اسلام آباد میں رکشہ لے جانے کی ممانعت رہی ہے اور اس وجہ سے راولپنڈی میں بھی رکشہ بہت کم نظر آتا ہے۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں اس کی جگہ پر سوزوکی ایف ایکس ٹیکسی بہت عام ہے۔ پیلی چھت اور کالی باڈی والی اس گاڑی کے پیچھے تین سٹیکر نظر آئیں گے جن پر آر، اے اور کے لکھا ہو گا۔ یہ یہاں کی روایت ہے۔ یہ روایت کیسے پڑی؟ اگر ٹیکسی والوں سے پوچھیں تو وہ کہیں گے کہ وہ اس لئے لگاتے ہیں کہ باقی سب نے لگایا ہوا ہے۔ جو یہ سٹیکر بیچتے ہیں، وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ اس لئے بیچتے ہیں کہ اس کے خریدار بہت ہیں۔ اس کہانی کا راز جاننے کا بیڑا ایک نوجوان نے اٹھایا۔ پوری تفصیل دیکھنے کے لئے لنک میں دی گئی ویڈیو دیکھیں۔
اگر نہیں دیکھنا چاہتے تو خلاصہ یہ ہے کہ یہ کسی خفیہ تنظیم کا سمبل نہیں۔ ایک مکینک جن کا نام رستم آصف خان تھا، انہوں نے یہ کام شروع کیا کہ جس گاڑی کی مرمت کرتے، اس کے پیچھے اپنے نام کے ابتدائی حروف کے سٹکر لگا دیتے۔ یہ اس روایت کا آغاز تھا۔ اس پر عمل کرنے والوں کو، یہ سٹیکر چھاپنے والوں کو، بیچنے والوں کو اور اپنی گاڑی پر چسپاں کرنے والوں کو اس کا کا علم نہیں۔ حالانکہ اس حالانکہ اس کا آغاز پرانی بات نہیں اور شروع کرنے والے مکینک کی دکان بھی ابھی تک وہیں پر ہے۔
یہ تو راولپنڈی کی ٹیکسیوں کی بس ایک دلچسپ کہانی تھی۔ کیا آپ کو اپنے آس پاس اس قسم کے رواج نظر آتے ہیں؟
دوسرا سوال آپ سے یہ کہ جب بھی آپ کوئی چیز دیکھتے ہیں تو کیا آپ کے ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ کوئی چیز ویسی کیوں ہے جیسی نظر آتی ہے؟ راولپنڈی اسلام آباد میں لاکھوں لوگ روزانہ سڑک پر سفر کرتے ہیں اور ان کا یہ روز کا مشاہدہ ہے۔ ہر کوئی نظر آنے والے منظر کی وجہ نہیں سوچتا۔
اس پر ویڈیو یہاں سے