افسانے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے روایت سے جنم لیا تھا جو ابتداً زبانی قصہ گوئی و کہانی سنانے کے عمل پر مبنی تھی ۔ یہ عمومی طور پر نظمیہ انداز رکھتیں تھیں جن کی عمدہ مثالیں ہومر سے منسوب ’ ایلیڈ ‘ اور ’ اوڈیسی‘ ہیں ۔ اخلاقی قصوں ، انسانوں بارے چٹکلوں ، فرضی قصوں سے ہوتا کہانیوں کا یہ زبانی سفر یورپ میں اس وقت ایک نئی شکل اختیار کرتا ہے جب چودھویں صدی کے آغاز میں یہ لکھی صورت میں سامنے آنے لگیں جس کی اہم ترین مثال انگریزی میں جیوفری چوسر (Geoffrey Chaucer) کی ’کینٹربری کہانیاں ‘ (Canterbury Tales) اور اطالوی زبان میں جیووانی بوکاشیو (Giovanni Boccaccio) کی ’ ڈیکامیرون ‘ (Decameron) ہیں ۔ کہانی نے سولہویں صدی کے آخر تک پہنچتے پہنچتے وہ شکل اختیار کی جس کی عمدہ مثال اطالوی میتھیو بینڈیلو (Matteo Bandello) کی المیہ کہانیاں تھیں جو اب ناولٹ (novella) کی اولین شکل کہلاتی ہیں ۔ ان کے فرانسیسی ترجموں نے فرانسیسی ادب پر گہرا اثر ڈالا اور مادام ڈی ، لا ، فایٹی (Madame de La Fayette) کے اچھے ناولٹ اس صدی کے وسط میں سامنے آنے لگے۔ اس صدی کی آخری دہائی میں پریوں اور جنوں کی کہانیاں بھی شائع ہونا شروع ہو گئیں ، جن میں فرانسیسی چارلس پرارلٹ کی کہانیاں اہم تھیں ۔
اٹھارویں صدی کا آغاز اپنے ساتھ ” کتَِاب اَلف لَیلَة وَلَیلَة “، جو خلافت عباسیہ (750–1258) کے دور میں عربی میں مرتب ہوئی تھی ، کے فرانسیسی اور انگریزی ترجمے ساتھ لایا ۔ جن کا اثر والتیئر ( Voltaire) اور ڈیڈیرو (Diderot) جیسے کئی یورپی ادیبوں کی کہانیوں پر نظر آتا ہے ۔
ابتدائی’ افسانہ‘ ہمیں 1790 ء اور 1810ء کے درمیان نظر آنا شروع ہو جاتا ہے لیکن اچھے افسانوی مجموعے 1810ء اور 1830ء کے درمیان ہی برطانیہ ، فرانس، جرمنی و دیگر یورپی زبانوں اور امریکہ میں آگے پیچھے ہی سامنے آتے دکھائی دیتے ہیں ۔ برطانیہ میں رچرڈ کمبرلینڈ ، والٹر سکاٹ اور چارلس ڈکنز وہ پہلے لکھاری ہیں جنہوں نے اس صنف میں بھی طبع آزمائی کی ۔ رچرڈ کمبرلینڈ گو بنیادی طور پر ڈرامہ نگار تھا ، والٹر سکاٹ شاعر ، ڈرامہ نگار اور ناولسٹ تھا جبکہ چارلس ڈکنز اپنی ناول نگاری کے لئے اہم گردانا جاتا ہے ۔ اسی زمانے میں امریکی چارلس بروکڈن ہراﺅن واشنگٹن آرونگ اور نتھینئل ہاتھرون افسانے لکھ رہے تھے ۔ جرمن زبان میں ہینرچ وان کلیسٹ ، گرِم برادران اوارنسٹ تھیوڈور ولہیم ہوفمین افسانہ لکھنے کے تجربے کو بڑھاوا دے رہے تھے۔ادھر فرانس میں پراسپر میریمی اس صنف میں طبع آزمائی کر رہا تھا ۔
انیسویں صدی کے وسط تک اس صنف میں کچھ زیادہ پیش رفت نہ ہوئی لیکن پھر جیسے اس کو بہار نصیب ہو گئی کہ امریکی ایڈگر ایلن پو ، او ہنری ، جیک لنڈن ، ہنری جیمز، برطانوی رڈیارڈ کپلنگ ، ٹامس ہارڈی ، آرتھر کونان ڈوئل ، ایچ جی ویلز ، روسی ایوان تورگینیف ، فیودور دستوفسکی ، لیو ٹالسٹائی ، چیخوف ، میکسم گورکی ، فرانسیسی موپساں لاطینی امریکن ماچاڈو ڈی آسس ، ناجیرا اور ڈاریواور پولش بولسلا پروس جیسے نام سامنے آئے ۔
بیسویں صدی کے آغاز میں افسانہ لکھنے کا رواج عام ہونے لگا اور دنیا کی ہر زبان میں یہ مقبول ہو کر ایک باقاعدہ صنف بن گئی ۔ اب ہیکٹرہگ منرو ( ساکی) ، سمرسٹ ماہم ، گلبرٹ کیتھ سیٹرٹن ، اگاتھا کرسٹی ، ورجینیا وولف ، آرتھر چارلس کلارک ، جیمز جوائس ، ولیم فاکنر ، ارنسٹ ہیمنگوئے، کیتھرین مینسفیلڈ ، تھامس مان اور کافکا جیسے نام سامنے آنے لگے ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد تو افسانہ نگاروں کی گنتی کا شمار مشکل ہو جاتا ہے اورافسانہ ہر زبان میں ایک لازمی صنف کے طور پر شمار ہونے لگا ۔ ادھر برصغیر ہند میں جہاں بنگالی ادب میں ٹیگور سامنے آیا تو اردو میں منشی پریم چند نے ناول نگاری کے ساتھ ساتھ افسانے کو بھی رواج دیا ۔ اردو میں افسانے کا آغاز منشی پریم چند اور اس کے ہم عصر ادیبوں سے ہی ہوتا ہے ۔