حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ایک بڑا ہی گنہگار آدمی تھا۔ اس نے کبھی نیکی نہیں کی تھی، وہ ہر وقت جوانی والے شہوانی کاموں میں لگا رہتا تھا، یعنی دن و رات نفسانی خواہشات کی تکمیل میں لگا رہتا تھا کبھی اس کے دل میں اللہ کا ڈر و خوف آتا ہی نہیں تھا وہ ذہنی خواہشات میں اتنا مست تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی نازل فرمائی کہ اے میرے پیارے موسی ! فلاں بندے کو جاکر میرا پیغام دے دو کہ میں نے تمہیں دنیا میں بندگی کیلئے بھیجا تھا مگر دنیا میں جاکر تم نے نافرمانی کی، تم نے اتنے گناہ کئے کہ گناہوں نے تمہارا احاطہ کرلیا، اب میں تم سے ناراض ہوں، اس لئے میں تمہیں نہیں بخشوں گا، اور قیامت کے دن تمہارا ٹھکانا جہنم ہوگا،
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب یہ پیغام سنایا تو کہ تونے اتنے گناہ کئے اتنے گناہ کئے اللہ تم سے ناراض ہیں اور فرماتے ہیں میرے بندے میں تجھ سے ناراض ہوں، تو نے قدم قدم پر میرے حکموں کو توڑا اور میرے پیغمبروں کی سنتوں کو چھوڑا، لہذا میں میں تجھ سے خفا ہوں ،اب میں تجھے نہیں بخشوں گا اور تجھے جہنم میں ڈال دوں گا، اس بندے نے جب یہ بات سنی تو اس بندے کے دل میں ایک عجیب طرح کی کیفیت پیدا ہوگئی وہ سوچنے لگا! اوہو! میں اتنا بڑا گنہگار ہوں کہ پروردگار مجھ سے ناراض ہیں اور اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر کے ذریعہ پیغام بھیج دیا کہ میں تجھ سے خفا ہوں تجھ سے ناراض ہوں اور تجھے جہنم میں ڈال دوں گا،
وہ یہی باتیں سوچتے سوچتے جنگل کی طرف نکل گیا، وہ ویرانے میں جاکر اپنے رب سے منا جات کرنے لگا کہ اے اللہ! میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں میں نے بڑے بڑے گناہ کئے کوئی ، دن میں بھی کئے رات میں بھی کئے، محفل میں بھی کئے تنہائی میں بھی کئے، اے اللہ! میں نے گناہ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی میں نے سر پر گناہوں کے بڑے بڑے بوجھ لاد لئے ہیں،مگر اے پروردگار! اگر میرے پاس گناہوں کے بوجھ ہیں تو تیرے پاس بھی عفو درگزر کے خزانے ہیں، اللہ! کیا میرے گناہ اتنے ہو گئے کہ تیرے عفو و درگزر کے خزانوں سے بھی زیادہ ہیں، میرے مولا! اگر تو کسی کو پیچھے دھکیلے گا تو پھر کون ان کا غمخوار ہوگا، اے بے کسوں کے دستگیر! میں تیرے سامنے فریاد کرتا ہوں تو مجھے مایوس نہ کر تیری رحمت میرے گناہوں سے زیادہ ہے اور میرے گناہ تیری رحمت سے تھوڑی ہیں، بالآخر اس نے یہاں تک کہ دیا، اے پروردگار! اگر میرے گناہ اتنے زیادہ ہیں کہ بخشش کے قابل نہیں ہیں تو میری ایک فریاد سن لے کہ تیری جتنی بھی مخلوق ہے بن سب مخلوق کے گناہ میرے سر پر ڈال دے، مجھے قیامت کے دن عذاب دے دینا مگر باقی بندوں کو معاف کر دینا،
اس کے یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کو پسند آئے لہذا اللہ تعالیٰ نے فوراً حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی کی، اے موسی! اس بندے کو بتادیجۓ کہ جب تو نے میری رحمت کا اتنا سہارا لیا تو سن لے میں حنان ہوں، منان ہوں، رحیم ہوں، لہذا میں نے تمہارے گناہ کو معاف کردیا بلکہ تمہارے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیا،
اس لئے ہمیں اللہ کی رحمت سے فائدہ اٹھانا چاہیے کبھی اس کی رحمت سے مایوس نہیں چاہئے اس کی رحمت سے گناہوں کو دھوتے رہنا چاہیے تاکہ دونوں جہاں میں سرخرو ہوں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رحمت کے سایہ میں جگہ عطا فرمائے،
نوٹ۔ اس کالم کو اپنے بچوں تک ضرور پہنچائیں،
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...