رہائشی کمرے میں سے صوتی گھڑی نے راگ الاپنا شروع کر دیا تھا" ٹک ٹاک سات بج گئے ہیں اٹھنے کا وقت ہے"
"اٹھنے کا وقت ہے"
متواتریہ آواز ایسے اٹھ رہی تھی کہ جیسے دل میں کہیں ·خوف بسا ہو کہ وہاں کوئی بھی نہیں ہو سکتا اور جس گھر میں سورج چمکا تھا وہ واقعی ویران پڑا تھا.
گھڑی دوبارہ چالو ہوئی "سات بج کے نو منٹ "
"ناشتے کا وقت ہے سات بج کے نو منٹ"
اس کی آواز خالی گھر میں گونج رہی تھی.
باورچی خانے میں ناشتہ بنانے والے چولہے نے سنسناہٹ پیدا کرتے ہوئے ایک آہ بھری اور پھر ڈبل روٹی کے آٹھ ٹکڑے جو اچھی طرح پکے ہوئے ہوئے تھے آٹھ فرائی 'سنہری مائل انڈے'سولہ ٹکڑے سور کے نمکیں گوشت کے اپنے اندر پکا کر نکالےاور ساتھ ہی ناشتے میں دو کپ کافی اور دوگلاس ٹھنڈے دودھ کے بھی شامل تھے.
"شہر الینڈال میں آج 11اگست 2026 ہے" یہ آواز باورچی خانے کی چھت سے آئی تھی
"آج کا دن تین طرح سے یاد رکھنا تھا میں یاد دہانی کرواتا ہوں
آج مسٹر فیتھر سٹون کی سالگرہ ہے 'آج کے ہی دن ٹیٹلا کی شادی کی سالگرہ ہے اور بیمے کی رقم ادا کرنے والی ہے جیسا کہ بجلی 'گیس اور پانی کے بل بھی ابھی تک ادا نہیں ہو سکا.
دیوار میں ہی کسی جگہ سے ایک پیغام نشر ہوا اور برقی روشینوں میں یادیں دبے پاؤں میموری ٹیپ پر چلنے لگیں
"آٹھ بج کےایک منٹ' ٹک ٹاک'آٹھ بج کے ایک منٹ!
یہ سکول جانے کا وقت ہے 'دفتر کی تیاری کرو 'جلدی جلدی آٹھ بج گئے ہیں"
لیکن نہ تو کسی کے قدموں کی چاپ نےدبیز قالین روندا اور نہ ہی دروازہ کھلنے اور بند ہونے سے پیدا ہونے والی کھٹکٹھاہٹ کا ہی احساس بیدار ہوا. باہر بارش ہو رہی تھی.
سامنےدیوار کے ساتھ لگے ڈبے میں سے جس میں موسم کا حال بتانے کا سسٹم نصب تھا
سرگوشی ابھری
بارش' بارش 'بارش ایک طرف ہٹ جاؤ
اور آج باہر نکلنے کے لیے برساتی پہن لو"
خالی ویران گھر میں بارش کے قطروں کی صدائے بازگشت گونج رہی تھی۔
باہر گیراج کی طرف سے کوئی آواز پیدا ہوئی اور اس کا دروازہ کھلا جس سے یہ راز فاش ہوگیا تھا کہ وہاں ایک کار کھڑی کب سے کسی کا انتظار کر رہی تھی لیکن جب لمبے انتظار کے بعد کوئی نہ آیا تو گیراج کا دروازہ خود ہی بند ہوگیا.
آٹھ بج کے تیس منٹ ہوگئے تھے
اور صبح کےوقت جو ناشتے میں انڈے بنے تھے وہ جھریوں زدہ چہرے کی مانند سکڑے پڑے تھے اور ڈبل روٹی کے ٹکڑے سخت ہو چکے تھے.
دھات کی ہلکی کیل نے جب سنک کو رگڑ کر صاف کرنا شروع کیا تھا تو سنک کی گردن سے گھومتا ہوا گرم پانی ڈش واشر میں برتنوں کو دھو رہا تھا
اور برتن دھل کر جب خشک ہوئے تو خوب چمک رہے تھے .
"نو بج کے پندرہ منٹ "
گھڑی نے پھر سے آواز لگائی
"گھر کو صاف کرنے کا وقت ہوگیا ہے "
دیوار میں بنے چھوٹے سے بل نما گھر سے چوہوں سے مشابہ چھوٹےروبوٹ برآمد ہوئے جن کے دانتوں میں بھی چوہوں کی سی تیزی تھی
روبوٹ رینگتے ہوئے گھر میں بکھری ہوئی دھاتوں اور ربڑ کےٹکڑوں کو صاف کرنے لگے تھے
کرسیوں کے گرد تیزی سے گھومتے ہوئے یہ روبوٹ اپنی مونچھوں کے بل دوڑ رہے تھے
بچھے ہوئے کمبل سے وہ اس قدر نرمی سے گرد صاف کر رہے تھے جیسے کوئی شیرخوار بچہ وہاں ہلکی نیند میں ہو.
صفائی کے بعد روبوٹ اپنے بل میں یوں گھس گئے تھے کہ جیسے خفیہ طور پر کسی پر دھاوا بول کے آئے ہیں
ان کی گلابی برقی آنکھیں جو پہلے چمک رہی تھیں اب مرجھا چکی تھیں اور گھر صاف ستھرا تھا.
دس بج گئے تھے اور سورج بارش کے عقب سے نمودار ہو چکا تھا راکھ اور ملبے کے شہرمیں گھر بالکل تنہا کھڑا تھا
یہاں صرف یہی گھر تھاجو ابھی اپنی بنیاد پر قائم تھا
شام کےوقت اس تباہ حال شہر میں اٹھنے والے تابکاری کے شعلے دور سے دیکھے جا سکتے تھے.
دس بج کے پندرہ منٹ ہو چکے تھے اور باغ میں موجود فوارے نے اپنے وجود کو گھماتے ہوئے اپنی بوندوں کو منتشر کرنا شروع کر دیا تھا
سنہری دھوپ اور ٹھنڈی ہوا میں گھاس پر گرتی پانی کی بوندیں آب وتاب سے چمک رہی تھیں
دوسری طرف پانی کھڑکی کے شیشوں پر ضرب لگاتا ہوا گھر کے مغربی جانب پہنچ رہاتھا جہاں پر جلے ہوئے گھر کا سیاہی مائل حصہ اس کے سفید پینٹ کے بالکل متوازی تھا.
گھر کا مغربی رخ جلنے سے سیاہ ہو چکا تھااس گھر کے صرف پانچ مختصر حصے ہی جلنے سے محفوظ رہے تھے اور یہیں پر ایک زخمی تصویر لٹک رہی تھی
اس تصویر میں ایک شخص گھاس کاٹنے والی مشین لیے کھڑا تھا اوراس کے ساتھ ہی ایک عورت باغ میں پھول توڑنے کی غرض سے نیچے جھکی ہوئی تھی یہ ساکن لمحے جو اس تصویر میں قید تھے کئی جگہوں سے جلے ہوئے تھے لیکن ایک طاقتور لمحہ بھی تھا جو ابھی تک سالم تھا اور اس تصویر میں مقید تھا اور یہ منظر ایک چھوٹے لڑکے کے گیند پھینکنے کا تھا اس کے ہاتھ فضا میں بلند تھے اور اس کے سامنے کھڑی لڑکی اپنے ہاتھوں کو اوپر اٹھائے اسے تھامنا چاہتی تھی لیکن گیند ویسے ہی ہوا میں معلق سارے منظر سمیت ساکن تصویری لمحوں میں مقید ہے.
ایک آدمی ایک عورت دو بچے اور گیند پانچ رنگوں کے دھبوں کا وجود بن چکے ہیں جو جلی ہوئی دیوار کی سیاہی کی تہوں میں بھی ایک استراحت کی کیفیت پیدا کیے ہوئے تھے.
نرمی سے برستی ہوئی بارش کی بوندیں باغ میں روشنیوں کا سا تصور پیدا کیے ہوئے تھیں ہر طرف بارش کی بوندیں جگمگا رہی تھیں.
ہر گزرتے دن کے ساتھ گھر نے اپنے سکون کو بر قرار بھی رکھا ہوا تھا وہ کس طر ح احتیاط سے پوچھتا تھا کہ وہاں کون گیا ہے? اور وہاں کا کوڈ کس کو معلوم ہے؟
لیکن بوسیدہ رنگ لیے اکیلی لومڑیوں اور نالہ کرتی ہوئی بلیوں سے کوئی جواب موصول نہ ہوتا
اپنی حفاظت کے لیے گھر نے اپنی کھڑکیاں بند کر رکھی تھی وحشت زدہ دھندلاہٹ میں کسی حیادار لڑکی کی طرح جو اپنی حفاظت کے لیے خود ہی لاشعوری طور پر ہوشیار رہتی ہے.
اگر کوئی چڑیا کھڑکی کے کنارے بیٹھی اس کے شیشے سے اپنی چونچ بھی رگڑتی تو پورا گھر کپکپاہٹ کی لپیٹ میں آجاتا
گھر کو سائے کھانے کو دوڑتے تھے وہ پرندہ خود ہی ستارے کی مانند غائب ہو جاتا .
اس گھر کو کوئی نہیں چھو سکتا ایک چھوٹا پرندہ بھی نہیں
گھر ایک طرح سے ایک قربان گاہ تھی جس میں دس ہزار خدمت گزارتھے تما م چھوٹے بڑے کام میں مصروف رہتے اور مل کر مذہبی گیت گاتے تھے
لیکن اب جب ان کے ساتھ خدا بھی چلے گئے تھے مگر مذہبی رسموں کا احمقانہ بے فائدہ سلسلہ ابھی تک جاری تھا.
دوپہر کے گیارہ بج چکے تھے
ایک کتاکانپتے ہوئے آہیں بھرتے ہوئے سامنےڈیوڑھی میں موجود تھا دروازے نے کتے کی آواز کو پہچان لیا تھا اور اس کے لیے کھل گیا تھا
کتا جب گھر میں داخل ہونے لگا تو سائے میں وہ یکدم بہت فربہ اور بڑا لگا تھا
لیکن اصل میں ماس کی پتلی تہوں میں صرف ہڈیاں تھیں جو اس کے دکھنے والے زخموں کو ڈھانپے ہوئے تھیں.
کتا گھر کے ایک کونےسےدوسرے کونے تک مٹی بھرے پاؤں کے نشان چھوڑتے ہوئے حرکت پذیر تھا اس کے پیچھے چھوٹے روبوٹ جلدی جلدی مٹی کوصاف کرتے جاتے تھے وہ غصے میں تھے کہ انہیں دوبارہ صفائی کی زحمت اٹھانی پڑ رہی تھی
دروازے کے نیچے سے کوئی پتا تک گھر میں داخل نہیں ہوا تھا لیکن جیسے ہی دیوار میں لگی کھڑکیاں ہواسے کھلتی تو پیتل کے بنے روبوٹ چوکس ہو جاتے اوراس ناگوار گرد, بالوں اور کاغذ کو جو ہوا کے دوش پر گھر میں آئے تھے اپنے مضبوط دانتوں سے پکڑ لیتے اور صفائی کے بعد اپنے بل نما گھر میں گھس جاتے تھے.
گھر کی جو نالی نیچے تہہ خانے تک جاتی تھی وہاں آہیں بھرتے ہوئے فضلے کو جلانے اور نکاسی کا عمل جاری تھا جیسے کوئی برائی اندھیرے میں بیٹھی سسک رہی ہو.
کتا سیڑھیوں سے اوپر چلا گیا تھا اور ہسٹریائی انداز میں بھونکتے ہوئے ایک سے دوسرے دروازے تک چکر کاٹ رہا تھا اور آخرکار اس کو یہ بات تسلیم کرنی پڑتی ہے جیسے گھر نے اس دکھ کو مان لیا تھا کہ وہاں صرف خاموشی بستی ہے اور کچھ بھی نہیں
کتا سوں سوں کرتا ہوا باورچی خانے کے دروازے پر اپنے ناخن مارتا ہے بند دراوزے کے پیچھے چولہا پین کیک بنارہا تھا جس کی خوشبو نے پورے گھر کو معطر کر رکھا تھا
کتا منہ ہی منہ میں لعاب نکالتے ہوئے پاگلوں کی طرح خالی باتیں کرتاہوا دروازے کے سامنے لیٹ گیا تھا پھر وہ اٹھتا ہے اور بے تابی کے عالم میں دائرے کی صورت چکر لگاتا ہوا اپنی دم کو لگاتار کاٹتا ہے اور اسی پاگل پن میں وہ اپنی جان گنوا دیتا ہے.
کئی گھنٹوں سے اس کی لاش پارلر کے سامنےپڑی تھی
دو بج گئے ہیں حسب معمول گھڑی کی آواز سنائی دیتی ہے
آخر کار نفاست کی حس بھی زوال پذیر ہونا شروع ہوچکی تھی
روبوٹ کا دستہ گنگناتے ہوئے آہستہ سے اپنے بل سے باہر آیا تھا جیسے برقی ہوا سے سیاہی مائل سفید پھول آندھی کی زد میں آکے بکھر گئے ہوں
دو بج کے پندرہ منٹ اور کتے کی لاش وہاں سے غائب تھی.
گودام میں غلاظت جلانے والی بھٹی میں سے اچانک ایک چنگاری گھومتی ہوئی آتش دان سے باہر نکلی تھی
دو بج کے پینتس منٹ
میز کی گز رگاہ کے ساتھ ہی کھڑکی سے دیکھیں تو ٹماٹروں کی نئی کونپلیں پھوٹ رہی تھیں اور ساتھ ہی پیڈ پر رکھے کارڈ ہوا کی لہروں سے پھڑ پھڑا رہے تھے
ایک ابابیل شاہ بلوط کی لکڑی کے بنے بینچ پر نمودارتھا اور میز پرانڈے اور سینڈوچ پڑے تھے ہر شے پر دھندلی چپ کی تہہ جمی تھی اورکارڈ کو کھلینے کے لیے کسی نے نہیں اٹھایا تھا
چار بجنے کے قریب تھے اور جیسے دن بھر کی تھکن لیے تتلیاں باغوں سے کوچ کرتی ہیں ہیں ایسے ہی میزخود کوسمیٹ لیا تھا
چار بج کے 30 منٹ
بچوں کے کمرے کی دیواریں چمکتی ہیں یہاں ایک چھوٹا سا جنگل تھا جہاں جانور اپنی اپنی شکلوں میں ڈھلنے لگے تھے
وہ ایک سراب کی دنیا تھی
جہاں پیلے زرافے ,نیلے شیر ,گلابی غزال اور گل یاس کا رنگ لیے چیتے شیشے کی الماری میں اکڑے کھڑے تھے اور مختلف رنگ ان کے گرد جھلملا رہے تھے
رازداری سے چلنے والی فلم کی ٹیپ گراری میں سے گزرتےہوئے دوبارہ چلنے لگی تھی اور اس کے چلنے سے بچوں کے کمروں کی دیواروں میں جان سی پڑ گئی تھی
بچوں کے کمروں کا فرش بھربھرا سا کسی چراگاہ کا منظر پیش کر رہا تھا
فلم تیزی سے چلتے ہوئے ایک کے بعد دوسرے واقعے کی منظر آرائی دکھاتی جا رہی تھی
دھات کی بنی چمکدار مچھلی , لوہے کا بنا گیند سب منظر کے حصے سے جڑے تھے
اور تتلیاں جو باریک رگیں لیے ڈگمگاتے ہوئے خوشبووں کے درمیاں جانوروں کے ساتھ موجود تھیں جیسے وہ بھنبھناتے ہوئے ان کا کھوج لگا رہی ہوں ان کی بھنبھناہٹ بیل کے ڈکارنے سے ملتی تھی
ایک سست مکھی شیر کے اوپر اور ایک بڑبڑاتی ہوئی امریکی زرافے کے پاؤں میں پڑی تھی
اس جنگل میں برستی ہوئی بارش کی سرسراہٹ ایسے لگتی تھی جیسے خزاں میں کوئی بکھرے ہوئے پتوں پر ننگے پاؤں چلتا ہے
فاصلوں میں تحلیل ہونے لگی تھیں اور جنگل راکھ کا ڈھیر ہونے والا تھا دور میلوں کے فاصلے تک کبھی نہ ختم ہونے والا آسمان پھیلا ہوا تھا
اور جانور پانی کا تالاب دیکھ کر رکے نظر آرہے تھے.
یہ وقت بچوں کے لیے وقف تھا
اب پانچ بج چکے تھے باتھ روم میں نہانے کے لیے گرم پانی تیار تھا
6,7,8 وقت سرکتا گیا اور رات کے کھانے کا وقت ہوگیا تھا اور صاف برتن سلیقے سے میز پر جڑے تھے
دھات کے بنے اسٹینڈ کے مقابل آتشدان میں شعلے لپک رہے تھے سگار جل رہا تھا اور اس پر سرمئی راکھ موجود تھی
سگار سلگ رہا تھا اور کبھی نہ ختم ہوا انتظار جاری تھا.
9 بج گئے تھے
رات کویہاں سردی بڑھ جاتی ہے اس لیے بستر اپنی گرماہٹ کو برقرار رکھے ہوئے تھے
9بج کے 5 منٹ پر ایک آواز سٹڈی روم سے ابھرتی ہے
"مسٹر میکیلان آپ آج شام کو کونسی نظم سننا پسند کریں گے"
گھر نے چپ سادھ رکھی تھی آواز دوبارہ آتی ہے
اگر آپ نے اپنی پسند کا اظہار نہ کیا تو میں ہی کوئی نظم چن لوں گی"
آواز کے ساتھ ہی ہلکی موسیقی خالی گھر میں گونجنے لگی تھی
"سارا اسٹیڈال کی نظم میں نے منتخب کر لی ہے,
میں پھر سے درخواست کرتی ہوں اپنی پسند بتائیں"
جب خاموشی برقرار رہتی ہے تو نظم پڑھنے کی آواز دیوارو در سے ٹکرانے لگتی ہے
وہ وہاں آئیں گے نرمی سے برستی بارش اود مٹی کی مہک
دائروں میں رقص کرتی اور چہکتی ابابیل
اندھیرے میں تالاب میں بولتے مینڈک
اور دن میں لرزتے جنگلی آلوچے کے درخت
جب سرخ چڑیا اپنے پنکھ پھیلائے مستانہ وار فصیل پر گیت گائے گی
اور کسی کو جنگ کی خبر نہ ہوگی
جب جنگ ہوگی
اور کسی کو ناگوار نہ گزرے گا جب درخت اور پرندے دونوں ہی مٹ جائیں گے
اور بہار خود ہی جاگے گی
اور رات جان نہ پائے گی
کہ ہم کوچ کر لیں گے
آگ پتھر کے آتشدان میں جل رہی تھی اور سگار کی راکھ سینی میں پڑی تھی کرسیاں ایک دوسرے کے آمنے سامنے اپنے درمیان خاموشی لیے خالی پڑیں تھیں
اور ہلکی موسیقی کی آواز متواتر سے آرہی تھی
10 بج گئے اور گھر رفتہ رفتہ مرنے لگا تھا
ہوا کے چلنے سے باروچی خانے کی کھڑکی کے دوسری جانب درخت کی ٹہنی اپنی اصل سے جدا ہو کے گرنے لگی تھی
صفائی کرنے کا کیمیائی مادہ اور بوتلوں کے ٹکڑے چولہے پر بکھرنے لگے تھے اور اسی لمحے کمرا جل رہاتھا
آگ, کوئی چلایا تھا گھر کی ساری بتیاں روشن ہوتی ہیں اور چھت سے پانی کا پائپ کھلتا ہے
کیمیائی مادہ فرش پر گرا پڑا تھا اور آگ باورچی خانے سے ہوتی ہوئی پورے گھر میں پھیلنے لگی تھی
آگ ,آگ آگ بہت سی آوازیں ایک ساتھ بلند ہوتی ہیں
گھر نے خود کو بچانے کی پوری کوشش کی تھی دروازے ایک دم بند ہوئے تھے لیکن کھڑکیوں سے آنے والی ہوا آگ کو بڑھاوا دے رہی تھی
آگ کی تپش کی وجہ سے کھڑکیاں ٹکڑوں میں بٹنے لگیں تھیں
گھر جو روئے زمیں پر اپنی اصل حقیت کے ساتھ اپنی بنیاد پر قائم تھا اسی گھر میں آگ اپنے ہزاروں شعلوں کے ساتھ کمروں سے ہوتی ہوئی سیڑھیوں تک جا پہنچی تھی
دیوار سے چھوٹے روبوٹ جلدی سے برآمد ہوئے اور اپنے تیز دانتوں سے دھاریوں کی صورت پانی کا چھرکاؤ کرنے لگے تھےلیکن بہت دیر ہوتی جا رہی تھی پانی کے پائپ نے آہیں بھرتے ہوئےخودکو سمیٹنا شروع کر دیا تھااور دیوار میں سے برسنے والے پانی کے قطرے بھی رفتہ رفتہ دم توڑنے لگے تھے
ذخیرہ کیاہوا پانی جو کئی دنوں سے سکوت بھرے گھر میں برتن دھونے نہانے کے لیے استعمال ہو رہا تھا اب ختم ہونے کے قریب تھا.
سیڑھیاں جل چکی تھیں اوپر حال میں موجود پیکاسو اور میٹاسس کی نزاکت سے بنی تصویروں میں رنگوں کے بجائے سیاہی جھلک رہی تھی آگ نے نفاست سے کینوس کو راکھ میں بدل دیا تھا
آگ سونے والے کمروں کھڑکیوں پر لگے جھلملاتے پروں میں اپنی سیاہی گھولتے ہوئے آگے بڑھتے جا رہی تھی
بالاخانے کے چور دروازے سے اندھے روبوٹ کی صورت امدادی کارکن نمودار ہوئے تھے جو پرجوش ہو کے پانی اور سبز کیمیائی مادے سے آگ بجھانے کی کوشش میں مصروف تھے
آگ کم ہونا شروع ہو جاتی ہے ایسے جیسے ہاتھی مرے ہوئے سانپ کا بغور جائزہ لینے کے بعد اپنے قدم پیچھے ہٹاناشروع کر دیتا ہے
پورے گھر میں آگ کے شعلوں کا زہر پھیل چکا تھاآگ اس قدر تیز تھی کہ اس کے شعلے گھر کے باہر تک لپکتے ہوئے اوپر کی منزل تک جا چکے تھے جہاں پانی کا نل موجود تھا آگ نے ہر نجی کمرے کا رخ کیا تھا اور وہاں موجود ہر چیز کو راکھ میں بدل دیاتھا
گھر دہشت زدہ ہو کے لرز رہا تھا لکڑی کی بنی چیزیں ڈھانچوں کی صورت اختیار کر چکی تھیں
آگ کی حرارت سے گھر میں موجود بجلی کی موٹی تاروں سے نیلی پیلی چھوٹی چھوٹی کئی تاریں نکل آئی تھیں
جیسے علاج کی غرض سےجلد کوچیرنے کےبعد سرجن کے سامنے تمام نسیں کھل جاتی ہیں
باہر سے آتی ہوئی ہوا سے اٹھنے والی بھاپ نے گھر کو اذیت میں مبتلا کر رکھا تھا
"مدد کرو,مدد کرو
بھاگو,بھاگو"
تپش شیشوں میں دراڈیں ڈال چکی تھی
کئی آوازیں ماتم کناں تھیں
"آگ ,آگ بھاگو,بھاگو"
دکھ بھرا گیت بچوں کے کمروں سے ابھرتا ہے
بہت سی آوازیں ایک ساتھ بلند تھی اونچی نیچی چھوٹوں بڑوں کی آوازیں
جنگل تنہا جل رہا تھااس کی سانس کی ڈوری ٹوٹ رہی تھی
سب ہی اکیلے تھے اور آوازیں درد سے پھٹ رہی تھیں
آگ کی حرارت نے شاہ بلوط کے درخت کو چیر دیا تھا
ایک ,دو, تین, چار
آہستہ آہستہ ساری آوازیں مرنے لگیں تھیں
بچوں کے کمروں کا جنگل بھسم ہو چکا تھا نیلے شیر کی دھاڑ گم ہو گئی تھی
زرافے قیدوبند کی صعوبت اور چیتے دائروں کی صورت ہی میں جل کر اپنا رنگ کھو چکے تھے
آگ سے پہلے دس لاکھ جانور بھاگے تھےاور پھر سب ہی بھاپ کے دریا سے اٹھنے والے بخارات میں ہی معدوم ہو گئے تھے
دس اور آوازیں دم توڑ چکی تھیں اس آخری لمحے جب آگ منہ زور طوفان کی طرح پھیلی تھی جو آوازیں اٹھی تھیں وہ دل بہلانے والا گیت گاتی تھیں
آوازیں پھرسے سنائی دی جا سکتی ہیں جب ناموں کا اعلان ہو جب موسیقی کی دھن بجتی ہےجب گھاس کاٹنے والی مشین آواز پیدا کرتی ہے آوازیں پھر سے زندہ ہو سکتی ہیں
کتنی چیزیں وقوع پذیر ہوتی رہتی ہیں جیسے گھڑیوں کی دکان سے ایک گھڑی خراب ہونے کی وجہ سے دوسری بدل لی جاتی ہے
جب وقت گھنٹوں کی صورت ایک دوسرے کے پیچھے پاگل پن میں گزرتا چلا جاتا ہے
جب جنونی کیفیت میں تذبذب کےکئی منظر برقرار رہتے ہیں
وہاں ہر چیز میں ہم آہنگی بہر حال موجود تھی
گانے کی آواز میں,دکھ سے لبریز قہقہے میں نوحہ کناں چیخ وپکار میں
ایک آخری بار چوہے جب بہاردی سے نکلے تھےتو آگ نے انہیں راکھ میں بدل دیا تھا
ایک آواز اب بھی موجود تھی جو پرشکو ہ تھی آگ کے ہر دل سوز منظر کےبعد بھی جاہ وجلال کی کیفیت برقرار رکھے ہوئے تھی وہ آواز نظم پڑ ھنے کی تھی جو سٹڈی روم سے آرہی تھی حتی کہ تمام سرکٹ اور تاریں پژ مردہ پڑی تھیں
اچانک سے اٹھنے والی آگ نے گھر کی سطح کو ہموار کر چھوڑا تھاجیسے یہ گھر اس نقشے پر بنا ہو جس میں کوئی کھڑکی ہو نہ ہی دروازہ
آگ کسی مغرور حسینہ کی طرح پھولتے ہوئے اپنے دامن سے اٹھنے والی چنگاریوں سے تباہی مچا چکی تھی
آگ سے پہلے باورچی خانے میں چولہے کو دیکھا جا سکتا تھاجو کسی دماغی مریض کی طرح بغیر کچھ سوچے سمجھے کھانا بنا رہا تھا جس میں دس انڈے,چھ ڈبل روٹی کے ٹکڑےاور سور کے گوشت کے پارچے شامل تھے یہ سارا کھانا آگ ہڑپ کر چکی تھی
چولہے نے اپنا کام آہیں بھرتے ہوئے اسی لمحے دوبارہ شروع کر لیا تھا
چوبارہ اور پارلر باورچی خانے پر ڈھ گئے تھے
فریج ,آرام دہ کرسی ,فلم ٹیپ,سرکٹ اور پلنگ خستہ حالی کا بیاں تھے اور اس تباہ حالی پر بڑے ہجوم کی رونے آوازیں متواتر آ رہی تھیں
دھواں اور خاموشی بہت وسیع اور دھندلاہٹ آمیز سکوت
صبح سورج کی کرنیں آہستہ سےمشرق سے نمودار ہوتی ہیں مسمار شدہ ملبے کے بیچ ایک ہی دیوار تنہا کھڑی تھی اور اسی دیوار سے ایک آخری آواز آتی ہے آوا ز مسلسل آتی رہتی ہے
سورج پامال شدہ گھروندوں اور ان سے نکلتی ہوئی بھاپ کے گرد آسمان پر پورے طورسے طلوع ہوچکا تھا
لیکن آواز مسلسل آ رہی تھی
"آج اگست 2026 ہے
آج اگست2026ہے"
آج اگست………………..
Original Title: There Will Come Soft Rains
Written by:
Ray Douglas Bradbury (August 22, 1920 – June 5, 2012) was an American author and screenwriter. He worked in a variety of genres, including fantasy, science fiction, horror, and mystery fiction.
***
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 212 : ہلکی بارش آنے کو ہے!
مصنف: رے برڈبری (امریکہ)
ترجمہ: حنا علی (لاہور، پاکستان)