ریگ مال بطور ٹوائلیٹ پیپر
ہمارے بڑے بوڑھے ہمیں بتاتے ہیں کہ آزادی کے بعد ابتدائی چند عشروں کے دوران مساجد میں خال خال لوگ ہی آیا کرتے تھے اور ان میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد زیادہ ہوتی تھی۔آج مسجدیں نوجوان نمازیوں سے بھر جاتی ہیں، گزشتہ سال بھی رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنے والے افراد میں پچھلےایک عشرے سے چل پڑی روایت کی طرح اکثریت نوجوانوں ہی کی تھی، اور جس طرح تیاریاں کی جارہی ہیں، امید ہے کہ اس سال شاید پچھلے سال سے تعداد دُگنی نہیں تو بیس پچیس فیصد تو زیادہ ہی ہوگی۔ ماضی میں سرکاری و غیر سرکاری ملازمتوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد میں مذہبی میلانات کم ہی دیکھنے کو ملتے تھے، جبکہ آج ایگزیکٹو پوسٹ پر فائز بہت سے افراد پابند صوم و صلوٰۃ، باریش اور معروف شرعی وضع قطع کے حامل ہوچکے ہیں۔
اس کے باوجود بھی ہمارے معاشرہ کی صورتحال یہ ہے کہ یہاں اکثر معاملات میں نہ تو دلیل اور منطق کو تسلیم کیا جاتا ہے اور نہ صحیح اور غلط کا معیار اخلاق و ضمیر کی کسوٹی رہا ہے۔
کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ ہمارے معاشرے میں انفرادی مفاد کے لیے ہرقدر پامال کی جاسکتی ہے، ہراصول سے انحراف کیا جاسکتا ہے اور ہرقانون توڑا جاسکتا ہے؟
چند سال قبل ایک معروف مذہبی جماعت کے ’’سرگرم‘‘ لیڈر نے ’’سرد و نرم‘‘ بیان دیا تھا کہ ’’نیک لوگوں کو گنہگاروں سے نفرت نہیں کرنا چاہئے بلکہ اُنہیں محبت کے سلوک سے اپنے قریب لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔‘‘
ابتداء میں تو ہماری سمجھ میں یہ بات نہ آسکی کہ یہ کس قسم کے ’’نیک‘‘ لوگ ہیں جنہیں یہ بات ’’سمجھانی‘‘ پڑ رہی ہے کہ وہ دوسروں سے نفرت نہ کریں، بلکہ محبت سے پیش آئیں۔
گو کہ ہم نے تند و تیز، توتکار اور نیم مہذبانہ گالیوں پر مبنی بیانات کے اس شور و شغب میں اس بیان کو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا قرار دیا تھا لیکن ہمارے ذہن میں یہ سوال کلبلا رہا ہے کہ یومِ حشر سے پہلے یہ ترازو کس طرح ایجاد ہوگئی، جس کی بناء پر کچھ لوگ خود کو بزعمِ خود ‘‘نیک’’ سمجھیں اور کہلوائیں؟
اس لیے کہ بچپن سے تو ہم یہی سنتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ نیتوں کا حال اللہ ہی جانتا ہے۔
مذہبی لوگوں کے خشک اور کھردرے رویوں کے حوالے سے ہمارے دوست نون کا کہنا ہے کہ ’’یہ رویے تو خشک اور کھردری سطح سے ارتقائی مرحلے طے کرتے ہوئے شاید اب ایسے ‘‘ریگ مال’’ کی مانند ہوچکے ہیں، جسے لوگوں سے جبراً ٹوائلٹ پیپرز کے بجائے استعمال کروایا جارہا ہے۔‘‘
ہمیں بچپن سے ہی یہ رٹایا گیا کہ ہمارا ملک اس مقدس رات کو وجود میں آیا تھا، جب آسمان سے تجلّیاں نازل ہوتی ہیں اور جبرائیل علیہ السلام شب بیدار مؤمنوں سے مصافحہ کرتے ہیں!
برسوں گزرگئے، سینکڑوں لوگوں سے دریافت کیا کہ آپ ماءشااللہ ہر سال رمضان کی طاق راتوں میں عبادت کرتے ہیں، کیا کبھی تجلّی کا دیدار ہوا….اور کیا آپ سے جبرائیل علیہ السلام نے مصافحہ کیا؟
کچھ نے معنی خیز مسکراہٹ جو ہمیں مکارانہ مسکراہٹ زیادہ معلوم ہورہی تھی کے ساتھ کہا کہ ….میاں اس قسم کے سوالات نہیں کیا کرو….راز کو راز ہی رہنے دو….!
کچھ نے اپنے دل کی حقیقت بلاجھجک بیان کردی اور کہا کہ ….صاحبزادے دعا کرو، ہم اس قابل ہوسکیں…..!
اور کچھ نے کچھ ڈرامائی انداز اختیار کرتے ہوئے تجلی کے نزول اور جبرائیل کے مصافحے کا پورا قصہ ہمارے سامنے بیان کردیا، جبکہ ان کی عملی زندگی کا حال یہ تھا کہ کمینگی کے انتہائی اعلیٰ رتبے پر فائز کرنا بھی ان کے لیے دُرست نہ ہوگا بلکہ خباثت پرستی کا کوئی نیا ایوارڈ اختراع کرکے ان کو عطا کرنا پڑے گا۔
کیا ایسا نہیں لگتا کہ مذہب سے منسلک کرکے پاکستان کو خدائی معجزہ قراردینے کی حماقت آمیز کوشش اسی طرح ’’گھل مُل یقین‘‘ ہے جیسا کہ مذہب سے متعلق بہت سی روحانی روایتیں، کرامتیں اور کایاکلپ کردینے والے قصّے! جن کا ٹھوس ثبوت آج تک نہیں دیا جاسکتا، ہاں رٹی رٹائی منطق کی چھری اور عذاب جہنم کے خوف سے سوال کرنے والے زِچ ضرور کیا جاسکتا ہے!
رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہماری مملکت خداداد پر سایہ فگن ہے۔ اس مہینے میں یہ فیشن بن گیا ہے کہ ہر آئے گئے سے اسی طرز کے سوال پوچھے جاتے ہیں کہ آپ کا روزہ ہے؟ یا روزے کیسے جارہے ہیں؟ یا پھر کتنے روزے ہوگئے؟
ایک صاحب نے ہم پر بھی یہ سوال کھینچ مارا، کہ کیا آپ کا روزہ ہے؟
ہم نے جواب دینے کے بجائے، اُلٹا انہی سے سوال کیا کہ کیا آپ کا روزہ ہے؟
فرمانے لگے ….الحمدللہ!
ہم نے ان سے عرض کیا کہ آپ کے پاس اس کا کیا ثبوت ہے کہ آپ کا روزہ ہے؟
بگڑ کر بولے کیا مطلب؟
ہم نے نہایت تحمل کے ساتھ عرض کیا کہ جناب! ابھی آپ نے فرمایا ہے ناں کہ آپ روزے سے ہیں تو آپ کے پاس اس کا کیا ثبوت ہے؟
کہنے لگے کہ ….یہ کیا بات ہوئی؟
ہم نے پھر اسی طرح انتہائی مسکین صورت بنائے عرض کیا کہ….محترم ! آپ کے پاس اگر کوئی ثبوت ہے تو پیش کیجیے، ہم مان لیں گے کہ آپ کا واقعی روزہ ہے۔
کہنے لگے….میرے گھر چل کر پوچھ لو، گھر والے بتا دیں گے کہ میرا روزہ ہے!
ہم نے کہا….جناب آپ کے گھروالے کیا چوبیس گھنٹے آپ کے ساتھ رہتے ہیں؟
کہنے لگے، نہیں ….!
ہم نے کہا….تو پھر ہم ان کے کہنے پر کیسے مان لیں کہ آپ کا روزہ ہے؟
پھر کیسے مانو گے….؟
وہ تقریباً چلّاتے ہوئے بولے۔
ہم نے پھر اسی تحمل کے ساتھ عرض کیا:
جناب لگ بھگ پندرہ گھنٹوں کا روزہ ہوتا ہے، ہم تو اس وقت مانیں گے، جب ان پندرہ گھنٹوں میں آپ ہماری نظروں کے سامنے رہیں، یہاں تک کہ واش روم اور باتھ روم میں بھی آپ ہماری نظروں سے اوجھل نہ ہوں….کہ کہیں آپ ہماری نظر سے بچ کر کچھ کھائیں نہیں تو ایک آدھ گھونٹ پانی ہی نہ پی لیں….اور ہاں ہم ایک دن جو آپ کے لیے مختص کریں گے، یقیناً اپنے روزگار سے رخصت لے کر ہی کر سکتے ہیں، اس لیے ہماری ایک دن کی جو بھی ویجز یعنی معاوضہ بنتا ہے، وہ آپ کو دینا پڑے گا۔
ان صاحب کا پارہ چڑھ چکا تھا، چیختے ہوئے بولے….تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہے….میں کیوں تمہیں اس طرح دن بھر کے لیے اپنے ساتھ رکھوں گا….اور تمہیں اس کا معاوضہ کیوں دوں….؟
جناب آپ روزہ کس لیے رکھتے ہیں؟
ہم نے سوال کیا۔
اللہ کے لیے….اور یہ بھلا پوچھنے کی بات ہے؟
وہ اسی طرح بگڑتے ہوئے بولے۔
ہم نے نہایت عاجزی کے ساتھ عرض کیا کہ ….محترم! جب آپ روزہ اللہ کے لیے رکھ رہے ہیں تو ہمیں کیوں بتا رہے ہیں کہ آپ کا روزہ ہے….اللہ کو بتائیے ناں….وہی تصدیق کرسکتا ہے….ہماری تصدیق کے لیے تو وہی پروسیجر اپنانا پڑے گا جو ہم نے ابھی بیان کیا ہے۔
نماز ہو یا روزہ یہ بندے اور خدا کا معاملہ ہے….آپ نماز ادا کرتے ہیں، آپ کے ظاہری عمل سے قطعہ نظر آپ کے دل میں کیا ہے، یہ میں کیسے جان سکتا ہوں؟
ظاہر ہے کہ ہرگز نہیں!….اور نہ ہی آپ مجھے اپنے دل میں کیا ہے، دکھا سکتے ہیں….!
جب آپ کی نماز، آپ کا روزہ آپ کی دعا اور آپ کی تمام عبادات، آپ کی ہے اور ان عبادات کا معاملہ آپ کے اور خدا کے درمیان ہے تو آپ پھر مجھ غریب پر اس کا رعب کیوں ڈالتے ہیں….مجھے کیا معلوم جب آپ نماز میں ہوتے ہیں تو ہونٹوں پر رٹی ہوئی آیات کے ساتھ ساتھ ذہن میں وہی شیلا کی جوانی والا نغمہ تو نہیں گونج رہا ہوتا ہے؟ جو آپ کے پوتے نے اپنے موبائل فون کی رنگ ٹون کے طور پر سیٹ کر رکھا ہے….اور دن بھر آپ کے گھر میں گونجا کرتا ہے۔
یا پھر آپ چونکہ شریعت کی دال روٹی کھاتے ہیں، اس لیے کہیں آپ کے ذہن میں حیض ونفاس کے مسائل پر بحث تو نہیں جاری رہتی؟
یا پھر آپ جو دن بھر اسٹیٹ ایجنٹ کی شاپ پر محفل جمانے کے ساتھ ساتھ محلے کی خواتین کا نظروں ہی نظروں سے بھرپور جائزہ لیتے رہتے ہیں، کہیں ان کا سراپا تو آپ کے ذہن کی اسکرین پر تو نہیں رقصاں رہتا ہے؟
یا پھر چونکہ آپ کی ساری عبادات کا محور و مرکز حورانِ بہشت کا حصول ہے، اور آپ اکثر ان کا تذکرہ پڑھتے رہتے ہیں تو آپ ان کے تخیل میں محو تو نہیں ہوجاتے؟
اگر نہیں تو پھر اس کا کیا ثبوت ہے کہ ایسا نہیں ہے؟
میں کیسے مان لوں کہ آپ کی عبادت خالصتاً اللہ ہی کے لیے ہے؟
کیا آپ کے ذہن کے تصورات کی اسکرین میں دیکھ سکتا ہوں؟
اگر نہیں تو آپ کی ساری عبادات آپ کو مبارک ہو،اس کی چھری لے کر مجھے ذبح نہ فرمائیے، اس لیے کہ یہ آپ کا اور خدا کا معاملہ ہے….آپ کا اور خدا کے بندوں کا نہیں!
جس ظاہر پرستی کا ہم یہاں نوحہ پڑھ رہے ہیں المیہ یہ ہے کہ وہ شق 63,62 کی صورت میں پاکستان کے آئین کا حصہ بنی ہوئی ہے۔ اس کی رو سے بھی نیک لوگوں کی تعریف کچھ اس قسم کی ہے جو صرف اُن نیک لوگوں کے حق میں جاتی ہے جن کی عبادت، مسجد کے باہر قدم رکھتے ہی ختم ہوجاتی ہے اور وہاں سے اُن کی وہ دُنیا شروع ہوجاتی ہے جہاں سب کچھ جائز ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔