہوں لیکن چونکہ ’ریختہ‘ کا میں قدردان ہی نہیں رہا بلکہ اس کے ذخیرے سے کافی استفادہ بھی کیا ہے بلکہ اب تک کرتا ہوں، سو ایسے فعال اور زرخیز اادارے سے کسی ایسے رسالے کا نکلنا میری توقعات کے برعکس تھا۔
مختصر یہ کہ اگر آپ اس رسالے سے معاصر ادبی معاشرے کے جمود کو توڑنا چاہتی ہیں تو پھر آپ کو اپنے ’شاندار ماضی‘ کے جارگون سے باہر نکالنا ہوگا جس میں ابھی یہ مقید نظر آرہا ہے۔ ادب تسلسل ہی کا نام ہے، ہر نسل اپنی پیش رو نسل سے کچھ سیکھتی ہے ، کچھ قبول کرتی ہے اور کچھ ردّ بھی کرتی ہے لیکن اس میں ’ریسائیکلنگ‘ کا پروسیس اس طرح کام نہیں کرتا جس طرح مثلاً ان معاشروں میں جو اپنے ماضی کی اسیری اختیار کرلیتے ہیں اور اسی کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ میرے خیال میں کسی بھی معقول ادبی رسالے کا ہر شمار ہ اختراعی نوعیت کا حامل ہونا چاہیے اور ایک ’ایجاد‘ ہونا چاہیے ، جس میں اگر پرانی چیزیں بھی ڈائجسٹ کی گئی ہو ں تو بقیہ مشمولات سے ان کا خود ہی Relevanceنکل آئے، ’مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ‘ ۔ میرے نزدیک ’ریختہ روزن‘ ایک اچھا رسالہ ہو سکتا ہے، لیکن فی الحال میں اس کا پہلا شمارہ آنکھوں سے لگا کر اور ہونٹوں سے چوم کر محفوظ کررہا ہوں اور مجھے انتظار رہے گا اس شمارے کا جب ہما خلیل کے اداریے میں یہ جملہ شامل ہوگا، ’’ ریختہ روزن میں زیادہ تر نئی اور کچھ پرانی نگارشات بھی شامل ہیں۔‘‘