رشتہ اچھا تھا۔ لڑکا خوش شکل اور ہنس مُکھ واقع ہوا تھا۔ کاروباری خاندان تھا۔ دارالحکومت کے پوش علاقے میں محل نما کوٹھی میںرہائش تھی۔ شادی کر دی گئی۔
پھر ایک دن لڑکی نے ماں کوبتایا کہ کوشش کے باوجود یہ نہیں معلوم ہو رہا کہ اس کے میاں کا اور میاں کے باپ کا بزنس کیا ہے۔ بس صبح سویرے بیٹا اور اس کے ماں باپ، تینوں گھر سے چلے جاتے ہیں یہ کہہ کر کہ کام پر جا رہے ہیں۔ شام گئے واپس آتے ہیں۔ روپے پیسے کی کمی نہیں! جو بھی بزنس ہے، خوب چل رہا ہے!
کچھ عرصہ گزر گیا۔ پھر ایک دن لڑکی کی ایک جاننے والی خاتون نے اُسے وہ بات بتائی جسے سن کر اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ ’’میں نے تمہارے میاں کو چاندنی چوک پر بھیک مانگتے دیکھا ہے۔‘‘
یہ معاشرہ زوال کی آخری حدوں کی سمت بڑھ رہا ہے۔ بھکاری محلات میں منتقل ہو گئے ہیں۔ کیکر دعویٰ کرتے پھر رہے ہیں کہ ان پر انگور لگتے ہیں۔ شیراز کی دلکش ندی کے کنارے بیٹھنے والے شاعر نے اِسی عہد کی پیشگوئی کی تھی کہ گلاب اور چینی کے شربت گائو دی اور احمق پی رہے ہیں۔ گدھوں کی گردنوں میں سنہری پٹے پڑے ہیں۔ تازی گھوڑے لکڑیاں ڈھو رہے ہیں اور عقل والوں کو پیاس بجھانے کے لیے خونِ جگر دیا جا رہا ہے۔
کچھ حقیقتیں ایسی ہیں‘ جو صدیوں کے تجربے اور مشاہدے کے بعد مانی گئی ہیں۔ انہی میں سے ایک یہ ہے کہ فیملی بیک گرائونڈ، تربیت اور اٹھان جن کی اچھی ہو، جنہوں نے اپنے گھروں میں کچھ دیکھا ہو، وہ اقتدار تک پہنچتے ہیں تو عاجزی دکھاتے ہیں نہ کہ گردن بلندی! کل کی خبر ہے کہ ہمارے حکمران طائفے کا ایک ممتاز رکن
ایئرپورٹ پر حسبِ معمول اور حسبِ روایت تاخیر سے پہنچا۔ بدقسمتی یا
خوش قسمتی سے ایئرلائن غیر ملکی تھی۔ ’’صاحب‘‘ کے پروٹوکول افسر نے منت سماجت کی کہ بورڈنگ کارڈ اُسے دے دیا جائے اور پھر حکمران شخصیت کا انتظار کیا جائے۔ اپنی کوئی ایئرلائن ہوتی تو مسافر جہاز میں بیٹھے سوکھتے رہتے‘ بچے روتے رہتے، بوڑھے ذلیل ہوتے رہتے اور ایئرلائن کو چلانے والے غلام دستہ بستہ دروازوں پر کھڑے رہتے۔کئی گھنٹوں بعد حکمران نمودار ہوتا اور جہاز پر یوں چڑھتا جیسے یہ اس کی جاگیر کا ایک حقیر حصہ ہو! اُس کے ذہن کے کسی دور افتادہ گوشے میں بھی یہ خیال نہ آتا کہ خلقِ خدا گھنٹوں سے اُس کے لیے تکلیف سے گزر رہی ہے۔ نشست پر بیٹھتے ہی ایئرلائن چلانے والے غلام اس کے سامنے خورو نوش کی اشیا کا ڈھیر لگا دیتے‘ مگر یہ ایئر لائن غلاموں کی رسائی سے باہر تھی۔ جہاز چلانے والوں نے وقت پر دروازے بند کیے، انجن چلایا، پنکھے گھومے اور فولادی پرندہ ہمارے حکمران کو چھوڑ کر، پروں کو پھڑ پھڑاتا، فضا کی وسعتوں میں گم ہو گیا۔ حکمران ایئرپورٹ پہنچا تو راوی کہتا ہے کہ وہ اپنے پروٹوکول افسر پر برسا۔ اگلی پرواز کے لیے اسے انتظار کرنا پڑا۔
آپ کا کیا خیال ہے سنگاپور سے لے کر کینیڈا تک اور جاپان سے لے کر جرمنی تک، تہذیب یافتہ ملکوں میں پروٹوکول افسران ایئرلائنوں کی منت سماجت کرتے کبھی دیکھے گئے ہیں؟ یہاں ملتان اور کوئٹہ جیسے چھوٹے ایئرپورٹوں پر تو یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ حکمران کا سٹاف ہی، جہاز چلنے سے کچھ دیر پہلے فون کر کے پرواز کو مؤخر کرا دیتا ہے۔
ترقی انفراسٹرکچر کا نام ہے نہ عمارتوں، شاہراہوں، پلوں اور ہوائی اڈوں کا! ترقی حکمرانوں کی رہائش گاہوں کے طمطراق سے بھی نہیں ماپی جاتی۔ رباط سے لے کر جدہ تک، دبئی سے لے کر کراچی اور رائے ونڈ تک محلات ہی محلات ہیں‘ جہاں حکمران اور حکمرانوں کے خاندان رہ رہے ہیں۔ دوسری طرف وائٹ ہائوس کا رہائشی حصہ اور 10ڈائوننگ سٹریٹ کا مکان ماپ لیجیے! ترقی رویّے سے جانچی جاتی ہے۔ برطانیہ کا وزیر اعظم لندن کے ٹریفک انچارج سے درخواست کرتا ہے کہ پارلیمنٹ سے نکل کر وزیر اعظم ہائوس آنا ہو‘ جہاں کوئی غیر ملکی مہمان منتظر ہوتا ہے ‘تو پہنچنے میں تاخیر ہو جاتی ہے اس لیے ٹریفک کو کچھ دیر کے لیے کنٹرول کر لیا جائے۔ ٹریفک انچارج وزیر اعظم کو ’’مشورہ‘‘ دیتا ہے کہ جنابِ عالی! آپ دس منٹ پہلے نکل آیا کریں ‘کیوں کہ شہریوں کو تکلیف نہیں دی جا سکتی! وزیر اعظم اس گستاخ منہ پھٹ اور عاقبت نااندیش افسر کو معطل کرتا ہے نہ اس کا تبادلہ کسی دور افتادہ گوشے میں کرتا ہے‘ نہ ہی اس کی ترقی روکتا ہے! وزیر اعظم کسی مریض کی عیادت کرنے ہسپتال آتا ہے۔ اس کی موجودگی میں متعلقہ ڈاکٹر آ کر پوچھتا ہے‘‘ وزیر اعظم کیسے اندر آ گیا؟ یہاں تو کسی کو بھی آنے کی اجازت نہیں!‘‘ وزیر اعظم سنتا ہے اور خاموشی سے باہر نکل جاتا ہے۔
نہیں معلوم! تہذیب یافتہ ملکوں کے ان حکمرانوں کے فیملی بیک گرائونڈ کیسے ہیں ‘مگر ایک بات واضح ہے کہ اقتدار اُن کے دماغوں کو نہیں چڑھا۔ ان کی گردنیں تن نہیں گئیں! وہ آپے سے باہر نہیں ہو گئے۔ وہ اس محاورے کی جیتی جاگتی مثال ہیں کہ جس ٹہنی پر پھل زیادہ ہوں وہ جھک جاتی ہے!
ملک بھی انسانوں کی طرح ہیں! انسانوں کا ایک ظاہر ہوتا ہے، ایک باطن! نیکی ظاہر سے نہیں جانچی جا سکتی! کسی کا ظاہر دیکھ کر نیک یا بدقرار دینے والا جاہل ہی ہو گا! پانچ وقت کی نماز، متشرع چہرہ، مخصوص انداز کا لباس! ہر سال حج ۔دیگیں اور غریب پروری کے دوسرے مظاہر! مگر اندر یہ حال ہے کہ رذائل ہی رذائل! حسد، لالچ، سازش، بخل، حُبِ جاہ! ریا کاری، جھوٹ، وعدہ خلافی، پھر ٹیکس چوری!
یہی حال ملکوں کا ہے! مشرقِ وسطیٰ کی بعض ریاستوں پر غور کیجیے۔ کیا نہیں ہے! بڑی بڑی شاہراہیں، امریکہ کے منہ چڑاتے ایئر پورٹ، عظیم الشان شاپنگ مال، حکمران خاندانوں کے ایک ایک فرد کے پاس محلات، جزیرے، اربوں کی مالیت کے تفریحی بجرے ‘مگر رویے ان کی طرح جو رات محل میں گزارتے تھے‘ مگر دن کو چاندنی چوک پر بھیک مانگتے تھے۔ عام شہری اور شاہی خاندان کے فرد کے حقوق میں زمین و آسمان کا فرق! یہ گزشتہ برس کا واقعہ ہے کہ ایک مشہور ملک کے ایک مشہور شہر کے ہوائی اڈے پر مسافروں کی طویل قطار اپنے اپنے پاسپورٹ چیک کروا رہی تھی۔ اچانک سارا کام بند کر دیا گیا۔ ایک اعلیٰ شخصیت آئی اور کائونٹر والے اُس کی دیکھ بھال میں مصروف ہو گئے۔ کافی دیر انتظار کرنے کے بعد ایک پاکستانی نے، جو امریکہ سے آیا تھا، احتجاج کیا۔ اس پر اُسے بتایا گیا کہ اگر وہ خاموش نہ ہوا تو اسے جیل میں بھی ڈالا جا سکتا ہے! جس طرح انسانوں کے رذائل جھوٹ، حسد، ریاکاری، حبِ جاہ اور بخل ہیں، اسی
طرح ملکوں کے رذائل یہ ہیں کہ قانون حکمران طائفے کے لیے الگ ہے اور عام شہری کے لیے الگ۔ حکمران تقاریب میں تاخیر سے پہنچتے ہیں۔ پروازیں ان کے لیے مؤخر ہو جاتی ہیں۔ عام مسافر احتجاج تک نہیں کر سکتے۔ یہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔ اپنے رشتہ داروں کو اختیارات دے کر انہیں خلقِ خدا کی گردنوں پر سوار کر دیتے ہیں۔ عام اجلاس بھی دبئی میں ہوتے ہیں۔ مقدمے ان حضرات پر چلیں تو یوں بچ جاتے ہیں جیسے بتیس دانتوں میں زبان۔ شاہراہوں پر ٹریفک شاہی قافلوں کے لیے روک دی جاتی ہے۔ بچے ایمبولنسوں میں جنم لیتے ہیں۔ مسافر ہوائی اڈوں تک اور طالب علم امتحان کے کمرے میں نہیں پہنچ پاتے۔ کوئی عدالت عوام کی شنوائی کرتی ہے نہ کوئی احتجاج کام آتا ہے۔ حکمرانوں کے ہسپتال، سکول، کالج ‘سیر گاہیں، شاپنگ سنٹر، رہائشی شہر، سب کچھ عوام سے الگ ہوتا ہے۔ اُن کے اپنے گھروں میں کیا، اُن کے رشتہ داروں کے گھروں پر بھی سرکاری پہریدار تعینات ہوتے ہیں۔ اسلحہ کے قوانین، ٹیکس کے قوانین ‘ٹریفک کے قوانین، بیرونِ ملک جانے اور آنے کے قوانین، کسی قانون کا ان پر اطلاق نہیں ہو سکتا۔ یہ وہ رذائل ہیں؟ جن کی وجہ سے ملک تہذیب یافتہ ہو سکتا ہے‘ نہ ترقی یافتہ!
ہمارے حکمران اور ان کے خاندان قانون کے معاملے میں عوام کے ساتھ کب کھڑے ہوں گے؟ یہ برسوں کا معاملہ ہے یا صدیوں کا؟ ہم کب تک انتظار کریں گے؟ ؎
کب جان لہو ہو گی، کب اشک گہر ہو گا
کس دن تری شنوائی اے دیدۂ تر ہو گی
کب تک تری رہ دیکھیں اے قامتِ جانانہ
کب حشر معین ہے تجھ کو تو خبر ہو گی
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“