ڈاکٹر رضیہ اسماعیل شاعری کی مختلف اصناف (غزل،نظم،ماہیا،دوہے،وغیرہ)میں اپنے تخلیقی جوہر دکھانے کے ساتھ نثرنگاری میں بھی مسلسل پیش قدمی کر رہی ہیں۔تنقیدی و تعارفی مضامین اورطنزومزاح پر مشتمل تحریریں وہ ایک عرصہ سے لکھ رہی ہیں۔ان کے بعض شاندار خاکے بھی پڑھنے کا موقعہ ملا ہے،پھر ان کی علمی بحث کے ساتھ شائع ہونے والا کہانیوں کا مجموعہ’’کہانی بول پڑتی ہے‘‘۔یہ ساری شعری و نثری نگارشات میں دلچسپی کے ساتھ پڑھتا آرہا ہوں۔ اب ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کے گیارہ افسانوں کا مجموعہ’’آدھی چادر شائع ہونے جا رہا ہے۔اس کی ان پیج فائل میرے سامنے ہے۔میں اس مجموعہ کے سارے افسانے پڑھ چکا ہوں اور اب ان کے بارے اپنی رائے دے سکتاہوں۔پہلے میں ترتیب وار ہر افسانے کا ممکنہ اختصار کے ساتھ ذکر کروں گا اور آخرمیں سارے افسانوں پر اپنی مجموعی رائے بیان کردوں گا۔
’’روشنی کا تعاقب‘‘صوفیانہ خیالات سے لبریزانسان کی خارجی خباثتوں اور داخلی خوبصورتیوں کی دلچسپ کہانی ہے۔ فرانزکافکاکی کہانی کی طرح رضیہ اسماعیل مٹھی بھر زندگی کو قریب سے دیکھنے کے عمل سے ایسے گزرتی ہیں کہ خود دیکھنے کے ساتھ اپنے قارئین کو بھی مٹھی بھر زندگی قریب سے دکھاتی چلی جاتی ہیں۔ایسی زندگی جہاں بہت سارے کہے اور ان کہے سوال ہیں اورسوالوں کے اندر ہی کہیں ان کے جوابوں کی روشنی بھی ہے۔
’’کمرے کی کھڑکی ہر روز کھلتی اور بند ہوتی رہی۔مٹھی بھر زندگی کو قریب سے دیکھنے کی کوشش میں ہر بار نئی رام کہانی ، نئی بپتا ، نیا منظر نامہ ، نئے کردار ، نئے سوال ، نئے جواب سامنے آ جاتے۔ گویا سوچوں کی اَن گنت کھڑکیاں کھل کر کبھی دل ، کبھی ذہن تو کبھی روح پر دستک دینے لگتیں۔‘‘(روشنی کا تعاقب)
’’ہرنام داس‘‘ تقسیم ہند کے وقت ہونے والے فسادات کے المیہ کو بیان کرتی ہے تاہم اس میں کہانی کارنے اپنے بچپن کی عمر کی سوچ کو جس طرح اظہار کی زبان دی ہے وہ بے حد متاثر کن ہے۔ایسے ایسے معصومانہ سوال جن کے عقب میں زندگی کی مکاریوں کے کتنے راز چھپے ہوئے ہیں۔
’’بس چُپ رہو اور اپنی عمرسے بڑے سوال مت کیا کرو!‘‘ (ہرنام داس)
ہرنام داس کے نام کے سحر میں کھوئی معصوم بچی پر جب اپنے والدین کے دکھوں کاراز کھلتاہے توتقسیم کے انسانی المیہ کی دوطرفہ المناکی مزید دکھی کرنے لگتی ہے ۔
’’یہ بات سنتے ہی ہرنام داس کا اداس سا ہیولا دھیرے دھیرے وقت اور تاریخ کے دھندلکوں میں کہیں گم ہو گیا۔‘‘(ہرنام داس)
’’سوری‘‘ ویسے تو انگلینڈ میں زندگی گزارنے والوں کی ہلکی پھلکی سی روداد ہے لیکن اس کے پس منظر سے عراق پر امریکی و برطانوی حملہ کاالمیہ ابھرتاہے۔کہانی کے مرکزی کرداروں سلمان اور سوسن کو اپنا کالج کے زمانے کا جیک یاد آتا ہے ۔بڑی عالمانہ اور فلسفیانہ گفتگو کرنے والا جیک فوج میں چلا گیا تھااوراسے عراق جنگ میں جانا پڑگیا تھا۔وہاں سے واپسی کے بعد وہ نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو کر پاگل ہو چکا تھا۔ایک پرانے دوست کا طویل عرصہ کے بعد سامنے آنا اور وہ بھی دیوانگی کی حالت میں۔لیکن کہانی کے مرکزی کردارکواحساس ہوتا ہے کہ عراق پر ہونے والے بے جا حملے میں شریک ہوکرجیک کا دیوانہ پن درحقیقت اس کا احساسِ گناہ ہے اور اس احساس کے حوالے سے وہ کہانی کے آخر میں کہتا ہے۔
’’میں سوچ رہا تھا کہ کچھ گناہوں کی معافی شاید کبھی بھی نہیں ملتی، چاہے انسان زندگی بھر لفظ ’’سوری‘‘ کی تسبیح کرتا رہے۔‘‘(سوری)
’’چھنال‘‘پہلے دیپک کی ماں ساوتری کی زندگی کی اورپھردیپک اورجیوتی کی زندگی کی ایسی کہانی ہے جس میں گھریلو زندگی اور ہندوستانی دیہاتوں کا پراناسماج مثالی مشرقی ماحول کی تصویرپیش کررہا ہے۔
’’مکئی کا دانہ‘‘پاکستانی دیہاتوں کے عمومی ماحول کی ترجمانی کرتا ہے۔گاؤں کا نمبرداراپنی جاگیر کے زعم میں گاؤں میں محض اس لیے ہسپتال بننے نہیں دیتا کہ گاؤں کے کمی کا بیٹا ڈاکٹر بن گیا تھا۔اولادِ نرینہ سے محروم جاگیردار کے ہاں ایک مدت کے بعد بیٹا پیدا ہوتا ہے،لیکن شومیٔ قسمت بڑی بہن اسے چپ کرانے کی کوشش میں اس کے منہ میں مکئی کا دانہ ڈال دیتی ہے جوبچے کے گلے میں اٹک جاتا ہے۔گاؤں کے کمپوڈرسے بچہ ٹھیک نہیں ہوتا۔آخر شہر سے اسی کمی کے بیٹے ڈاکٹر عباس کو بلایا جاتا ہے۔وہ بچے کو اُلٹا کرکے کمر پر ہاتھ مارتا ہے تو مکئی کا دانہ باہر آجاتا ہے۔لیکن بچہ تو کبھی کا مر چکا تھا۔گاؤں کے نمبردارکا وارث دم توڑ چکا تھا اور نمبردار کی رعونت خاک میں مل چکی تھی۔
لُک چھپ جانا
مکئی دا دانہ
راجے دی بیٹی
آئی جے……لُک چھپ جانا……
کے الفاظ سے شروع ہونے والی کہانی کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے۔
’’نمبردار کی بیٹی چندا سر پیٹتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔ آج ایک مکئی کے دانے نے راجے کی بیٹی کو لکھ سے ککھ کر دیا تھا۔
ننھا ملک سلطان بوہڑ کی کٹی ہوئی شاخ کی طرح نمبردار کے بازوؤں میں جھول رہا تھا۔
آ ج نمبردار ملک عزیز کی دسترس میں نہ حیات رہی……نہ زمانہ رہا……اور نہ ہی کائنات۔ایک حقیر سے مکئی کے دانے نے اسے بے نام و نشان کر دیا تھا۔‘‘
(مکئی کا دانہ)
’’دیوارگریہ‘‘ ایک خوبصورت لڑکی کی دکھ بھری داستان۔خواتین کے جذبات کی عمومی کہانی۔تاہم اس میں عمومیت کے باوجودکچھ خاص محسوس ہوتا ہے۔
’’میں سوچ رہی تھی کہ ’’عورتیں ویسے تو اترن پہننے میں بہت ہتک محسوس کرتی ہیں مگر دوسری عورتوں کے شوہر چرا کر اوڑھتے وقت انہیں کوئی شرم، کوئی ہتک، کوئی بے عزتی محسوس کیوں نہیں ہوتی؟‘‘
جس خوف کی تلوار ہمیشہ سر پر لٹکتی رہتی تھی آخر وہی ہوا۔ بنانے والے نے میرا رنگ روپ سنوارنے میں اتنا وقت صرف کر دیا کہ وہ میری تقدیر لکھنا ہی بھول گیا۔‘‘
(دیوارگریہ)
’’چیچہ وطنی‘‘پرانے دیہاتی ماحول کی دلچسپ کہانی ہے۔بس ایک رودادسی تھی جسے رضیہ اسماعیل کے اندازِ بیان نے انہماک سے پڑھی جانے والی کہانی بنا دیاہے۔
دو بیویوں کے شوہر محمد خان کی دوسری بیوی بن جانے والی فاطمہ جٹی سے پہلی ملاقات کا منظر دیکھئے۔
’’اپنی زمینوں پر یوں ایک اجنبی کو دندناتا ہوئے دیکھ کر فاطو جٹی نے غصے سے دونوں ہاتھ اٹھا کر اُسے رُکنے کا اشارہ کیا۔
گردش ماہ و سال بھی رک گئی……لمحے سراسیمہ سے ہو گئے۔
کھیتوں میں سرسوں کی مہک نے طوفان اٹھا رکھا تھا۔ ہنستے ہوئے پیلے پیلے پھولوں کی ہنسی وار کر گئی۔
گھڑ سوار نے پوری قوت سے سرپٹ بھاگتے ہوئے گھوڑے کی لگامیں کھینچ لیں۔گھوڑے نے بہت زور سے ہنہنا کر دونوں پاؤں یوں زمین سے اوپر اٹھائے کہ گھڑ سوار گرتے گرتے بچا۔ یوں لگتا تھا جیسے اپنے مالک کی یہ بے وقت مداخلت اُسے سخت ناگوار گزری تھی۔
سبکتگین کی طرح رحم کھا کر چوہدری کو بھاگتے ہوئے ہرن کو رہا نہیں کرنا پڑا تھا بلکہ موقعہ پا کر ہرن خود ہی فرار ہو گیا اور چوہدری کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پابند سلاسل کر گیا۔چوہدری اور فاطو جٹی ایک دوسرے کے بالمقابل آ چکے تھے۔ فاطو جٹی کی نگاہوں میں چوہدری نے پتہ نہیں کون سے شعلے کی لپک دیکھی کہ سر سے پاؤں تک پگھل گیا۔نہ جانے وہ سمے کا کون سا پل تھا جو چوہدری کو اس سے چرا کر لے گیا۔‘‘(چیچہ وطنی)
’’کیہ جاناں میں کون‘‘بظاہرایک فرد کے رقص اورقونیہ میں مولانا روم کے پیروکاروں کے مخصوص صوفیانہ رقص کی منظر کشی سے شروع ہونے والی کہانی ہے۔لیکن صوفیانہ رمزوں کے کئی اسرارکی ہلکی ہلکی جھلکیاں دکھلاتی ہوئی یہ کہانی ایک ایسے ادھورے انسان کی المناک کہانی ہے جسے قدرت نے بناتے ہوئے مکمل نہیں کیا،آدھا،ادھورا رہنے دیا۔نہ مردبنا،نہ عورت۔کہانی صوفیانہ ماحول سے باہر آتی ہے تو ادب کی فضاچھاجاتی ہے۔اس ادھورے انسان کی دلچسپیوں کا سلسلہ رقص، موسیقی،ادب اور فن کے دوسرے سلسلوں سے بھی کسی نہ کسی طورملتا جاتا ہے۔دراصل یہ خاکہ نما افسانہ ہے جو افتخار نسیم (افتی نسیم)کی زندگی کی کچھ روداد بیان کرتا ہے اور کچھ افسانہ نگارکے احساسات کی ترجمانی کرتا ہے۔افسانہ نگار کو افتی سے گہری ہمدردی ہے،لیکن افتی اپنی اضطراری حرکات سے ہر بار افسانہ نگار کو خود سے متنفرکردیتا ہے۔اس کے باوجود افسانہ نگار کی ہمدردی اس کے لیے کم نہیں ہوتی۔اس خاکہ نما کہانی کے اختتام کا یہ قدرے طویل اقتباس دیکھیں۔
’’میں نے جیسے ہی کتاب بند کی اُس نے ہاتھ آگے بڑھا کر کتاب میرے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہا:"It is for adults only."
پتہ نہیں کب وہ خاموشی سے آ کر میرے پیچھے کھڑا ہو گیا تھا۔میں نے اس کے طنز کے اوچھے وار سے لڑکھڑانے کی بجائے سوال کر دیا ’’اچھا تو تم بالغ ہو؟‘‘
اس نے جواباً طنزیہ لہجے میں ہنستے ہوئے جواب دیا ’’اس میں کیا شک ہے؟‘‘
’’تو دوسروں کی بلوغت کے بارے میں تمہیں کیوں شک ہے؟‘‘میں نے گویا جرح شروع کر دی۔ اب کی بار وہ خاموش رہا۔
’’ہو سکتا ہے جنہیں تم نابالغ سمجھتے ہو وہ تم سے زیادہ بالغ ہوں اور تمہیں نابالغ سمجھتے ہوں۔‘‘میں نے زہر میں بجھا ہوا تیر پھینکا۔
’’میں اور نابالغ؟‘‘ اس نے حیرت سے سوال کیا۔
’’ہاں تم!‘‘ میں نے لفظ تم پر زور دیتے ہوئے کہا۔
’’تم کیا سمجھتے ہو کہ اپنی Sexuality کا اشتہار لگا کر، عورتوں کی طرح سولہ سنگار کر کے ہم جنس پرستوں کے جلسے جلوسوں کو لیڈ کرنا ہی بلوغت کی نشانی ہے؟‘‘اب کی بار حیران ہونے کی باری اس کی تھی کیونکہ وار کافی سخت تھا۔ لیکن وہ برافروختہ ہونے کی بجائے خاموش کھڑا مجھے گھورتا رہا۔ جیسے میں نے اس کی توقع کے برخلاف بہت کچھ کہہ دیا ہو۔
اس دن کی ترش گفتگو کے بعد ہمارے درمیان اجنبیت کی اونچی دیوار حائل ہو چکی تھی جو آخری وقت تک قائم رہی۔
اگلے روز کافی مندوبین کی واپسی متوقع تھی۔رات بہت دیر تک جاگتے رہنے کے باعث میں صبح قدرے تاخیر سے اٹھی۔ جس وقت میں نیچے کمپاؤنڈ میں آئی تو اس کی گاڑی ایئرپورٹ جانے کے لیے گیٹ سے باہر نکل رہی تھی۔’’خداحافظ کہنے کا موقعہ بھی نہ ملا…… شاید اچھا ہی ہوا…… رات کی گفتگو سے جو بدمزگی پیدا ہوئی تھی اس کے بعد نہ جانے کس طرح سے الوداع کہا جاتا؟‘‘ میں نے خود سے کہا۔
اٹلی سے واپسی کے کچھ ہی عرصے بعد خبر ملی کہ وہ ساتویں رنگ کی تلاش میں ہم سب کو چھوڑ کر کہیں بہت دور نکل گیا تھا کبھی نہ واپس آنے کے لیے……
’’بلھا! کیہ جاناں میں کون؟ کیہ جاناں میں کون؟ کیہ جاناں میں کون؟‘‘ کی سرمدی تکرار ایک بار پھر فضاؤں میں گونج اٹھی تھی۔‘‘(کیہ جاناں میں کون)
’’باکا‘‘غیرمنقسم ہندوستان کے مسلمان گھرانوں کے دو دوستوں کی داستان ہے۔کلکتہ کے ایک خوش حال گھرانے کا نوجوان انڈونیشیا کی آزادی سے پہلے وہاں جاپانی فوج کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔جاپانی فوجی وہاں جاسوسی کے شبہے میں پکڑے گئے قیدیوں کے ساتھ جو سلوک کرتی ہے اس کا حال جان کر رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔بلکہ بعض واقعات پڑھ کر تو انسان سوچنے لگتا ہے کہ پھر تو امریکہ کے پاس ایٹم بم گرانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا۔کلکتہ کے خوش حال گھرانے کا ڈاکٹر یونس جاپانیوں کے مظالم کا شکار ہو کرپاگل ہوجاتا ہے۔اس دوران پاکستان بن جاتاہے اور ڈاکٹر یونس پاکستان کے کسی پاگل خانے تک پہنچادیا جاتاہے۔وہیں اس کے دیرینہ دوست ڈاکٹر نے اسے دیکھا اور پھر علاج کے لیے اپنے گھر پر رکھ لیا۔کہانی پڑھنے سے پہلے کہانی کا عنوان’’باکا‘‘پڑھ کر ایسے لگتا ہے جیسے کہانی کے کسی کردار کا نام مبارک ہو گا لیکن آخر میں معلوم ہوتا ہے کہ جاپانی زبان میں پاگل کوباکا کہتے ہیں۔
’’آدھی چادر‘‘برصغیر کی تقسیم اور قیام پاکستان کے زمانے کو یاد کرتے ہوئے ایک نوحہ سا لکھا گیا ہے۔اس میں مشترکہ انسانی قدروں کا ذکر بھی ہے اور شدید سماجی تفاوت کا بیان بھی۔سماجی سطح پر باہم خیر اور بھلائی کے جذبات رکھنے کے باوجود سماجی تضادات کی کشمکش نے تقسیم کے موقعہ پر خونریزی کے المیہ کو جنم دیا۔ان ساری یادوں کو کہیں ادب کے حوالے سے،کہیں جذباتی رنگ میں،کہیں مذہبی شان کے ساتھ اور کہیں سادہ سے عام انسان کی طرح بیان کیا گیا ہے۔تاریخ کے کئی پہلواس میں نظر انداز بھی ہوئے ہیں تاہم کہانی کی حدودکو ملحوظ رکھتے ہوئے ماضی سے حال تک کوایک نظر دیکھا گیا ہے اور اچھے مستقبل کی امید بھی کی گئی ہے۔
’’ققنس‘‘۔۔۔جیسے ’’کیہ جاناں میں کون‘‘خاکہ نما افسانہ ہے ویسے ہی’’ققنس‘‘رپورتاژنما افسانہ ہے۔اس میں کوئی حرج نہیں۔جب کوئی لکھنے والا پختہ کار ہو جاتا ہے تو اس کی تخلیقات میں مختلف اصناف کی آمیزش ایک خاص فنکارانہ مہارت کے ساتھ آسکتی ہے۔رضیہ اسماعیل کی بعض تخلیقات میں ایسا دیکھا جا سکتا ہے۔ ’’ققنس‘‘میں پہلے تو انگلینڈ کے بعض ادبی اداروں اور تنظیموں کا بالواسطہ تعارف کرایا جاتا ہے۔پھر بعض ادبی کرداروں سے ملوایا جاتا ہے۔مختلف ادبی موضوعات پر بحث کے لیے اچٹتے اشارے دئیے جاتے ہیں۔پھر ایک ادبی ورکشاپ کا حال سنایا جاتا ہے۔یہ سب کچھ ایک رپورتاژ کی صورت میں بھی لکھا جا سکتا تھا لیکن رضیہ اسماعیل نے اپنے اندر کے افسانہ نگار سے کام لیتے ہوئے اسے ایک افسانے کا روپ دے دیا ہے۔
ایک پبلک لائبریری کا تعارف کراتے ہوئے رضیہ اسماعیل بتاتی ہیں۔
’’برمنگھم میں یورپ کی سب سے بڑی پبلک لائبریری جس کا افتتاح پاکستانی نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے کچھ عرصہ پہلے کیا تھا۔انہوں نے شیکسپیئر میموریل روم میں باقاعدگی سے منعقد ہونے والے ادبی گروپ ’’رائٹرز وِدآؤٹ بارڈرز‘‘ (Writers without Borders) کے بارے میں کچھ مواد بھیجا تھا۔‘‘(ققنس)
ادبی گروپ ’’رائٹرزوِدآؤٹ بارڈرز‘‘کا نام بڑا خوشنما ہے۔لیکن ابھی تک کی عملی سچی بات یہ ہے کہ تحریریں تو بارڈرزکو کراس کر سکتی ہیں لیکن رائٹرزکوبارڈرز کراس کرنے میں بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے۔خصوصاََ انڈوپاک کے ادیبوں کوویزے کی رکاوٹیں،دوسرے ملک میں مشکوک نظروں سے دیکھے جانے کی اذیتیں ایسی ہیں جوبارڈرزکی سخت اہمیت کا احساس بھی دلاتی ہیں اورادیب کی مجبوری کا بھی۔صرف انڈو پاک ہی میں نہیں اب تو مغربی دنیا میں آنے والوں کو بھی ویسی ہی مشکوک نگاہوں سے دیکھا جانے لگا ہے۔اور لگ بھگ ویسے ہی مسائل کا سامنا ہے۔سو رائٹرز ود آؤٹ بارڈرز محض کہنے کی بات ہے۔
ادبی ورکشاپ میں گفتگو شروع ہوتی ہے اور ایک ترک رائٹر تک ان الفاظ میں پہنچتی ہے۔
’’کیا آپ نے کبھی ادھوری کہانیوں پر غور کیا ہے؟ ادھوری محبتوں کی کہانیاں…… موڑ مڑتی ہوئی کہانیاں…… بین کرتی ہوئی کہانیاں…… روٹھی ہوئی کہانیاں…… ہاری ہوئی کہانیاں…… مگر ہر لمحہ سانس لیتی ہوئی کہانیاں…… کیونکہ کہانی کبھی نہیں مرتی!!!‘‘ اب کی بار ٹرکش رائٹر بول رہا تھا۔‘‘(ققنس)
’’ققنس‘‘میں بنیادی طور پر اس خیال کو پیش کیا گیا ہے کہ جیسے ققنس اپنی آگ میں جل کر راکھ ہوتاہے اور پھر اسی راکھ سے اس کا نیا جنم ہوتا ہے ویسے ہی جس کہانی کار کی کہانی مکمل نہیں ہوتی وہ پھر اپنی راکھ سے نیا جنم لیتی ہے۔ اور یوں کہانی کہنے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔اس حوالے سے رضیہ اسماعیل نے ورکشاپ کے شرکاء کی مختلف آراء دینے کے ساتھ جوگندر پال کے ایک افسانچے کا اقتباس بھی دیا ہے۔
’’ذہن کے کسی گوشے سے جوگندر پال کی آواز سنائی دی جو اس خیال کی تائید کر رہی تھی۔‘‘(ققنس)
اس کے بعد رضیہ اسماعیل نے جوگندرپال کے افسانچے کا ادھورا سا اقتباس دیا ہے۔ اگر یہ پورا افسانچہ درج کردیا جاتا تو ’’ققنس‘‘کا بار بار اپنی راکھ سے جنم لینے کا بھیدزیادہ روشن ہو کرسامنے آجاتا۔یہاں جوگندر پال کا پورا افسانچہ درج کر دیتا ہوں۔
’’زندگی تو اٹوٹ ہے،اسے کوئی ایک جنم میں کیسے پورا کرے۔ہاں،اسی لیے میرا کہنا ہے کہ میں ہی چیخوف ہوں،میں ہی پریم چند ،میں ہی منٹو۔۔۔اور وہ بھی کوئی،جسے ابھی پیدا ہونا ہے۔
ہاں بابو،میں اسی لیے بار بار جنم لیتا ہوں کہ اپنا کام پورا کر لوں مگر میرا کام ہر بار ادھورا رہ جاتا ہے۔
نہیں،اچھا ہی ہے کہ ادھورا رہ جاتا ہے،اسی لیے تو زندگی کو زوال نہیں،بابو۔‘‘
مغربی دنیا میں مقیم اردو رائٹرزکے حوالے سے رضیہ اسماعیل نے بڑی سچی اور کھری باتیں کی ہیں۔ ایک جھلک یہاں پیش کردیتا ہوں۔
’’مگر ہم لوگ یہاں کس قدر الگ تھلگ سی زندگی گزارتے ہیں۔ کنویں کے مینڈک کی طرح ایک ہی جگہ ٹراتے رہتے ہیں۔ جب تک ہم مقامی معاشرے میں ربط و ضبط بڑھانے کی کوشش نہیں کریں گے تو Sense of Belonging کبھی بھی پیدا نہیں ہو سکتی اور ہم ناسٹلجیا کا ہی شکار رہیں گے۔‘‘ میں نے بڑے دکھ سے سوچتے ہوئے ساری ڈاک ایک طرف رکھ دی۔
’’اسی لیے تو نسلی ہم آہنگی (Racial Harmony) پیدا نہیں ہو رہی اور ہماری نئی نسل انتہا پسندی کی طرف راغب ہورہی ہے۔‘‘
ذہن کے کسی گوشے نے میری بات کی تائید کرتے ہوئے کہا۔
’’ادب اور ثقافت انسانوں کے درمیان رابطے کا سب سے موثر ذریعہ ہے جس سے انسانی تعصب بہت حد تک دور کیا جا سکتا ہے کیونکہ تعصب کی بنیاد ہی لاعلمی یا کم علمی پر ہوتی ہے جسے دوسرے لفظوں میں جہالت کہہ سکتے ہیں۔‘‘
ذہن کے اس زبردست تجزیے کو جھٹلانے کی میرے پاس قطعی کوئی گنجائش نہیں تھی۔‘‘(ققنس)
ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کے اس مجموعہ کی گیارہ کہانیوں کا یہ مختصر سا تعارف تھا۔ان کہانیوں میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ قاری کو پوری طرح اپنی طرف متوجہ رکھنے میں کامیاب ہیں۔آپ ایک افسانہ پڑھنا شروع کریں تو اسے ختم کیے بغیر کتاب رکھنے کو دل نہیں مانے گا۔ایک اور خوبی یہ ہے کہ افسانہ نگار جس ماحول اور علاقہ کی بات کر رہی ہوتی ہیں عام طور پر وہیں کا پورا ماحول اور پوری لفظیات کہانی میں سرایت کرجاتی ہے۔ہندوستان کے دیہات کا ماحول ہو یا انگلینڈ کا شہری ماحول،پنجاب کے صوفی شاعر ہوں یا قونیہ کے صوفی رقاص۔پاکستان کا دیہاتی منظرہویاامریکہ وجاپان کا کوئی بیان،رضیہ اسماعیل کہانی کے بیانیہ ہی میں نہیں اس ماحول میں بھی پوری طرح ڈوبی دکھائی دیتی ہیں۔کہانی کے زمانے اور ماحول کا پوری طرح کہانی میں سرایت کرجانارضیہ اسماعیل کی فنی مہارت کا ثبوت ہے۔یہ مہارت طویل ریاضت کے بغیر نصیب نہیں ہوتی۔
بیشتر کہانیوں میں انسانی المیوں کے مختلف روپ سامنے آتے جاتے چلے جاتے ہیں۔مختلف کرداروں کی انفرادی نوعیت کے زندگی کے گہرے صدمات سے لے کر،تقسیم برصغیرکے وقت ہونے والا قتل و غارت،عراق میں ہونے والی ہولناک جنگ،دوسری جنگ عظیم کے زمانہ کے بعض خوفناک واقعات۔یہ سب المیے جو اِن افسانوں میں بیان کیے گئے ہیں موثر پیرائے میں بیان کیے گئے ہیں۔ پھر ان سب کے مقابلہ میں انسانی اقدارکو اجاگرکرتے ہوئے صوفیانہ روایات سے عمدہ استفادہ کیا گیا ہے اور اس دھرتی کے انسانوں کے لیے امید کی روشنی دکھائی گئی ہے۔سو براہِ راست کسی نوعیت کی پیغام رسانی نہ کرتے ہوئے بھی رضیہ اسماعیل کے افسانے آج کے گلوبل انسان کے مسائل کو ماضی کے مختلف علاقوں کے مسائل کے آئینے میں دیکھتے ہیں۔پھر وہ انہیں دیکھتے اوردکھاتے ہوئے ہمیں انسانی مستقبل کے انسان کے لیے پیار اورمحبت کی وہ روشنی دکھاتے ہیں جو دنیاکوامن کا گہوارہ بناسکتی ہے۔
مجھے امید ہے کہ ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کے افسانوں کا مجموعہ’’آدھی چادر‘‘ علمی و ادبی حلقوں میں پذیرائی اور قبولیت حاصل کرے گا اور عوامی سطح پر بھی اسے مقبولیت ملے ہوگی۔انشاء اللہ!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔