رضیہ سجاد ظہیر کے افسانے
ترقی پسند تحریک کے بانی سجاد ظہیر کی اہلیہ رضیہ سجاد ظہیر تحریک کی ایک ممتاز اور متحرک خاتون تھیں۔نظریاتی جدوجہد کے ساتھ انہوں نے تخلیقی سطح پر بھی اچھا کام کیا۔ان کی زندگی میں ان کی یہ کتابیں شائع ہوئی تھیں۔ ’’سرِشام‘‘(ناولٹ۔۱۹۵۳ء)،’’کانٹے‘‘(ناول۔۱۹۵۴ء)،’’سمن‘‘ (ناول۔۱۹۶۳ء)،اسی دوران ۱۹۵۴ء میں انہوں نے جیل سے سجاد ظہیر کے اپنے نام لکھے ہوئے خطوط کا مجموعہ ’’نقوش زنداں‘‘ (سجاد ظہیر کے خطوط رضیہ سجاد ظہیر کے نام) مرتب کیا۔بچوں کے لیے دو کتابیں بھی لکھیں۔کچھ اور متفرق ادبی کام بھی کیا۔۱۸ دسمبر ۱۹۷۹ء کو دہلی میں ان کی وفات ہوئی۔ان کی وفات کے بعد ان کی صاحبزادی نور ظہیر نے ان کے افسانے جمع کیے اور انہیں افسانوں کے دو مجموعوں کی صورت میں شائع کیا گیا۔پہلا مجموعہ ’’زرد گلاب‘‘کے نام سے جبکہ دوسرا مجموعہ’’اللہ دے اور بندہ لے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔اس وقت میرے سامنے ان کے دوسرے مجموعے’’اللہ دے اور بندہ لے‘‘ کی فائل موجود ہے۔یہ پہلی بار ۱۹۸۴ء میں شائع ہوا تھا۔ اب اس کا نیا ایڈیشن شائع ہونے کی امید ہے۔ان افسانوں کو پڑھتے ہوئے مجھے اس بات پر حیرانی ہوتی رہی کہ ترقی پسند تحریک کی ایک اچھی افسانہ نگار کو یکسر نظر انداز کیوں کردیا گیا۔
نور ظہیر نے اس مجموعہ کے پہلے ایڈیشن میں ’’تختی‘‘ کے عنوان سے اچھا پیش لفظ لکھا ہے۔اس کے ذریعے رضیہ سجاد ظہیر کی زندگی کے بعض دلچسپ پہلو سامنے آتے ہیں۔ایک مقام پر تو مجھے ایسے لگا کہ رضیہ سجاد ظہیر ایک عرصہ پہلے وہ باتیں کر چکی ہیں جو میں اب بار بار کہتا رہتا ہوں۔ایسی ایک اہم بات نور ظہیر کے الفاظ میں دیکھتے ہیں۔
’’امّی اور ابا میں صبح اُٹھنے کے علاوہ ایک اور بات پر ہمیشہ اختلاف ہوتاتھا۔ امّی کبھی بھی کسی خراب شاعر کے کلام کی تعریف نہیں کرتی تھیں چاہے وہ سامنے بیٹھ کر ہی اپنی غزل یا نظم کیوںنہ سنا رہا ہو۔اگر شاعری ناقابلِ برداشت ہو جاتی تو وہ باروچی خانے میں کچھ کرنے چلی جاتیں۔
ابّا اکثر اُن سے کہتے ’’بھئی نوجوان ہے۔ منجھتے منجھتے اچھا شاعر بن جائے گا۔‘‘
’’تب اس کی شاعری کی تعریف بھی کردیں گے۔ اِن کے خراب کلام کی اب تعریف کر کے کیوں انھیں غلط یقین دلایا جائے کہ وہ ابھی ہی سے بہت اچھے شاعر ہیں۔‘‘ اپنی بات پر امّی اڑی رہتیں۔‘‘
مجھے خوشی ہوئی ہے کہ جعلی شاعروں اور متشاعروں کے معاملے میں رضیہ سجاد ظہیرکا رویہ وہی تھا جو میں نے اس وقت اختیار کر رکھا ہے۔
اب میں رضیہ سجاد ظہیر کے افسانوں کے دوسرے مجموعہ’’اللہ دے اور بندہ لے‘‘کے افسانوں کا مختصر سا تعارف پیش کردیتا ہوں۔
’’بادشاہ‘‘ایک نہایت غریب ہنر مند کی دلچسپ کہانی ہے لیکن ایسا غریب جو اپنی غربت میں بھی اپنی قناعت کے باعث شاہانہ طور سے جی رہا ہے۔ہکلا کر بولنے والا بابولال گھریلو استعمال کی بیشتر چیزوں کی مرمت کا کام جانتا ہے۔کرسیاں بننے کے کام سے لے کر الیکٹریشن اورپانی کا نل ٹھیک کرنے تک کا ہر کام اسے آتا ہے۔بازار میں فرش پر کپڑا بچھا کر سیکنڈ،تھرڈ ہینڈ قسم کا ملا جلا کاٹھ کباڑ سجا کر سستے داموں فروخت کرتا ہے۔اور اسے اپنی دوکان کہتا ہے اور بھرے بازار کے شور میں اسی دوکان پر اتنے مزے سے سوتا ہے کہ کہ ایسی پر سکون زندگی بادشاہوں کوبھی کہاں نصیب ہو گی۔رضیہ سجاد ظہیر نے اس کہانی کو اپنے گھریلو کام کاج کے ساتھ ملا کر عمدگی سے بُنا ہے۔
’’شاملی‘‘نیچ ذات سے تعلق رکھنے والی ایک محنت کش عورت ہے۔ پہلے شوہر کو اس لیے چھوڑ آئی کہ وہ کما کر کھلانے کا رعب جماتا تھا۔شاملی کا موقف تھا کہ میں خود محنت کر کے دس افراد کو کھانا کھلا سکتی ہوں تو اس وجہ سے کسی کی ناجائز دھونس کیوں سہوں۔ایک امیر گھر میں ملازمہ کا کام کرتی ہوئی شاملی اب رام اوتار میں دلچسپی لے رہی تھی۔رام اوتار کے خاندان والے ایک نیچ ذات عورت میں اس کی دلچسپی سے نالاں تھے۔بات بڑھ رہی تھی۔ارد گرد کے دوسرے ملازمین اور رام اوتار کے خاندان کے افراد کی شکایت کے نتیجہ میں رام اوتار کی نوکری کو خطرہ لا حق ہو گیا۔سلطانہ جو اس کہانی کو بیان کر رہی ہے،وہ رام اوتار کی نوکری بچانے کے لیے اس کے صاحب سے ملنے کے لیے نکلتی ہے ۔باہر آٹے ہی پتہ چلتا ہے کہ شاملی رام اوتار کو بھی چھوڑ کر چلی گئی ہے۔کہاں گئی ہے؟کچھ معلوم نہیں۔۔۔۔کئی دنوں کے بعد سلطانہ کو رکشہ میں بیٹھے ہوئے شاملی دکھائی دیتی ہے۔وہ امرود کی چھابڑی اٹھائے جا رہی تھی۔سلطانہ اس سے ملتی ہے اور یوں فرار ہو جانے کی وجہ پوچھتی ہے تو وہ بتاتی ہے کہ رام اوتار بار بار کہنے لگ گیا تھا کہ میری نوکری چھوٹ جائے گی تو ہم کہاں سے کھائیں گے۔شاملی پھر وہی بات کہتی ہے کہ میں نے رام اوتار کو اس لیے پسند نہیں کیا تھا کہ وہ نوکری کرتا ہے۔اور کھانے پینے کا کیا ہے،میں خود دس افراد کو اپنی محنت سے کھانا کھلا سکتی ہوں۔
’’نگوڑی چلی آوے ہے‘‘ جِلو خالہ کی زندگی کی ایسی ہلکی سے جھلک دکھاتی ہے جس میں جِلو خالہ کی زندگی کا پورا عکس اتر آتا ہے۔ایک دکھی اور طلاق یافتہ خاتون جو دکھوں کا رونا رونے کی بجائے سب ملنے جلنے والوں کے ساتھ ہنسی مذاق کرتی رہتی ہے۔بات بے بات ہنستے چلے جانا اور دوسروں کو ہنساتے چلے جانا۔طلاق کا سبب بھی یہی ہنسی بنی تھی۔
شوہر نے باہر جانے کے لیے کرتا مانگا۔جلو خالہ نے کرتا لا کے دیا۔بدقسمتی سے کرتے میں ایک آدھ بھڑ گھسی ہوئی تھی۔سو کرتا پہنتے ہی خالو نے اچھل کود شروع کر دی اور جلو خالہ نے عادت کے مطابق ہنسنا شروع کر دیا۔خالو نے وہیں کھڑے کھڑے طلاق دے دی۔لیکن جلو خالہ کی باقی کی ساری زندگی پھر بھی اسی طرح ہنستے ہنستے اور دوسروں کو ہنساتے ہی گزر گئی۔یہ افسانے سے زیادہ زندگی کے ایک حقیقی کردار کا خاکہ سا معلوم ہوتا ہے۔
’’معجزہ‘‘ رسے پر چلنے والے سرکس کے فنکار جیسے مجو شاہ کے کردارسے شروع ہونے والی کہانی ہے۔سات گھڑوں سے اکیس گھڑوں تک اپنے سر پر اٹھا کر رسے پر چلنے والا مجو شاہ ایک بار ناکام ہوتا ہے اور ساتھ ہی ایک ٹانگ اور ایک بازو سے معذور بھی ہو جاتا ہے۔یہاں تک تو مجو شاہ کی ذاتی زندگی کی کہانی ہے لیکن اس سے آگے یوپی کے ایک گاؤں میں شیعہ مسلک کے لوگوں کے سامنے ایک مسئلہ کھڑا ہوتا ہے۔ہر سال محرم کے ایام میں جب بڑا علم نکلتا تورستے میں بجلی کے تاروں کو کاٹ دیا جاتا تھا اور جب علم گزرجاتا تو بعد میں تار پھر سے جوڑ دئیے جاتے۔اس بار علاقے کا جو نیا افسر آیا اس نے حکم دیا کہ اس بار تار نہیں کاٹے جائیں گے۔یا علم چھوٹا کر لیا جائے یااسے تاروں والی جگہ سے جھکا کر لے جایا جائے۔بستی کے لوگ اسے نہیں مانتے۔یہ تنازعہ دس محرم سے بھی آگے تک چلا جاتا ہے۔اس کہانی میں رضیہ سجاد ظہیر نے بستی کے شیعہ کلچر کو جس باریک بینی سے بیان کیا ہے وہ انہیں کا کمال ہے۔علم کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے مجو شاہ کا فن کام آتا ہے۔معجزہ ہو جاتا ہے لیکن مجو شاہ زندگی کی بازی ہار جاتا ہے۔میرے نزدیک اس کہانی میں لکھنئو کے مضافات کی غریب بستیوں کی ایمان افروزداستان اور ان کی مقامی زبان بہت نمایاں ہیں۔ویسے مجھے اب خیال آرہا ہے کہ جب ایران میں اسرائیل کے پرچم پیروں تلے روندنے کا سلسلہ چل نکلا تھا تو ایک یہودی نے ایران کو اسرائیلی پرچم تیار کرکے دینے کا ٹھیکہ لے لیا تھا۔اس کاروبار میں اس نے بے تحاشہ کمایا اور بیشتر کمائی اسرائیلی مقاصد کے حصول پر صرف کر دی۔
’’رئیس بھائی‘‘مختصر سی مگر دلچسپ کہانی ہے۔اتنی دلچسپ کہ اسے مزاحیہ تمثیل بھی کہہ سکتے ہیں۔بچپن لڑکپن کی معصومیت سے بھری ہوئی ایک ہلکی پھلکی سی مگر دلچسپ کہانی ہے۔
’’سورج مل‘‘ بھی سیدھے سادہ مگر دلچسپ پیرائے میں کالج کے ایک نہایت قابلِ اعتماد چپراسی سورج مل کا خاکہ سا ہے۔خاکہ نگار کی طرف سے اسے سورج ماما کہنا خود ایک دلچسپ بات ہے۔ہمارے معاشرے میں چندا ماما کہنا عام سی بات ہے۔بے شک سورج مل کو اس کے نام کی نسبت سے سورج ماما کہا گیا لیکن چندا ماما کی روایت والے ہم لوگوں کے لیے سورج ماما کا نام ہی ہونٹوں پر مسکراہٹ لے آتا ہے۔
’’دل کی آواز ‘‘شبانہ نامی ایک ادیبہ کے ایک مداح شرماکی کہانی ہے۔شرما بہرہ ہے مگر شبانہ کو سننا چاہتا ہے۔بالآخر یہ ملاقات ہوتی ہے۔شرما کا بہرہ پن قائم ہے لیکن شبانہ جب جب بولتی ہے،اسے سنائی دیتا ہے۔
’’اللہ دے بندہ لے‘‘سرسی گاؤں سے مرادآباد شہر تک پہنچنے والے فخرو کی دلچسپ داستان ہے۔ایک بیرسٹر صاحب کا ملازم ہوجاتا ہے۔اس کا باقی سب کام کاج ٹھیک تھے بس وہ مسجدمیں جا کر با جماعت نمازادا کرنے سے ہمیشہ گریز کرتا تھا۔ غربت کی وجہ سے جوتا نہیں خرید سکتا تھا۔آخر بیرسٹر صاحب کے ایک موکل اپنا کیس جیتنے پر اتنا خوش ہوئے کہ انہوں نے فخرو کو انعام دینا چاہا۔فخرو نے جھٹ بوٹ کی فرمائش کردی جو اسے مل گئے۔زندگی کی ایک کمی پوری ہو گئی۔تب ایک بار بیرسٹر صاحب فخرو کو زبردستی مسجد میں لے جاتے ہیں اور وہیں اس کے نئے بوٹ کوئی نمازی چرا کر لے جاتا ہے۔
’’اب پہچانو‘‘ ایک بھکارن کی کہانی ہے جو انتہائی گندی،بد صورت،بدکردار،لالچی اور دیگر ہر طرح کے عیبوں سے بھری ہوئی تھی۔کہانی کار اسے دیکھ کر ہمیشہ گھبرا جاتی کیونکہ وہ بھیک لینے کے لیے دعائیں دیتی ہوئے پیچھے پڑ جاتی تھی اور اگر بھیک نہ ملتی تو پھر ہر طرح کی بد دعائیں دینا شروع کر دیتی۔یہاں تک تو ایک غلیظ بھکارن کا کردار تھا جس سے انسانیت پر یقین رکھنے والی کہانی کار نفرت کرتی تھی۔لیکن پر اس بھکارن کا انوکھا روپ سامنے آتا ہے۔ریڈیو سے جنگ شروع ہونے کی خبر نشر ہوئی تو ہر جگہ فنڈ جمع کرنے کے لیے جلسے شروع ہو گئے۔ایسے ہی ایک جلسے میں یہ بھکارن جاتی ہے اور چپ چاپ اپنی بھیک بھری گٹھڑی وہاں دے کر آجاتی ہے۔
’’تلی تال سے چینا مال تک‘‘ایک غریب محنت کش کی کہانی ہے جو کسی اور علاقے سے کشمیر میں صرف سیزن کے ایام میں ڈانڈی اٹھانے کی مزدوری کرنے آتا ہے۔ افسانے کی بی بی جی اس مزدور سے صرف اپنا سامان اٹھواتی ہے۔پہاڑ کی چڑھائی کے دوران باتیں بھی ہوتی جاتی ہیں۔مزدور اپنی زندگی کی داستان جاتا ہے۔یوں ہندوستان کے غریب ترین لوگوں کی زندگی کی ایک جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔
’’بڑا سوداگر کون‘‘ایک بوڑھے میاں بیوی کی کہانی ہے۔بیوی معذوری کا شکار ہے۔شوہر اس کی جی بھر کے خدمت کرتا ہے۔کہانی کار عورت سے اکیلے میں اس کے شوہر کی محبت اور خدمت کا ذکر کرتی ہے تو وہ اپنی عمر بھر کی شکایتوں کا پنڈورا بکس کھول دیتی ہے اور پھر کہتی ہے کہ اب اس کے شوہر کے پاس اس کی خدمت کرنے کے سوا کوئی اور آپشن نہیں ہے۔پھر کہانی کار جب اس عورت کے شوہر سے بات کرتی ہے تووہ یہ بتاتا ہے کہ آج اس کی خدمت کرکے اسے ٹھیک کر لوں گا تو آگے چل کر مجھے بھی سہارا دے سکے گی۔گویا دونوں ایک دوسرے سے محبت نہیں کرتے بلکہ اپنے اپنے فائدے کی بات سوچ کر نبھا کر رہے ہیں جسے دنیا والے گہری محبت سمجھ رہے ہیں۔
’’انتظار ختم ہوا،انتظار باقی ہے‘‘ سجاد ظہیر کی وفات پر رضیہ سجاد ظہیر نے اپنے جذبات کا مناسب طور پر اظہار کیا ہے۔ترقی پسند تحریک کے بانی کی وفات پر ان کی اہلیہ کی طرف سے ایسے خیالات اور جذبات کا اظہار کرنا تحریک کے بہی خواہوں کے لیے تقویت کا موجب بنا ہو گا۔ایک اہم بات رضیہ سجاد نے یہ بیان کی ہے کہ انہیں یہ افسوس تھا کہ تحریک ،سماج اور بین الاقوامی امور پر زیادہ توجہ دینے کے باعث ان سے ادبی و تخلیقی کام زیادہ نہیں ہو سکا۔اس پر رضیہ قارئین کو یاد دلاتی ہیں کہ سجاد ظہیر کا بیشتر ادبی و تخلیقی کام قید میں ہی لکھا گیا۔اور پھر کہتی ہیں کہ:
’’میری بات کے ثبوت میں ’’روشنائی‘‘ اور’’ذکر حافظ‘‘ ہیں ۔ جو دونوں ہی کتابیں ، پاکستان کے مختلف قید خانوں میں لکھی گئیں۔ جب کہ زبردستی پایہ زنجیر ہو کر بیٹھنا پڑا۔ میں کبھی کبھی ان سے کہتی تھی کہ ’’اندرابی بی سے کہوں گی تمہیں دو چار سال کے لیے قید کر وادیں تو ادب کے لیے نہایت مفید ہوگا ۔ کچھ نہیں تو دوکتابیں تو ہو ہی جائیں گی۔‘‘ وہ مسکرا دیتے تھے۔‘‘
’’اندھیرا‘‘ایک خوفزدہ مسلمان عورت کی سنسنی خیز کہانی ہے۔دہلی سے امرتسر کے رات بھر کے سفر کے دوران ٹرین کے فرسٹ کلاس میں اکیلی سواری تھیں۔ایک دو سکھ حضرات پر انہیں گمان ہوا کہ ایک مسلمان خاتون کو اکیلے سفر کرتے دیکھ کر یہ کبھی بھی مجھے قتل کر سکتے ہیں۔انہیں وسوسوں اور اندیشوں میں گھرے ہوئے ان کا سفر ہو رہا ہوتا ہے۔
اس روداد کو بیان کرتے ہوئے رضیہ سجاد ظہیر نے سسپنس کو پوری طرح برقرار رکھا ہے۔آخر امرتسر سے پہلے لدھیانہ ریلوے اسٹیشن پر انہیں اتار لیا جاتا ہے۔بھید یہ کھلتا ہے کہ وہ خاتون اردو کی افسانہ نگار تھیں اور تعاقب کرنے والے سکھ حضرات در اصل ان کے قاری اور مداح تھے۔لدھیانہ میں ان کا ادبی سواگت کیا جاتا ہے اور طے ہوتا ہے کہ ان سے کہانیاں سن کر خود انہیں بذریعہ موٹر کار امرتسر پہنچا دیا جائے گا۔
’’چنے کا ساگ‘‘ بابو رام ناتھ دیہات سے لکھنئو آئے تھے۔اپنے دیہاتی حوالے کو دوسرے سے چھپانے کی کوشش کرتے رہتے۔گاؤں میں چنے کے ساگ کی لذت کو ابھی تک بھولے نہیں تھے لیکن لوگوں کے سامنے بے اعتنائی ظاہر کرتے کہ کہیں اس سے میرا دیہاتی پن عیاں نہ ہو جائے۔ان کا ایک نیا افسر آتا ہے وہ بھی دیہاتی پس منظر کا حامل ہوتا ہے اور تمام تر ترقی کے باوجود اپنے دیہاتی ہونے پر ناز کرتا ہے۔اس افسر کی طرف سے دی گئی دعوت میں بابو رام ناتھ کو وہ افسر خود پکڑ کر چنے کے ساگ کی ڈش کی طرف لے جاتا ہے۔یہ ایسے لوگوں کی نفسیات کی دلچسپ کہانی ہے جو اپنی حقیقت کو چھپانے کے لیے مصنوعی ذرائع اختیار کرتے ہیں۔
’’راکھی والے پنڈت جی‘‘ہندو مسلم مشترکہ تہذیب کی جھلک دکھاتی ہوئی کہانی ہے۔راکھی والے پنڈت جی کا کرداردلچسپ ہے۔کہانی میں جنم اشٹمی کا حال بیان کرنے سے پہلے دادا جی کے ذریعے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا قصہ سنایا جاتا ہے پھر کنہیا جی کی پیدائش کی داستان بیان ہوتی ہے یوں بالواسطہ طور پر دو مختلف مذاہب کی تاریخ کی ملتی جلتی کہانیاں سامنے آتی ہیں۔مشترکہ ہندو مسلم تہذیب کے باوجود یہ تلخ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود رہتی ہے۔
’’پھر ہم لوگوں کی ہندو پھوپیاں ایک مقررہ وقت پر اپنے اپنے بچوں کی پلٹنیں لے لے کے آپہنچتیں، بڑا مزہ آتا ، لطف کی بات یہ تھی کہ اتنی محبت کے باوجود وہ ہم لوگوں کے ہاتھ کا چھوا کوئی گیلا کھانا یا ہمارے یہاں کی پکی کوئی چیز نہیں کھاتی تھیں، لہٰذا ان کے اس وقت کھانے کے لئے ڈھیروں پھل منگوائے جاتے تھے، جاتے وقت وہ ہم سب سے گلے مِل مِل کر خوب روتیں، ہم لوگ بھی روتے۔‘‘
’’لاوارث‘‘مس گنگولی کی زندگی کی کہانی ان کی ایک سٹوڈنٹ کی زبانی ہے۔نہایت خاموش طبع پروفیسر مس گنگولی شادی کرکے بمبئی چلی جاتی ہیں۔وہاں ان کے شوہر کی وفات ہو جاتی ہے۔ایک بیٹا پیدا ہوتا ہے جو بڑا ہو کر ماں کا خیال نہیں رکھتا۔ مس گنگولی جو بعد میں مسز سریواستو ہو جاتی ہیں،اپنی وفات سے پہلے وصیت نامہ لکھوا لیتی ہیں۔ان کی وفات کے بعد وصیت نامہ دیکھا جاتا ہے تو انہوں نے خود کو لاوارث مانتے ہوئے اپنی ساری دولت لاوارث ہاؤس کے نام لکھ دی ہوتی ہے۔اس میں ایک طرح سے نالائق بیٹے کا قصہ ہے کہ جو ماں کا وارث ہوتے ہوئے اسے لاوارث کردیتا ہے۔
’’کچھ سہی‘‘کہانی کار کا اپنی یادوں کی دنیا کا سفر ہے۔۔۔۔ایسا سفر جس میں سب کچھ وقت کے سیلاب کی زد میں آنے کے بعد ہل سا گیا ہے۔اپنے محسوسات کی کچھ جذباتی سی روداد ہے۔
’’دوشالہ‘‘ تاریخ کا ایک ورق ہے۔بیگم حضرت محل کا دوشالہ۔فرنگی سپاہیوں نے ان پر حملہ کیا لیکن بیگم حضرت محل اپنی کنیزوں کے ساتھ بچ نکلیں۔پھر ایک مقام آیا جب گرفتاری کا خدشہ بڑھ گیاتو ایک کنیز نے وہ دو شالہ اوڑھ کرفرنگیوں کو الجھا دیا۔وہ کنیز کو بیگم حضرت محل سمجھ کر گرفتار کر کے لے گئے۔اس کنیز کو پھانسی دے دی گئی۔اس کی وصیت کے مطابق پھانسی کے لیے جاتے وقت وہ دوشالہ اس کے کندھوں پر تھا۔پھر بعد میں کسی طرح یہ دوشالہ نواب صاحب کے دادا حضور کے حصے میں آیا۔دادا حضور نے نواب صاحب کی شادی کے موقعہ پر وہ دوشالہ بہو کو دیا۔یہ بہو اسی کنیز کی نواسی تھی۔بہو نے نواب صاحب کو شادی کی پہلی رات یہ کہا:
’’دیکھئے نواب صاحب، آپ کو میرے سر کی قسم ، وفا کے اس نشان کو کبھی اپنے سے جدا نہ کیجئے گا، اس کی حفاظت کیجئے گا، اس کی حفاظت کیجئے گا، اسے کبھی کسی غیر ملکی کے ہاتھ میں نہ پڑنے دیجئے گا……یہ بیگم حضرت محل کے وطن لکھنؤ سے کبھی الگ نہ ہو۔‘‘
اس کے بعد یہ ہوا کہ پاکستان کے قیام کے وقت نواب صاحب کی ساری اولاد پاکستان ہجرت کر گئی۔نواب صاحب نے ساری دولت اولاد کو دے کر رخصت کیا صرف دو شالہ اپنے پاس رکھا۔اور اب جب ان کی وفات ہوئی تو ان کی وصیت پڑھی گئی کہ ان کا دوشالہ ان کے ساتھ دفن کیا جائے۔
’’وہ شعلے‘‘ گھریلو ملازمہ سنگاری کی بیٹی داکھو کی کہانی ہے۔ایک غریب کی ذہین بیٹی۔۔۔جسے حالات آگے بڑھنے نہیں دیتے۔بے سروسامانی کی حالت میں بھی جہاں بہت سارا کام کاج سیکھ لیا وہیں پڑھنا بھی سیکھ لیا۔شادی ہو گئی۔لیکن غربت زدہ اور پسماندہ ماحول میں لڑکی کا پڑھنا لکھنابدکاری قرار پایا۔ایک دن شوہر کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی اور اسی رات ان کے گھر میں آگ لگ گئی۔وہاں سے داکھو کی جلی ہوئی لاش ملی۔
’’سچ صرف سچ،اور سچ کے سوا کچھ نہیں‘‘ایک سادہ لوح اورسچے کسان ممدو کی کہانی ہے جس نے کچھ گھر کی تلخی کے باعث اور کچھ احسان اللہ کے خچر سے زچ ہو کر اسے مار دیا تھا۔بیرسٹر اسے سچ کہنے سے روکتا ہے لیکن وہ اپنی سادگی کے باعث عدالت میں بھی سچی بات کہہ دیتا ہے۔ایک سادہ لوح دیہاتی ممدو بات سے بات کیسے نکالتا ہے۔۔۔۔اس کا اندازِ بیاں کہانی میں مزاح کا رنگ بھی بکھیر دیتا ہے۔
یہ رضیہ سجاد ظہیر کے افسانوں کے دوسرے مجموعہ’’اللہ دے بندہ لے‘‘کی کہانیوں کا مختصر سا تعارف ہے۔ان میں بعض کہانیاں حقیقی زندگی کا حقیقی اظہار ہیں تو بعض کہانیاں غربت کی ماری زندگی کے تلخ حقائق سے عبارت ہیں۔ترقی پسند تحریک کی مثالی دنیا کی جھلک بھی بار بار سامنے آتی ہے۔ان کہانیوں میں ہندوستانی معاشرے کے حساب سے ہندو مسلم یکجہتی کا تصور بھی ملتا ہے اور بعض تحفظات کا اظہار بھی کر دیا گیا ہے۔ہندو کردار ہوں یا مسلمان،سب کے منفی اور مثبت رخ کسی رعائت کے بغیر سامنے لائے گئے ہیں،
توقع کرتا ہوں کہ اور اب جو ان کے افسانوں کے مجموعے دوبارہ چھپنے لگے ہیں تو بحیثیت افسانہ نگار ان کی ادبی قدرو قیمت کا تعین بھی کیا جائے گا۔
رضیہ سجاد ظہیر کا فکشن کا مجموعی کام ترقی پسند تحریک کے تناظر میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔امید کرتا ہوں کہ اب ان کی اہمیت کا احساس کیا جائے گا، رضیہ سجاد ظہیر کے افسانوں کے ساتھ ساتھ فکشن پر ان کے مجموعی کام کو بھی توجہ سے دیکھا جائے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔