قِصہ کُچھ یُوں ہے کہ راولپنڈی کے عِلاقہ رتہ امرال میں ایک کم سِن لڑکی جِس کی عُمر بارہ سال بتائی جاتی ہے اُس کے ساتھ مُسلسل دو افراد زیادتی کرتے رہے جبکہ بعد ازاں ایک اُدھیڑ عُمر محلے دار بھی اِس جُرم میں شریک ہُوا ؛ لڑکی کو ڈرا دھمکا کر ، بلیک میلنگ یا ایسے ہی کِسی ہتھکنڈوں سے خاموش رِہنے پر مجبور کِیا گیا ، لڑکی کی ماں عرصہ ہُوا فوت ہوچُکی تھی ، دُوسری ماں یعنی سوتیلی ماں بوجوہ خاوند یعنی لڑکی کے باپ سے الگ رہائش پذیر تھی اور باپ بوجہ مُلازمت دِن کے زیادہ تر اوقات گھر سے باہر رہنے پر مجبور تھا ۔ لڑکی اکیلی رہتی تھی تو اِن افراد نے اُس کی تنہائی ، کم عُمری اور ناسمجھی سے مُجرمانہ فائدہ اُٹھایا ۔
یہ واقعہ آپ میں سے اکثر افراد نے پڑھا یا سُنا ہوگا ، اُس متاثرہ بچی کی اب ایک بیٹی بھی پیدا ہُوئی ہے جو اِسلامی جمہوریہ پاکستان میں ناجائز بچی کہلائی جائے گی ، اِس لڑکی کا ریپ ابھی ختم نہیں ہُوا اور نہ ہی اُن مُجرموں کو سزا مِلنے سے اُس لڑکی کے دُکھوں کا مُداوا مُمکن ہوسکے گا ۔ ریپ کی تو یہ ابھی شُروعات ہیں ، اگر میں یہ کہوں کہ اِس لڑکی کی زِندگی اب کِسی جہنم سے کم نہیں تو یہ ہرگز غلط نہیں ہوگا ۔
اُمید ہے اِن دو پیراگرافس میں آپ اِس بھیانک جُرم کے بارے میں آگاہ ہو چُکے ہوں گے ۔ لیکن ناچیز کے لکھنے کا مقصد آپ کو یہ دِل خراش واقعہ سُنانا نہیں تھا ۔ حالیہ چند روز کے دوران سوشل میڈیا پر مُختلف ویب سائیٹس ، ویڈیو بلاگز یا پوسٹس کے کوومنٹس میں ایک عجیب وحشیانہ اور جاہلانہ سوچ سے واسطہ پڑا جومجموعی طور پر کُچھ یُوں تھی ؛
“ نو ماہ مُسلسل زیادتی کو ریپ نہیں کہا جاسکتا ، لڑکی کی عُمر بارہ سال نہیں چودہ سال ہے ، نہیں سولہ سال ہے ، لڑکی نے پہلے خُود مزے لئے اور جب معاملہ کنٹرول سے باہر ہوگیا تو باپ کو بتادِیا ، اور اِسی سے مِلتی جُلتی کئی گھٹیا باتیں ہمارے بعض پاکستانی کرتے نظر آئے ۔ “
پاکستان میں بدقسمتی سے زیادہ تر افراد کو نہ لیگل سیکس ایج کی سمجھ ہے اور نہ ہی پاکستانی قانُون consensual sex کو مانتا ہے ۔ پاکستانی قوانین کا کیا کہیں کہ یہاں جُرم اور گُناہ کو یُوں مِکس کِیا گیا ہے کہ اب عوام کو سمجھ ہی نہیں آسکتی کہ گُناہ ایک مذہبی نظریہ ہے جبکہ جُرم ایک سماجی مسئلہ ہے ۔ جہاں ریاست خُود کنفیوز ہو ، جہاں عوام کو آئے دِن کوئی نمازیں پڑھنے پر مجبور کر رہا ہو ، کہیں روزوں کے دوران سرِعام کھانا پینا جُرم ہو ، جہاں بند دروازوں کے پیچھے مرد اور عورت کی خلوت پر پولیس چھاپہ مارتی ہو ، جہاں کِسی کا شراب پینا گُناہ نہیں بلکہ جُرم ہو ایسی کنفیوز ریاست کے شہری اور بھلا کِس “ میچور “ سوچ کے حامِل ہوں گے ؟
موضوع پر واپس چلتے ہیں کہ ابھی کوئی آکر یہ بتانے کی کوشش کرے گا کہ پاکستان اِسلام کے نام پر بنا ہے اور یہاں یہی قوانین چلیں گے ۔ دیکھیں دُنیا نے صدیاں لگا کر اور بڑے مُشکل حالات سے گُزر کر کُچھ سماجی اور اخلاقی اُصول وضع کئے ہیں ۔ اُن تمام اُصولوں کی بحث تو مُمکن نہیں لیکن سیکس پر بات کرنا ضروری اور پوسٹ کا مقصد ہے اور اِس میں سب سے پہلا مرحلہ آتا ہے کہ جو افراد جِنسی عمل کر رہے ہیں کیا اُن دونوں کی آپسی رضامندی شامل ہے ؟ اگر نہیں تو یہ ریپ ہے لیکن معاملہ اِتنا سادہ ہرگِز نہیں ہے ، اگر ایک بارہ سالہ ، چودہ سالہ یا سولہ سالہ بچی یا بچہ اگر اپنی مرضی سے بھی جنسی عمل کا حِصہ بن رہا ہے یا لُطف اندوز ہو رہا ہے تو بھی یہ سیکس نہیں ریپ ہے کیونکہ اُس بچے یا بچی کو سیکس کونسینٹ کی اجازت نہیں ہے ۔ اگین میں بتا دُوں کہ ہمارے پاکستانی معاشرے میں شادی کے بغیر سیکس کا کوئی تصور موجود نہیں ہے لیکن اِس کے باوجود ایک مائنر یعنی کم عُمر سے سیکس بہرصُورت ریپ ہی کہلائے گا چاہے حالات کُچھ بھی ہوں۔
ریپ کوئی ایسی چیز نہیں کہ پہلی دفعہ ریپ ہے اور دُوسری ، تیسری یا سویں بار وُہ ریپ نہیں سیکس ہے ۔ نہیں یہ سوچ سِرے سے غلط ہے ۔ ریپ ایک continuous جُرم ہے ، اِس کو بار بار دُوہرانے سے اِس جُرم میں کمی نہیں اِضافہ ہی ہوتا ہے ۔اگر کوئی شخص کِسی کم عُمر کو ہی نہیں بلکہ بڑی عُمر کے جوان مرد یا عورت کو بھی ڈرا دھمکا کر یا بلیک میل کر کے جِنسی عمل میں شامل ہونے پر مجبُور کررہا ہے تو بھی یہ ریپ ہی کہلاتا ہے میرے عزیزو ! کیا آپ کو معلوم ہے کہ ایک عورت اگر شراب کے نشے میں دھت ہے اور آپ اُس کو سیکس پر راضی کر لیتے ہیں لیکن اگلی صُبح وُہ آپ پر ریپ کا مقدمہ درج کروائے تو آپ پر ریپ کا مقدمہ بنتا ہے ؟ برطانیہ ، یورپ ، امریکہ میں ایسے لاتعداد کیسز درج ہُوئے ہیں ، جِن میں کئی پاکستانی بھائی بالخصوص ٹیکسی ڈرائیورز حضرات بھی ملوث تھے ۔ کیوں ؟ اِس کی وجہ بڑی سادہ سی ہے اور وُہ یہ کہ جب اُس عورت ، لڑکی یا مرد سے سیکس کِیا گیا تو وُہ اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھے لہٰذا اُن کا کونسینٹ یعنی اجازت بالکل غیر متعلقہ اور بے معنی ہے ۔ کُچھ سمجھ آئی ؟
کیا ہمارے دوستوں کو میریٹل ریپ کی اِصطلاح سمجھ میں آتی ہے ؟ بُہت کم افراد اِس کو سمجھتے ہیں اور اُس سے بھی کم مانتے ہیں کہ زیادہ تر افراد شادی کو سیکس کی اجازت سمجھ لیتے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے گو پاکستانی قوانین کے تحت بھی شادی سیکس کو ایک قانُونی تحفظ ضرور فراہم کرتی ہے لیکن اِس میں بھی سیکس فریقین کی باہمی رضامندی سے ہی مُمکن ہے ورنہ متاثرہ فریق ریپ کا مقدمہ درج کرواسکتا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارا معاشرہ بے وقوفی کی حد تک ایسے معاملات کا مذاق اُڑاتا ہے اور سمجھنے سے بالکل قاصِر ہے ۔
آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ جب کبھی کِسی مسجد یا مدرسے میں کوئی قاری یا مولوی کِسی بچے کے ساتھ بدفعلی کرتا ہے تو بُہت سارے مذہبی حضرات یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ یوُنیورسٹیز میں بھی ایسا ہوتا ہے ۔ پہلی بات تو یہ کہ زیادتی کہیں بھی ہو کِسی مدرسے میں ، کِسی سُکول میں یا کِسی یُونیورسٹی میں اُس سے جُرم کی شِدت میں کوئی فرق نہیں پڑتا ، زیادتی جہاں بھی ہے وُہ زیادتی ہی ہے لیکن اگر سمجھنے کی کوشش کریں تو دو نوجوان لڑکا لڑکی آپس میں جنسی فعل سر انجام دیں تو وُہ ریپ نہیں ہے البتہ پاکستانی قوانین کے تحت وُہ جُرم ہے اور اِس جُرم کو ناچیز گُناہ تو سمجھ سکتا ہے لیکن پاکستانی قوانین اِس کو جُرم بنانے پر مصر ہیں اور ایسے ہی بعض بے سمجھ پاکستانی وِکٹم بلیمنگ اور شیمنگ کا مکروہ کام جاری رکھے ہُوئے ہیں ۔
سیکس ہراسمینٹ کا بھی یہی معاملہ ہے ، ایک ڈاکٹر اپنے مریض سے ، ایک اُستاد اپنے طالبِ علم سے کِسی بھی قِسم کے جِنسی تعلقات رکھنا تو دُور اگر اِس طرف پیش قدمی بھی کرے تو آزاد خیال یورپ میں بھی یہ ایک جُرم ہے اور اپنے پیشے سے دھوکا ۔ماضی قریب میں شرمین عُبید چنائے کی بہن کو اُس کے ڈاکٹر نے فیس بُک پر ایڈ کرنے کی کوشش کی ، اگنور کرنے پر پھر کوشش کی ، اِس کو شرمین نے سیکس ہراسمینٹ کہا اور یار دوست لگے پھبتیاں اُڑانے کہ فیس بُک پر بھیجی درخواست کیسے سیکس ہراسمینٹ ہوگئی ؟
ویل ! فیس بُک پر ایڈ درخواست بھیجنا بالکل بھی سیکس ہراسمینٹ نہیں ہے لیکن ایک ڈاکٹر کا اپنے مریض کے نام سے واقفیت ہونے یا دیگر معلومات کی بِنا پر اُس کو اپروچ کرنا ایک غلط حرکت ہے کیونکہ وُہ معلومات اُس کو ایک مریض نے بوجوہ دِی تھیں اور اِس کو سیکس ہراسمینٹ کہنا غلط نہیں ہے کیونکہ اپروچ کا بُنیادی راستہ ہی غلط ہے اور ایک ڈاکٹر کو اپنے مریض کے ساتھ انوالو ہونے کی گُنجائش نہیں دِی جاسکتی اور نہ ہی کِسی اور شُعبے سے وابستہ انسان کو اپنے کام سے متعلقہ افراد کو جنسی طور پر رابطہ کرنے کی اجازت ہے ۔ چیئرمین نیب کا حالیہ واقعہ بھی سیکس ہراسمینٹ میں اِس لئے آتا ہے کہ عورت اُن کے پاس ایک کیس کے سلسلے میں آئی تھی ، اُس عورت کا بلیک میلر ہونا ایک الگ موضوع ہے لیکن چیئرمین صاحب کا اپنے عُہدے سے نااِنصافی ایک بُہت گھٹیا معاملہ تھا۔
بات بُہت لمبی ہورہی ہے جبکہ موضوع بُہت گُنجلک ہے تو اِس کو سمیٹتے ہُوئے یہی کہوں گا کہ خُدارا اپنے بچوں کو بُنیادی جنسی معلومات sex awareness دیں ، اُن کو گُڈ یا بیڈ ٹچ سمجھائیں ، اُن کو بتائیں کہ ہم آپ کے دوست ہیں اور آپ کی کِسی بھی بے وقوفی کو ٹھیک کر سکتے ہیں تو آپ کو کِسی سے بلیک میل ہونے یا بدنامی کا ڈر نہیں ہونا چاہئیے ۔ اگر آپ نہیں بتائیں گے ، اگر سُکولز میں یہ باتیں نہیں سِکھانے دیں گے تو رتہ امرال جیسے لرزہ خیز واقعات کِسی کے بھی گھر میں وقوع پذیر ہوسکتے ہیں ۔ ایک بچگانہ سوچ آپ کو یہ کہتی نظر آئے گی کہ نکاح کو آسان کرو تو ایسے واقعات سے بچا جاسکتا ہے میرا اُن سے سوال ہے ہے کہ جو قاری حضرات یا پروفیسرز ایسے مکروہ کام کرتے ہیں کیا وُہ کم عُمر کے غیر شادی شُدہ افراد ہوتے ہیں ؟ نِکاح کیا ہے ؟ کیا یہ محض سیکس ہے یا ایک شادی شُدہ بندے پر بڑی معاشرتی اور سماجی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں ؟ سیکس ڈرائیو یا جِنسی جبلت کبھی بھی روزے رکھنے سے دَب نہیں سکتی ، اِس سوچ سے باہر آئیں ۔ اب کِسی کا سوال ہوگا کہ پھر کِیا کیا جائے تو بھئی کم از کم میرا مشورہ تو یہی ہے خُود لذتی کو گُناہ سمجھنے سے باہر آجائیں اگر یہ گُناہ ہے تو بھی آپ کو بڑے گُناہ سے بچائے گا ۔ اگین مذاہب میں بُہت سارے مسائل کا حل موجود نہیں اور نہ ہی یہ مُمکن ہے ۔ اِس موضوع پر پھر بھی بات کریں گے جب تک ناچیز کی عاجزانہ درخواست ہے کہ سیکس ایجوکیشن کو نصاب کا لازمی حِصہ بنایا جائے اور زیادتی کے واقعات سامنے آنے پر مظلوم کا ساتھ دیں نہ کہ اپنے تعصبات کا ۔۔۔۔۔۔