پہلے ریاضی فزکس میں بدلی اور کائنات پیدا ہوئی۔ اس سے چار لاکھ سال بعد کیمسٹری کا آغاز ہوا۔ بنتے، ٹوٹتے، بگڑتے، سنورتے، پیدائش اور موت کے چکروں کے اسیر ستارے اور کہکشائیں۔ اربوں سال گزرے، کسی کہکشاں کے گوشے میں مردہ ستاروں کا آوارہ مادہ گریویٹی کے زیرِ اثر آیا۔ جیسے گھومتی رقاصہ بازو سکیڑ لے تو رفتار تیز ہو جاتی ہے، ویسے ہی اس مادے کے اکٹھا ہوتے ہوئے اس کی رفتار تیزتر ہوتی گئی۔ اس کا بڑا حصہ ایک ہی جگہ اکٹھا ہوا اور سورج کہلایا۔ فیوژن سے اس کی بھٹی جل اٹھی۔ اپنے قرب و جوار کے لئے بڑی روشنی کا منبع۔ تین کھرب ستاروں کی کہکشاں کی محفل میں ایک اور فرد کا اضافہ ہوا۔ اس کی کچھ خاصیتیں ذرا مختلف تھیں۔ عام ستاروں کے برعکس اس کے پیٹ پر ابھار نہیں تھا۔ ایسا بہت کم ستاروں میں ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ عام ستاروں کے مقابلے میں پرسکون تھا۔ اس مادے کا بچا کھچا ہزارواں حصہ اس کے گرد آٹھ سیاروں، بہت سے شہابیوں، برف کے ٹکڑوں، گیس، خلائی دھول اور دوسرے فلکیاتی اجسام نے جنم لیا۔ اس نئے ستارے سے تیسرے نمبر پر پتھریلا سیارہ زمین کہلایا۔ جیولوجی شروع ہو گئ۔
اس سیارے کے خاص بات یہ رہی کہ اپنے پڑوسیوں کے برعکس اس کی سطح مسلسل بدلتی رہی ہے۔ پانی نے اس کو شکل دی ہے۔
زمین اس وقت ویسے بالکل نہیں تھی جیسے آج نظر آتی ہے۔ جہنم نما گرم اور سرخ سیارے کے پرتشدد بچپن میں ایک اور منفرد “بینگ” ہوا۔ یہ زندگی کا بینگ تھا۔ بائیولوجی کا آغاز تھا۔ ہم فزکس اور کیمسٹری کے آغاز سے بائیولوجی کے آغاز کے مقابلے میں زیادہ بہتر واقفیت رکھتے ہیں۔ لیکن جہاں پر بھی، جب بھی اور جیسے بھی ہوا، اس نے ایک پکا ثبوت ہمارے دیکھنے کے لئے رکھ چھوڑا ہے جو بتاتا ہے کہ تمام زندگی ایک ہی زنجیر اور ایک ہی لڑی ہے اور ایک ہی بینگ کا نتیجہ ہے۔ یہ ثبوت تین حرفی ڈی این اے کا کوڈ ہے۔ کاسموس کی طرح بائیولوجی بھی ایک ہی مرتبہ شروع ہوئی۔ اس کی ابتدائی چند منٹ، گھنٹے اور دن بڑے نازک ہوں گے۔ اس کو دو الگ چیزوں کی ضرورت تھی۔ توانائی جنریٹ کرنا اور اپنی نقل بنانا۔ بائیولوجی فزکس کی طرح نہیں، یہ اپنے نقشِ پا مٹا دیتی ہے۔ اس کی مشین اپنے سے پچھلوں کو ختم کر دیتی ہے۔ اپنی تاریخ کے اس اہم ترین موقع کو ٹھیک طریقے سے شاید ہم کبھی نہ جان سکیں۔ غذائیت سے بھرپور زمین میں بغیر کسی مقابلے کے اس کے لئے پھیلنا آسان رہا ہو گا۔ اپنے آپ کو دگنا کر لینے کی صلاحیت نے اس کو ہر جگہ بکھیر دیا۔
اگر بیکٹیریا کا خلیہ دیکھیں اور اس کو ایک لفظ سے بیان کریں تو وہ لفظ “پیچیدگی” ہو گا۔ ای کولائی بیکٹیریا (جو تجربات میں سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے اور ہماے جسموں میں بھی بڑی تعداد میں ہے) اڑھائی کروڑ اجزاء رکھتا ہے جو دو ہزار اقسام کے ہیں۔ موازنہ کرنے کے لئے، ایک کمپیوٹر ایک ہزار آئٹم رکھتا ہے جو اس سے کئی ملین گنا بڑے کنٹینر میں ہے، اپنی کاپی نہیں بنا سکتا اور توانائی میں خودکفیل نہیں۔
ابتدائی خلیوں کا جینیاتی مادہ غیرمحفوظ خلیاتی جھلی میں موجود تھا جو اپنی توانائی خود بناتے تھے۔ اس وجہ سے لمبے عرصے تک زندگی میں بڑی جدت نہیں آ سکی۔ اس پسماندگی سے ترقی کا سفر یوکاریوٹ کی آمد سے ہوا۔ یہ دو قدیم خلیوں کا آپس میں ہونے والا معاہدہ تھا جس میں ایک نے دوسرے کو پہلے اپنی خوراک، پھر اپنا نوکر اور پھر غلام بنا لیا۔ بیکٹیریا اتنی توانائی نہیں پیدا کر سکتے، اس لئے ترقی نہیں کر سکے۔ ان کے آباء میں سے کسی نے یہ مسئلہ ایک پاور کپنی پر قبضہ کر کے حل کیا۔ اس کے نمائئندے، شاید زبردستی، ایک اور خلئے میں داخل ہو گئے۔ وہاں پر یہ تقسیم ہوئے۔ میزبان نے تمام مشینری پر قبضہ کر لیا اور صرف توانائی والا حصہ چھوڑ دیا۔ اس کے جانشین آج کے مائیٹوکونڈریا ہیں۔ وہ جگہ جہاں زندگی کا زیادہ تر ایندھن جلتا ہے۔ کچھ یوکاریوٹ خلیوں میں ایک لاکھ مائیٹوکونڈریا تک ہوتے ہیں۔ یہ کسی پرانے آزاد جاندار کی اگلی نسلیں ہیں۔
اس واقعے نے زندگی کی پروڈکٹویٹی میں بڑا اضافہ کیا اور نئی جدتوں کی رفتار میں تیز تر اضافہ ممکن کیا۔ ایک اور جگہ پر بیکٹیریا کے ایک گروپ نے زندگی کی ایک اور لڑی کو ہائی جیک کر لیا جو سورج کی شعاعوں سے توانائی کو استعمال کر سکتی تھی اور اس سے کلوروپلاسٹ بنایا۔ اس نے دنیا سبز کر دی اور وہ آکسیجن بنائی جو بڑے جانداروں کو درکار زیادہ توانائی کا ذریعہ بنی۔
نیوکلئیس کی آمد جدید خلیے کی پیدائش تھی۔ اس نے زندگی کے انسٹرکشن مینویل کو فیکٹری کے فلور سے محفوظ جگہ پر الگ کر دیا۔ مائیٹوکونڈریا جو شروع میں اپنے نئے گھر میں اپنے باہر سے لائے گئے ڈی این اے کی بمباری کر رہا تھا، نیوکلئیس کی دیوار نے اپنے ڈی این اے کو اس سے محفوظ کر دیا۔ نیوکلئیس اور مائیٹوکونڈریا کی آمد دنیا میں صرف ایک مرتبہ ہوئی ہے۔ زندگی کے کئی ابتدائی واقعات کی طرح یہ نایاب واقعات ہیں۔ انہوں نے ہی ترقی یافتہ زندگی کا راستہ کھولا ہے۔ دوسری دنیاوں میں ترقی یافتہ زندگی کا امکان بہت ہی کم لگتا ہے۔ خلائی مخلوق کی تلاش کی پروگرام، سیٹی، کے برقی کان ابھی تک نہیں بجے اور شاید کبھی نہ بجیں کیونکہ یہ سب ہونا حیرت انگیز اور نایاب ہے۔
زندگی کے اگلی بڑی چھلانگ دو ارب سالوں بعد کثیر خلوی آرگنزم کے ارتقا سے ہوئی۔ یہ واقعہ ایک بار کا نہیں اور کئی جگہ پر ہوا ہے۔ الجی کے لئے، پودوں کے لئے، جانوروں کے لئے، فنگس کے لئے۔ سب پارٹنر ایک ہی جینیاتی میک اپ رکھتے ہیں۔ اس لئے کہ ایک آرگنزم میں کوئی خلیہ اپنے خودغرض مفاد میں نہ لگ جائے بلکہ سب اس اشتراک کی کامیابی کے لئے کام کریں۔ ارتقائی سیڑھی پر یہ قدم خلیوں کے تقسیم ہونے کے بعد الگ نہ ہو سکنے کا نتیجہ تھا۔ ایسا ہمارے جسموں میں بھی ہوتا رہتا ہے۔ (اس کا تجربہ ییسٹ سیل پر کیا جا چکا ہے جو سو نسلوں میں ہی کثیر خلوی ہو جاتا ہے۔)
ہر قدم پر جو بھی ہوا، بیکٹیریا، پودے اور جانور، کہکشاوں کی طرح ایک دوسرے سے وقت کے ساتھ ساتھ دور ہوتے رہے۔ زندگی اپنے تجربے کرتی رہی، ہر ممکن کو ایکسپلور کرتی رہی۔ کروڑوں یا شاید اربوں انواع کی صورت میں۔ فزکس اور کیمسٹری کے قوانین کے ہاتھوں آخر تقریبا ہر ایک کو ہی شکست ہوئی اور ان کے کوئی پسماندگان بھی نہ رہے۔ اس کھیل میں ایک قلیل تعداد ہی بچتی رہی۔
جس طرح کائنات کا ماضی دیکھنے کے لئے ٹیلی سکوپ ہے، ویسے زندگی کا ماضی دیکھنے کی ٹیلی سکوپ ڈی این اے ہے۔ دیکھنے والے کو یہ ان تمام ناکامیوں سے نکلتی کامیابیوں اور زندگی کے ارتقا کی تاریخ حیران کن تفصیل کے ساتھ دکھا دیتا ہے اور اس کی مدد سے ایک گلوبل فیملی ٹری بنایا جا سکتا ہے۔
انسان اس میں ممالیہ کے گروپ میں ہیں۔ مالیکیولر حسب و نسب کی کتاب اس گروپ کو قدیم برِاعظم کے ٹوٹنے کے وقت سے لنک کرتی ہے۔ ہاتھی، ہائیریکس، سمندری گائے، سنہری چھچوندر اپنی مشترک جڑ افریقہ میں رکھتے ہیں۔ ایک اور گروپ جس میں آردواک، سلوتھ اور آرماڈیلو ہیں، جنوبی امریکہ سے۔ شمال میں لوریشیا کے علاقے سے چمگادڑ، وہیل، کتے، بلی وغیرہ کا۔ لوریشیا سے علاقے ٹوٹے۔ چوہے، خرگوش اور پھر آخر میں پرائمیٹ کا یوریشیا سے۔
ڈی این اے بتاتا ہے کہ پرائمیٹ کی شاخ کی آخری علیحدگی کولوگو سے ہوئی جس میں گلہری کے سائز کے جاندار آتے ہیں۔ پرائمیٹ کے اندر تین سو الگ شاخیں بنیں جس میں ایک ہومونڈ کی تھی۔
پچھلی نصف صدی میں اینتھیروپولوجسٹ ہڈیوں کی وادی میں داخل ہو چکے ہیں۔ ایک وقت میں ان ہڈیوں کی تعداد زیادہ نہیں تھی لیکن اب ہمارے جسم اور ذہن کا سفر یہ پتھریلی چٹانیں بھی اگلتی جا رہی ہیں۔ فزکس، کیمسٹری اور بائیولوجی کے مقابلے میں اینتھروپولوجی کمسن ہے۔ ہمارے پیچیدہ نسب کی کڑی میں ہومونن کی بس ایک ہی شاخ بچی ہے۔
فزکس ہمیں آغاز کی کہانی بتاتی ہے اور اختتام کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔ تمام ستاروں کی طرح سورج کا مقدر بھی موت ہے۔ یہ اپنے مرنے سے پہلے اپنی فزکس کے ہاتھوں بائیولوجی اور جیولوجی کو بھی ختم کر دے گا۔ بڑی روشنی کا منبع اگلے چند ارب سال میں اس کھیل کی بتی بجھا دے گا۔
یہ اس کتاب سے
The Serpent’s Promise: Steve Jones