رحمان راہی ۱۹۲۵ عیسوی میں سرینگر میں پیدا ہوئے۔ابھی باحیات ہیں کشمیری اور اردو دونوں زبانوں کےاعلیٰ شاعر اور نقاد ہیں۔ انکی نمایاں ادبی خدمات بالخصوص نورروز صبا اور سیاہ رود جیران منز( سیاہ بوندا باندی) شعری مجموعوں پر بھارت سرکار نے اعلی اعزازات سے نوازا ۔ وادی کشمیر سے ادب میں وہ پہلے شخص ہیں جنہیں دوران حیات اسقدر پزیرائی ملی ۔ پدم شری اور گیان یٹھ اوارڈ یافتہ رحمان راہی نے اردو میں کم ہی لکھا لیکن جو بھی لکھا ہے وہ نہایت معیاری ہے۔ انکا ذیادہ کام کشمیری میں ہی ہے اور رحمان راہی کی کچھ اردو غزلیں میری نظر سے گذری ہیں ۔ سادگی و پرکاری ،معنی آفرینی اور بدیع الاسلوبی کے اعتبار سے موجودہ عہد میں شاید ہی انکی ٹکر کا کوئی شاعر ہو
یاد پھر اس شعلہ رو کی آگئی
آگئی اور آگ سی بھڑکا گئی
وہ لچک کر رہ گئی قوسِ قزح
یا کوئی نازک کمر بل کھا گئی
رحمان راہی
دل کی بربادی کا راہی کچھ نہ پوچھ
کھلتے کھلتے اک کلی مرجھاگئی
رحمان راہی
رحمان راہی کی ان اشعار میں برجسگی اور تازگی ظاہر ہے مجھے کشمیری ذیادہ نہںں آتی۔ ماہ نامہ آجکل نئی دہلی شمارہ جولائی ۲۰۰۷ عیسوی میں ان کے فکر وفن پر ایش کمار کاتحریر کردہ بہت اچھا مضمون نظر سے گذرا ہے انکی اک کشمیری غزل کے دواشعار:
یہ کمئ وون اکی ڈنجہ پیٹھ روز دنیا
جنونس چھنا کیہنہ تہِ روز آزماونی
رحمان راہی
یعنی
کون کہتا ہے دنیا ایک ہی راستےپر چلے گی جنوں کو بھی اپنی زور آزمائی کا مظاہرہ کرنا ہے
وُڈر پیٹھ اگر رات لج تَوْ تہ کیاہ گھوو
پگاہ کاروانس چھِ گلزار چھاونی
رحمان راہی
اگر رات بنجر زمیں یا پتھریلے ٹیلے پر بھی کٹے تو کیا غم ہے کل کارواں گل و گلزار کا خوب لطف اٹھائیں گے۔
رحمان راہی کے کچھ اور اشعار
میں بہک گیا تو بہک گئی مری کائنات بھی سر بسر
تھا عجب اثر، تھی عجب کشش تری بہکی بہکی نگاہ میں
وہ افق پہ چھا گئیں، بدلیاں وہ لگا ٹپکنے خمار سا
مرے عزمِ توبہ سلام ہے ، میں چلا گنہ کی پناہ میں
رحمان راہی
یہ بحر کامل میں لکھے گئے اشعار لاجواب ہیں ۔ ان سے اقبال ک جوش بیاں ٹپکتا ہے ۔
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیازمیں
اقبال
رحمان راہی کے یہاں استعارہ کی تازگی اور اسلوب کا نیاپن دو نمایاں خوبیاں ہی انکے درجۂ امتیاز کا باعث ہیں رحمان راہی نظم بھی خوب لکھتے ہیں انکی بعض نظموں کے ٹکڑوں میں اسرار الحق مجاز کی سی روانی اور مخدوم محی الدین جیسی سلاسلت پائی جاتی ہے شعر
تلخیِ زیست کے اسباب پہ انگلی رکھ دوں
اپنے آقاؤں سے دو چار سوالات کروں
نیز۔۔۔۔۔
کیا تمدن کی حظاظت کے یہی معنی ہیں
علم و آگاہی کے دروازے مقفل ہوجائیں
عبدالقادر سروری نے رحمان راہی کی نظموں کو بہت سراہا لیکن رحمان راہی کے نظمیں انقلابی نوعیت کی ہیں۔
غزل
بہت آئے مگر ہم جیسے کم ہی دیدہ ور آئے
ہماری طرح جو انکے لب و رخ تک گذرآئے
فریب جستجو ہے یہ کہ ہے تکمیل نظارہ
نگاہ شوق جس جانب اٹھی تم ہی نظر آئے
ان ہی تاریکیوں میں آو ہم اگر ڈھونڈیں کرن کوئی
یہ کب تک انتظار آخر کہ شب گذرے سحر آئے
نظر آیا نہ شام بے کسی پرسان غم کوئی
اجالا پھیلتے ہی کس قدر سائے ابھر آئے
سمیٹے ہی رہے کانٹوں کے ڈر سے لوگ دامن کو
صبا کی طرح ہم تو وادئ گل سے گذر آئے
نہ جانے کس قدر راہوں کے پیچ و خم سے گذرے ہیں
کہیں پھر جاکے راہی ہم کو آداب سفر آئے
رحمان راہی
آئینہ ہفتہ وار ۱۹۶۶ کے شمارہ ۳۲ اپریل ۱۹۶۶ میں شاعری میں ابہام کے موضع پر رحمان راہی لکھتے ہیں:
” محض ابہام کی بنا پر کسی شعری کارنامے کی قدر و قیمت سے انکار کرنے والے شاید اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ ابہام ایک لحاظ سے شاعرانہ عمل ہے۔ نیز لکھتے ہیں
شاعر سیدھے بات نہیں کرتا اس لئے کہ وہ ایسا نہیں کرسکتا وہ ایسا کرے تو تو اپنی مخصوص بات، احساس، خیال، تجربے اور اپنی مخصوص لے کو کماحقہ ادا نہیں کرسکتا اس کا تخیل جس قدر دور رس ہوگا اس کا تجربہ جس قدر اچھوتا اور نرالا ہوگا اسی قدر عام استعمال کی صاف اور واضح منطقی زبان کا ساتھ دینے سے معذور نہ ہوگی”
بحوالہ کشمیر میں اردو جلد سوم ص۹۵
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...