رواقیت ایک اخلافی اور فلسفیانہ طرز زیست ہے،جس میں بہترین زندگی گذارنے کے اصول وانداز بیان کئے گئے ہیں،یہ تین سو سال قبل مسیح کا وہ اخلاقی فکر وفلسفہ ہے،جس کے اثرات وتعلیمات سے یونان واٹلی کی عمومی زندگی بھی متاثر ہوئی اور بعدازاں یہ اخلاقی نظام فلسفہ عیسائی تعلیمات کیساتھ بھی ہم آہنگ ہو گیا۔اس فلسفے کا بانی زینو فلسفی تھا جس نے ۴۴۳ قبل مسیح میں یونان میں اس فلسفے کی تعلیمات کا آغاز اپنی تقاریر سے کیا تھا،وہ کھلے بر آمدے میں لوگوں کو اکھٹا کرتا اور اخلاقی
وفلسفیانہ لیکچرز سے بہترین زندگی گذارنے کے طریقے اور اصول بتاتا ۔اسی بنا پر اس بر آمدے کی رعائیت سے اس فلسفے کا نام سٹوئے سزم پڑ گیاکیونکہ یونانی زبان میں برآمدے کو سٹوا کہا جاتا ہے،اسکی تعلیمات پر سقراط کے انتقادی فلسفہ کی جھکیاں بھی نمایاں تھیں۔یہ لوگ اخلاق اقدار کو اضافی نہیں سمجھتے تھے۔بلکہ ضمیر واخلاق کو عقلی بنیادوں پر متعین کرتے تھے۔ضمیر عقلی ومنطقی فیصلوں اور تجربات کی آماجگاہ ہے،جس کی وجہ سے انکے ہاں انسانی ضمیر و اخلاق کو اہمیت حاصل تھی۔کیونکہ نیکی اس فلسفہ کی روح روان ہے۔نیکی کا تصور برائے نیکی ہے،جو ذ اتی سود وزیاں اور نرگسیت سے آزاد ہے۔یہ فلسفی فطری زندگی گذارنے پر زور دیتے تھے،کہ آدمی جتنا زیادہ فطرت کے قریب ہو گا وہ علم ومعرفت کا مالک ہو گا۔رفتار زمانہ کے ہنگاموں سے کنارہ کشی ہی اسکو مسرت سے ہمکنار کر سکتی ہے۔وہ کائنات وخدا کو ایک ہی شے سمجھتے تھے،کہ نظام کائنات علت ومعلول کے رشتوں وقوانین کے تحت چل رہا ہے اور اس حرکت میں خدائی روح کار فرما ہے،خالق کائنات کوئی الگ ابراہیمی مذاہب کی طرح وجود نہیں رکھتا،بلکہ اسکے اندر سرائیت کئے ہوئے ہے۔یعنی حقیقی دنیا میں نفس، عنصر فعلی اور مادہ عنصر انفعالی ہے۔حرارت و آکسیجن ہی حیات کی اصل ہے۔اس آکسیجن کے اندرسے ہی حیات کا ظہور اور فنا ہوتا ہے۔سائکلنگ سسٹم سے ہی نقش بنتے اور مٹتے ہیں۔اور فطرت سے قربت اختیار کرنے سے ہی مسائل وغموں سے نجات ممکن ہے۔ فطرت میں جہد للبقا کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ فطرت کے قوانین سب پر مساوی لاگو ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے رواقی مادیت پسند تھے،روح کی دوئی کے قائل نہیں تھے۔رواقی فلسفی سنیکا بہترین اسلوب حیات اختیار کرنے والوں کے بارے میں کہتا ہے کہ ان کا طرز زندگی فلسفیانہ ہوتا ہے،وہ اپنے حال کا تعین ماضی و حال کے تناظر میں کرتے ہیں،مگر دونوں جہانوں سے بے نیاز بھی ہوتے ہیں۔,,ان تمام لوگوں میں وہ لوگ فلسفہ ودانش سے شغف رکھتے ہیں اور فرصت کے ایام سے اسکو پڑھتے ہیں،وہ حقیقی زندگی گذارتے ہیں۔وہ صرف اپنے موجودہ ایام پر ہی اکتفا نہیں کرتے،بلکہ ہر عہد کو اپنے اندر سمو لیتے ہیں۔ماضی کی تمامتر دانش کو حال کے خزینے میں جمع کر لیتے ہیں۔،،رواقی علم ودانش کے بغیر زندگی کو بے معنی سمجھتے ہیں۔زندگی کو بامعنی اور پرمسرت بنانے کے لئے انکے نزدیک منطقی واستدلالی علم کا ہونا لازمی ہے،جو دانش سے ہم آہنگ ہو کر بلند تر مسرت آفرینی کا باعث بنے۔وہ مسرت آفرینی مادی لذات میں نہیں،بلکہ ضبط نفس میں پوشیدہ ہے۔ضبط نفس سے انکی مراد دولت،شہرت،طاقت اور صحت جیسی نعمتوں سے بھی رغبت رکھنے کی ضرورت نہیں۔یہ سب انسان کا سکون چھین لیتی ہیں۔ عقلی و روحانی مسرت دائمی ہوتی ہے،مادی خوشی اکتاہٹ کا سبب بنتی ہے۔انسان کا کام اپنے خیالات پر قابو رکھنا ہے،ہمارے عقائد و نظریات ہمیں زیادہ پریشان کرتے ہیں جو خارجی دنیا کے بارے میں ہم نے قائم کئے ہوتے ہیں،حالانکہ وہ چیزیں خارج میں نہیں ہوتی،بلکہ ہمارے خیالات ہوتے ہیں جنہوں نے انکے بارے میں رائے قائم کی ہوتی ہے،اور اکثر غلط ججمنٹ ہوتی ہے۔انسان کو بیرونی خراب خالات سے زیادہ اپنے خیال کی درستگی کی ضرورت ہے۔ سینیکا اس حوالے سے کہتا ہے کہ ہم نقصان ہونے سے زیادہ اس کے خوف سے خوفزدہ رہتے ہیں،،انسان کو غم میں مبتلا کرنے والی چیز وہ بے بنیاد خوف ہے جس نے شاہد کبھی واقع نہیں ہونا،مگر احساس خوف مرنے سے پہلے آدمی کو مار دیتا ہے۔راوقیت انسان کو ہر طرح کے خوف سے آزاد کر کے جینا سکھاتی ہے،کہ صرف انسان کو حال میں جینا چائیے،مستقبل کی پیش بینی نہیں کی جا سکتی۔اور ماضی نے پلٹ کر آنا نہیں،بے جا خوف مسرت و خوشی کا سہاگ لوٹ لیتا ہے۔ ا س میں بھی کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ کسی شے کے بارے میں ثلط قائم کی گئی رائے اسکے بنفسہ غلط ہونے سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔غلط رائے وعقائد زیادہ گمراہ کن اور فساد فی الارض کا موجب بنتے ہیں،اس بنا پر رواقی تحلیل نفسی اور تزکیہ نفس پر زیادہ زور دیتے ہیں۔انکی تان تصوریت و وجدان کے بر عکس عقلی ومنطقی دلیل وبراہین پر جا کر ٹوٹتی ہے۔کہ مرشد اول و آخر عقل ہی ہے۔بقول زینو,, واضح تصورات صداقت کا معیار ہوتے ہیں،،
رواقیت دانشمندی کو سب سے بڑی خیر ونیکی گردانتے ہیں،دانشمندی ہی قدرت وفطرت کا وہ عظیم تحفہ ہے جو صحیح و غلط میں امتیاز قائم کرتا ہے،معائب ومعاسن میں تفریق کرتا ہے،یہ ایک طرح کی انتقادی بصیرت ہے۔انصاف،بہادری،حوصلہ مندی وصبر جیسی خوبیاں اپنی جگہ اسی وقت تک قائم رہ سکتی ہیں جب ان کو استعمال اور کنٹرول کرنی والی دانش موجود ہو اسلئے رواقیوں کے نزدیک دانش سب سے بڑی نیکی یا خوبی ہے،درست وقت پر درست فیصلے کرنا بہترین نتائج وثمرات پیدا کرتا ہے،انصاف کے روشن آفتاب سے ہر طرح کی خیر کی شعاعیں پھوٹتی ہیں،مگر دانشمندی کے بغیر انصاف بھی اپنے اوج کمال تک نہیں پہنچ سکتا،بہادری احمقانہ پن کا نام نہیں،بلند تر مقاصد کے لئے جدو جہد اور اپنی جان کو خطرات میں ڈالنے کا نام ہے۔یہ دانش ہی ہے جو اس کا فیصلہ کرتی ہے،یہاں بلند تر مقصد کے لئے بے خطر آتش نمرود میں کودنے کی ترغیب نہیں بلکہ عقلی فیصلہ ہے،جو روزمرہ کی زندگی میں عام فرد کو بھی پیش آسکتا ہے،بصیرت ہی صبرو استقامت اختیار کرنے کا فیصلہ کرتی ہے،ورنہ بے صبری کا انجام ندامت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔اسطرح انسان فطری زندگی کے قریب اور مثالی اخلاق کا نمونہ بن جاتا ہے۔رواقیوں کے نزدیک دانش یہ ہے کہ بندوق کب اور کہاں چلائی جائے اور کہاں اس کا استعمال ممنوع ہے۔یہ روز مرہ کی عمومی دانش ہے،مگر اس دانش سے اکثریت نا بلد ہوتی ہے۔لیکن با بائے معرفتsage دانش وحکمت کے ذریعے فطرت سے ہم آہنگ ہو کر اس مقام تک پہنچ جاتا ہے۔وہ تنہائی اور ریاض کو سکون و دانش کے حصول کے لئے ضروری قرار دیتے ہیں۔وہ باطنی زندگی کی تطہیر کو ضروری قرار ر دیتے ہیں،وہ ہر اس شے کو غیر ضروری سمجھتے ہیں جو آدمی کی دسترس سے باہر ہو۔دکھ وغم کے اظہار کے برعکس وہ تلخیء ایام کوہنس کر پی جانے کو ترجیح دیتے ہیں،کہ یہ وہ چیز ہے جو ہماری دسترس سے باہر ہے۔ پی جا ایام کی تلخی کو بھی ہنس کر ناصر غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزہ رکھا ہے۔مارکوس کہتا ہے۔کہ تم دریا کی لہروں میں ایک مضبوط چٹان کی طرح ھو،جو اس کے دائیں بایئں اور اوپر سے گذرتی ہیں،مگر اسکو ہلا نہیں سکتیں۔،،اس کے لئے ضروری ہے کہ تم اندر سے مضبوط ہو اور حالات پر عقل کی گہری گرفت ہے۔عمل کے بغیر جذبات کنٹرول کرنا بے معنی ہے۔انفعالیت کا خاتمہ فعال ہونے سے ہی ممکن ہے،یعنی نقش ہیں سب نا تمام خون جگر کے بغیر کے مصداق رواقی آرام طلبی کو گناہ سمجھتے ہیں۔مارکوس کہتا ہیکہ,, کہ دنیا کی تعمیر شجاع،انصاف پسند،عقلمند اور بردبار لوگوں نے کی۔،،اوریلس کہتا ہے,, دوسروں کی حماقتوں سے فرار ناممکن ہے،بلکہ اپنی غلطیوں سے دور رہنا چائیے،،مارکوس کے نزدیک انسان کی زندگی اسکے اپنے خیالات سے عبارت ہوتی ہے،،ایپی کیورس کہتا ہے کہ,, کوئی تمہارے عیب جتائے تو اسے کہو کہ تمہیں میرے دیگر عیبوں کا علم نہیں،،مارکوس,, دوسروں کیساتھ شائستہ سلوک کرو اور اپنے ساتھ سختی۔،،ایک منظم ذہن کی خوبی یہ ہے کہ وہ اہنی حدود میں رہے اور اپنے حلقہ احباب تک خود کو محدود رکھے،،
رواقی انسان کو عالمگیر کائناتی تناظر میں دیکھتے ہیں۔کہ تمام انسان ایک جیسے ہیں،صرف انکے درمیان محبت کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔اسٹیٹس کو کو علم و انسانیت کا دشمن قرار دیتے ہیں۔دولت شہرت طاقت اور مناصب کو اضافی اور غیر ضروری سمجھتے ہیں۔حرص ولالچ،مقابلہ بازی،نمائش،انا پرستی،تعصب وامتیاز کو برائی کے زمرے میں ڈالتے ہیں۔ سماجی،مذہبی،نسلی وعلاقائی شناختوں کو انسان کی حقیقی شناخت نہیں سمجھتے۔حقیقی شناخت انسان کا انسان ہونا ہی کافی ہے۔ دکھ درد اور غربت کو صبر کیساتھ برداشت کرنا بہتر ہے بر عکس اسکے دولت وخوشی کے حصول کے شرمناک طریقے اپنائے جائیں۔اپنی علم وطاقت کا اظہار زبان کے بر عکس عمل سے کرنے پر زور دیتا ہے،مگر خموشی ایسی طاقت ہے جو عمل کو زبان عطا کر دیتی ہے۔انسان خدا اور فطرت ماورائے عقل نہیں،آپس میں باہم جذب ہیں جسے مادی وجودیت سے رواقیت جڑ جاتی ہے۔بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ رواقی وجودی صوفی ہیں،جنکے نزدیک وجود ایک ہی ہے۔اور یہ سب مظاہر فتطرت کا اظہار ہیں۔دیگر رواقی خموشی و سنجیدگی کا فلسفہ ہے جنکے لبوں پر کبھی مسکراہٹ نہیں آتی اسکی بڑی وجہ وہ اندر سے بہت مضبوط ہوتے ہیں،لیکن اخلاقی اقدار واساطیر کے تحت وہ انسانی اخوت و بھائی چارے کے پرچارک ہیں،انکی تعلیمات کا دائرہ صرف ان تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ اخلاقی تعلیمات کم وبیش تمام مذاہب میں موجود ہیں،مگر رواقیوں کی تعلیمات میں فلسفیانہ مزاج وعقلی عنصر غالب ہے جو انکو دوسروں سے ممیز کرتا ہے، عرفان ذات کے ذریعے وہ اپنے باطن کا مطالعہ کرتے ہیں،ضبط نفس سے ہرظرح کے دباوء سے خود کو آزاد کرتے ہیں،قوت ارادی سے ہر مشکل پر قابو پاتے ہیں،دانشمندی سے ہر فیصلہ کرتے ہیں۔انکے فلسفے میں ادعائیت اس وقت ختم ہوجایہ ہے،جب فرد بدلتی صورتحال کے تحت خود کو بدل سکتا ہے،یعنی انکی تعلیمات شرطیہ ہیں،مجرد نہیں،مگر خیر کاپہلو غالب رہتا ہے۔ دوسرا اہم نکتہ یہ کہ رواقیت ایک نظام فکر نہیں بلکہ زندگی گذارنے کا انفرادی فلسفیانہ اسلوب حیات ہے جو اجتماعیت سے زیادہ انفرادی وتخصیصی اپناہیت کا حامل ہے۔مگر عصر حاضر میں جدید معاشروں میں اسکی تجدید نو ہوئی ہے،صاحب علم ودانش کے ہاں اسکو پذیرائی ملی ہے۔مغربی معاشروں میں لوگ اپنے طور پر اسکو پڑھتے لکھتے اور اپناتے ہیں،اسکی ضرورت اس وقت زیادہ بڑھ گئی ہے جب ٹیکنالوجی نے زیادہ ترقی کرلی ہے،انسان تنہا ہو گیا ہے،مصروفیت اور تنہائی ڈسنے لگی ہے ۔ tech savvyٹیک سیوی یعنی مشین کا ماہر خود ایک مشین بن گیا۔،تو ایسے میں مراقبہ و تفکر اسکو ذہنی سکون دینے میں زیادہ معاون ثابت ہوا ہے۔