مندرجہ ذیل سین معروف فلم گاڈفادر کے شروع میں ہے۔ اس کو ذرا غور سے پڑھئے۔
مافیا کے لیڈر ڈان کارلیونی کی بیٹی کی شادی کا دن ہے۔ اطالوی امیگرنٹ بوناسیرا، جو ایک گورکن ہے، ایک کام کے لئے ڈان کے پاس آتا ہے۔ اس کی بیٹی کو اس کے دوست اور ایک اور لڑکے نے نے مل کر مارا پیٹا تھا۔ بوناسیرا بدلہ چاہتا ہے۔ بوناسیرا بتاتا ہے کہ کس طرح حملہ کیا گیا، گرفتاری ہوئی اور لڑکوں کا مقدمہ سنا گیا۔ ان کو معطل شدہ سزا سنائی گئی اور اسی روز رہا ہو کر آزاد پھر رہے تھے۔ بوناسیرا شدید غصے میں ہے اور بے عزتی محسوس کر رہا ہے۔ ڈان کے پاس انصاف کی فرمائش کرنے آیا ہے۔ ڈان کارلیونی پوچھتا ہے کہ اس کو کیا چاہیے۔ بوناسیرا سرگوشی کرتا ہے، جس سے دیکھنے والے سمجھ جاتے ہیں کہ یہ ان کی جان لینے کی خواہش ہے۔ کارلیونی انکار کر دیتا ہے اور پوچھتا ہے کہ بوناسیرا نے کب دوستی نبھائی ہے۔ بونسیرا تسلیم کرتا ہے کہ وہ مشکل میں پڑنے سے خوفزدہ تھا۔ مکالمہ جاری ہے۔
ڈان کارلیونی: مجھے پتا ہے۔ تمہیں امریکہ میں آ کر جنت مل گئی تھی۔ اچھا کاروبار چل رہا تھا، اچھی زندگی چل رہی تھی۔ پولیس تمہاری حفاظت کرتی تھی اور پھر عدالتیں تھیں۔ تمہیں میرے جیسے دوست کی ضرورت نہیں تھی۔ اب تم میرے پاس آئے ہو اور کہتے ہو، “ڈان، مجھے انصاف دلواوٗ”۔ تم نے یہ کہتے ہوئے مجھے مناسب عزت نہیں دی۔ تم نے دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھایا۔ تم نے مجھے گاڈفادر تک نہیں کہا۔ میری بیٹی کی شادی کے دن میرے گھر میں آ گئے ہو اور کہتے ہو کہ تمہیں پیسوں کے عوض قتل کروانا ہے۔
بوناسیرا: میں انصاف مانگتا ہوں۔
ڈان کارلیونی: یہ انصاف نہیں ہے۔ تمہاری بیٹی ابھی زندہ ہے۔
بوناسیرا: پھر انہیں تکلیف پہنچائیں۔ جیسے انہوں نے میری بیٹی کو تکلیف پہنچائی تھی۔ اس کے لئے مجھے کتنی قیمت ادا کرنا ہو گی؟
ڈان کارلیونی: بوناسیرا ۔۔۔ بوناسیرا ۔۔۔ میں نے تمہارے ساتھ ایسا کیا کیا ہے کہ تم مجھ سے ذلت آمیز سلوک کر رہے ہو۔ اگر تم دوست بن کر آئے ہوتے تو وہ گھٹیا لڑکا جس نے تمہاری بیٹی کو برباد کیا ہے، اسی وقت اپنے زخم چاٹ رہا ہوتا۔ اور اگر کسی وجہ سے تمہارے جیسے دیانتدار شخص سے کوئی دشمنی مول لیتا تو وہ میرا دشمن بن جاتا اور پھر تمہارے خوف سے لرزتا۔
بوناسیرا: میں دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہوں ۔۔۔۔ گاڈ فادر؟۔
بوناسیرا جھک کر ڈان کارلیونی کا ہاتھ چومتا ہے
ڈان کارلیونی: اچھا ہے۔۔۔۔ وقفہ ۔۔۔۔ کسی روز، اور میری خواہش ہے کہ ایسا دن نہ آئے، مجھے تمماری مدد کی ضرورت پڑے گی۔ لیکن جب تک وہ دن نہیں آتا، اس انصاف کو میری طرف سے اپنی بیٹی کی شادی کے روز کا تحفہ سمجھو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس غیرمعمولی منظر میں تشدد، رشتہ داری اور اخلاقیات کا وہ تعارف کروایا گیا ہے جو اس پوری فلم میں نظر آتا ہے۔ لیکن اس سے غیرمعمولی ایک اور چیز ہے۔
کسی بالکل ہی دوسرے سب کلچر کے یہ مناظر آپ کے اور میرے لئے سمجھنا کس قدر آسان ہے۔ ہم کتنی آسانی سے سمجھ لیتے ہیں کہ بوناسیرا ان لڑکوں کو کیوں قتل کروانا چاہتا ہے۔ کارلیونی کیوں اس سے انکار کرتا ہے۔ اور جب بوناسیرا اچانک اس کی قیمت پوچھتا ہے تو ہمیں بھی سمجھ آ جاتی ہے کہ بغیر رشتہ استوار کئے یہ کس قدر بھونڈی کوشش ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ بوناسیرا یہ رشتہ بنانے سے کیوں ججھک رہا ہے۔ ہمیں یہ بھی سمجھ آ جاتی ہے کہ مافیا کے ڈان سے یہ “تحفہ” مفت نہیں۔ اس کے ساتھ ڈوری ہی نہیں، پوری زنجیر بندھی ہے۔
ہم یہ سب کچھ اس لئے اس قدر آسانی سے اور بغیر محنت کے پہچان جاتے ہیں کہ “ادلے کا بدلہ” ہماری بہت ہی گہری جبلت ہے۔ یہ سوشل زندگی کی بنیادی کرنسی ہے۔ بوناسیرا نے اس کو اپنا انتقام خریدنے کے لئے استعمال کیا ہے۔ کارلیونی نے اس کو اپنے گینگ کو بڑھانے کے لئے۔
یہ ہماری وہ جبلت ہے، جس کو سمجھے بغیر معاشرت کو سمجھنا ویسا ہے جیسے کرنسی کا تصور سمجھے بغییر معیشت کو۔
اس کرنسی سے محبتیں بھی خریدی جاتی ہیں، دوستیاں بھی، عداوتیں اور دشمنیاں بھی۔ اس کا دانشمندانہ استعمال بہت ضروری ہے۔