گئے دنوں میں جسے بد ترین کہتے تھے
اب اچّھا حال بھی اُس حال کے مساوی ہے
رفتہ رفتہ ہلکے رنگوں سے بھی دلچسپی ہوئی
میں بڑا ہوتا گیا اور خوش نظر ہوتا گیا
کیسا نیا خیال مِرے ذہن میں جگا
یکدم تمام لفظ پرانے لگے مجھے
مگر یہ دیکھ اسے عمر بھر سہارنا ہے
اٹھا سکے تو بڑے شوق سے یہ بار اٹھا
اسطرح کیسے کٹے گا یہ سفر پمسفرو
چھاؤں آتی ہے کہ سامان سفر کھلتا ہے
یہ فصل پکتی جاتی تھی سورج کی آنچ پر
میں کشت جاں کو سینچتاجاتا تھا دھوپ سے
رحمان حفیظ نے اپنی شاعری میں عزم صمیم کا عمدہ مظاہرہ کیا ہے اور انجماد و یخ بختگی سے بیزاری اور برہمی کا برملا اظہار . وہ زندگی اور اسکے مسائل پر گہری نظر ڈالتے ہیں. اور بغیر پڑاؤ ڈالے پیہم آگے بڑھتے جاتے ہیں . کسی جگہ اگر وہ حیرت زدہ ہوتے ہیں تو دوسرے مقام پر رنج رائگانی محسوس کرتے دکھائی دیتے ہےاور کہیں کچھ اور…..انہوں نے مختلف کیفیات کو اپنے اشعار میں خوبصورتی اور چابکدستی سے پیش کیا ہے میں سمجھتا ہوں وہ اپنی شخصیت کے خدو خال کو اپنے کلام میں پینٹ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں بقول شاعر
یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دارورسن کہاں
سیدھے سادھے مگر بامعنی اشعار، رحمان حفیظ کی فکر و دانش کے آئینہ دار ہیں.
وہ لہر جاگ نہیں پائی پھر وجود میں کیوں؟
پڑا ہوا ہوں میں اک حالت جمود میں کیوں؟
ایسے جاں بخش حوادث بھی ہوا کرتے ہیں
چھت کی تعمیر سے پہلے ہی ستوں ٹوٹ گیا
چراغ چشم کی لو گھٹ رہی ہے روز بروز
یہ نور گھلتاچلا جارہا ہے دود میں کیوں ؟
بعض اشعار پر تبصرہ
انسان کی فطرت یہی ہے کہ مشکلات اور حوادت سے برسر پیکار رہ کر ہی وہ زندگی کا لطف اٹھانا پسند کرتا ہے .اسی لئے اس دارالاسباب میں انسان اسی چیز کی تلاش میں رہتا ہے جس کا ہاتھ آنا کم از کم مشکل یا محال ہوتا ہے. معلوم یہ یوا یہ زندہ رہنے کے لئے نارسائی ہی تڑپ کی جان اور روح رواں ہے کسی چیز کو پانے کے مقابلے میں اسکی جستجو اور تلاش ذیادہ معنی خیزہے اور اہمیت کی حامل شعر
کبھی جو معرض تخلیق میں نہیں آتا
ہمیں ہمیشہ رہی ہے اسی سخن کی تلاش
اس جہاں میں تخلیقی تنوع اور رنگا رنگی کا مقصد نمودرای ہی ہے یہاں ہر چیز اپنے وجود اور انفرادیت کے لئے جنگ لڑ رہی ہے جسے بقای اصلح کہتے ہیں .قدرت نے ہر بیج کی ودیعت میں ایسا جوش و خروش اور طاقت و قوت پنہاں رکھ دی ہے کہ بعض اوقات وہ معمولی سے درز میں اپنی جڑیں پیدا کر کے پتھر کا سینہ پھاڑ دیتا ہے یہ نموداری ہی حیات کی متقاضی ہے . میں رحمان حفیظ کا مندرجہ ذیل شعر پڑھ کر پہروں سر دھنتا ہوں .
سینہ ء سنگ کو بھی چیر کے رکھ دیتا ہے
سبزہء شوق جب آتا ہے نمو داری پر
اس جہاں کو کہنا جہاں ہر چیز دوسری سے ہم آہنگ اور منسق ہے. میرا خیال ہے آج تک اس موضوع پر اور اس قبیل کا شعر میری نظر سے نہیں گزرا سچ تو یہ شاعر اور سورج کی آنکھ ایسی ایسی جگہوں پر پڑتی ہے جہاں کے بارہ میں عام انسان سوچ بھی نہیں سکتا.
عالمِ زنجیر نہایت خوبصورت ترکیب ہے شعر
کوئی چاہے بھی تو تنہا نہیں جی سکتا یہاں
کس عجب عالمِ زنجیر میں آ نکلا ہوں
گونج کو یہاں فرط انبساط سمجھئے یا جوش و خروش یا نشہ و سرور…..بہر حال ہر معنی مناسب اور موزوں لگتا ہے ."گونج کے ٹوٹنے کی' تازگی اور َابتکار ، پر لطف شعر
جِس سے رشتہ ہی نہ تھا کوئی بظاہر میرا
گُونج ٹوٹی ہے تو میں اس کی صدا نکلا ہوں
وقت ایک احساس ہے ظاہر ہے کہ گھڑی اس احساس کی ماپ کے لئے آلہ کار ہے .جس کو ہم اپنے اوپر جھیلتے ہیں. یہاں عناصر سے مراد" أجزاء حيوية " انکے بدلنے کی بات نئے انداز میں ہوئی ہے.. نرالا شعر ہے
خدا کرے کہ مرا بس چلے عناصر پر
میں اور وقت بناوں تری گھڑی کے لئے
رحمان حفیظ کے بعض اشعار میں حکیمانہ افکار بھی ملتے ہے.شاعری میں حکمت و فسلفہ کی آمیزش کوہر دور میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے ایسا کیوں نہ ہوکہ شعر کا براہ راست تعلق شعور انسان سے ہے لہذا اچھی شاعری انسان کے عقل و شعور اورعلم و اگہی کو ضرور اجاگر کرتی ہے . مشکلات کا سامنا کئے بغیر انکی کلید بھی ہاتھ نہیں آسکتی .مندرجہ ذیل شعر میں برق خوبصورت استعارہ ہے ایک طرف برق کا گرنا تباہی پر دلالت کرتا ہے تو دوسری طرف اسی برق سے راستہ پر چلنے والوں کو روشنی بھی ملتی ہے .عجیب امید و خوف کی کیفیت ہے شعر
زندگانی بھی عجب کوچۂ ظلمت ہے جہاں
برق گرتی ہے تو رستے کا پتہ چلتا ہے
شاعری کی غرض و غاہت کو بہت سے شعرا نے اپنے اپنے انداز میں پیش کیا ہے لیکن رحمان حفیظ درخت کی مثال سے عمدہ اور موثر اظہار کیا ہے .دریا ہو یا پھلدار پیڑ چاند ہو یا چراغ..ان کا وجود اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کےلئے ہوتا ہے .
مِرا سخن، مِرا فن دوسروں کی خاطر ہے
درخت ہوں، مِری قسمت میں اپنا پَھل کوئی نئیں
مزید بعض خوبصورت اشعار
ہو گئے خاک تری را ہ میں لیکن یہ نہ بُھول
ہم وُہی ہیں جو تِرے دل میں کِھلا کرتے تھے
ایسا کرتے ہیں الٹ دیتے ہیں زنبیل۔حیات
اور اس میں سے کوئی کام کا پل ڈھونڈتے ہیں
شاخِ دل اب بھی لچکتی ہے اسی حسرت میں
کاش ! مجھ پر بھی پرندہ کوئی بیٹھا ہوتا
کتنے یکساں ہیں مری قوم کے سب معمولات
صرف تاریخ سے اخبار بدل جاتا ہے
غزل
ہمارے حق میں کسی کے جفر، رمل کوئی نئیں
جو اہلِ دِل کے مسائل ہیں، اُن کا حل کوئی نئیں
ہم اہلِ فکر و نظر جس میں جینا چاہتے ہیں
جہانِ گِل ! تِری تقویم میں وہ پَل کوئی نئیں
عجیب شہر میں میرا جنم ہوا ہے جہاں
بَدی کاحل کوئی نئیں، نیکیوں کا پَھل کوئی نئیں
نظر تو خیر نظارے پہ ہو گئی قانع
مگر خبر کی پریشانیوں کا حل کوئی نئیں
مِرے لیے نہ رُکے کوئی موجِ استقبال
میں رزقِ لمحہء حاضر ہوں میرا کل کوئی نئیں
مِرا سخن، مِرا فن دوسروں کی خاطر ہے
درخت ہوں، مِری قسمت میں اپنا پَھل کوئی نئیں
میں آپ اپنے گلے لگ کے، خود سے کہتا رہا
حفیظ ! چل کوئی نئیں ،اے حبیب ! چل کوئی نئیں