رویوں میں توازن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے چند دن شدید تھکن اور بھاگ دوڑ میں گزرے، کالم کا ناغہ بھی ہوگیا۔ہم جیسے کرایہ کے مکان میں رہنے والوں کے لئے گھر بدلنا اچھی بھلی آزمائش بن جاتی ہے۔ اخبار کا دفتر شہر سے قدرے باہر ہے، گھنٹہ بھر کا سفر روزانہ طے کر کے دفتر پہنچنا پڑتا تھا۔سفرمیں کمی لانے کے لئے گھر تبدیل کیا اور اب نسبتاً آسانی محسوس ہورہی ہے۔آج کل کتابوں کی خریداری کم کر دی ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ ای بکس سے کام چلایا جائے، اس کے باوجود چار پانچ ہزار کے قریب کتابیں جمع ہو چکی ہیں۔بڑی مشکل سے انہیں بوریوںمیں ڈال کر منتقل کیا۔ اب انہیں دوبارہ سے بک ریکس میں لگانا بھی اچھا خاصا مرحلہ لگ رہا ہے ۔ کتابیں اکٹھی کرتے ہوئے دو خیال آتے رہے، انہیں دوبارہ سے پڑھنے کا وقت اور فرصت مل پائے گی اور کیا میری اولادکی نظروں سے بھی یہ کتابیں گزریں گی؟زندگی میںبے شمار حسین ، دل خوش کن لمحات انہی کتابوں کی وجہ سے شامل ہوئے۔ کاش میرے بچے بھی کتابوں سے خود کو جوڑ پائیں۔ ویڈیو گیمز، کارٹون اوراینی میٹڈ موویزکی سحرانگیز دنیا میں بظاہر یہ مشکل لگ رہا ہے۔ شفٹنگ کے دوران تو جسمانی تھکن ہوئی،اس دوران مگر کئی ایسے خونیںواقعات ہوئے، جن سے دل لہوسے بھر گیا۔ اسرائیل نے مظلوم فلسطینیوں کا جینا عرصے سے دوبھر کر رکھا ہے۔ اب ایک بار پھر فلسطینی دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے مظالم کا ایک خوفناک سلسلہ شروع کر دیا ہے۔نوجوان کشمیری گولیوں سے چھلنی ہو رہے ہیں۔اس پر دنیا بھر میں ہر طرف شدید بے حسی نظر آ رہی ہے۔کشمیریوں کے جذبے اور عزم کو سلام کہ ہر طرف چھائے اندھیرے میں وہ اپنے لہو سے شمعیں جلا رہے ہیں۔ قندوز میںایک مدرسے پر افغان فوجیوں کی بمباری سے ایک سو کے قریب لوگ شہید ہوئے، جن میں درجنوں حفاظ بچے شامل ہیں۔ ظلم اور بربریت کی انتہا ہوگئی۔سفاکی کی انتہایہ کہ اس دہشت گردی کا جواز ڈھونڈا جا رہا ہے ۔ قندوز کے مظلوم اس اعتبار سے زیادہ بدقسمت ہیں کہ ان کے حق میں آواز بلند کرنے والے بھی کم ہیں۔ فلسطینی عوام پر ظلم کے خلاف اقوام متحدہ میں آواز اٹھائی گئی۔ بھارتی فوجیوں کی درندگی پر دنیا خاموش رہی، مگر پاکستانی حکام نے مذمت اور احتجاج تو کیا۔قندوز کے شہیدوں پر کسی کو کچھ کہنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ دو دن سے سوشل میڈیا پر گردش کرتیںان معصوم حفاظ بچوں کی تصویریں دیکھی نہیں جارہیں۔ معصومیت کے پیکر ، جنہیں افغان فوج نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ پورا خطہ لگتا ہے کسی بڑی آزمائش سے دوچار ہے۔دائروں کی صورت میں آنے والی آزمائش۔ ایک دائرہ ختم ہوتا ہے تو دوسرا شروع ہوجاتا ہے۔اللہ رحم فرمائے اور جنگ، تباہی کے بادل چھٹ جائیں۔
ہمارے لبرل طبقے کوا س وقت بہت تکلیف ہوتی ہے جب کسی جہادی تنظیم کے ہاتھوں افغان شہریوںکا نقصان ہو۔ اتنے بڑے سانحے پر ان تمام لوگوں نے گونگے کا گڑ کھا لیا۔ مذمت کرنے کے بجائے الٹایہ دلیل دی جارہی ہے کہ مدرسے میں طالبان کمانڈر مہمان خصوصی تھے۔یہ بات حالانکہ غلط ثابت ہوچکی ہے۔صاف بات یہ ہے کہ جہاں کہیں غیر مقاتلین یعنی نہتے شہری جو جنگ میں شامل نہ ہوں، انہیں نشانہ بنایا جائے، وہ غلط ہے، اس کی غیر مشروط مذمت کرنی چاہیے۔ کابل کے فٹ بال گراﺅنڈ میں اگر افغان طالبان بم دھماکے کریں اور شہری ہلاک ہوں تو وہ بھی ظلم اور غلط ہے، بازاروں میںخود کش دھماکہ کرنے والے مزاحمتی اور جہادی نہیںکہلاسکتے، اسی طرح طالبان کو ختم کرنے کے نام پر کبھی شادی کی باراتوں اور کبھی مدارس کے حفاظ پر وحشیانہ بمباری کرنا صریحاً ظلم ہے، اس کی ہر ایک کو مذمت کرنی چاہیے۔ ہم لوگ اس کے سوا کر ہی کیا سکتے ہیں، یہ چند الفاظ جو کثرت استعمال سے اپنے معنی کھو بیٹھے ہیں۔یہ ہمارے دکھ اور صدمے کی عکاسی تو نہیں کر سکتے، مگر برائی کو برا سمجھنا ایمان کے آخری درجے میں تو آ ہی جاتا ہے۔لبرل ہوں یا رائٹسٹ ، ہمارے رویوں میں توازن لازم ہے۔
پچھلے کچھ عرصے سے پختون تحفظ تحریک کی صورت میں ایک نیا عنصر سامنے آیا ہے۔ ایک غیر معروف قبائلی منظور پشتین اس کی قیادت کر رہا ہے۔منظور پشتین کو زیادہ سننے کا اتفاق نہیں ہوا، ایک دوویڈیو کلپس ہی دیکھے ۔ ابھی کوئی حتمی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہے ۔مجھے اس پر البتہ حیرت ہوئی کہ منظور پشتین کو بلوچستان کے پشتون علاقوں میں خاصی پزیرائی ہوئی، اچھے خاصے جلسے اس نے وہاں کئے۔ اصل ایجنڈا ان کا قبائلی علاقوں کے حوالے سے ہے، یہ تحریک اصلاًوزیرستان کے محسود قبائل میں شروع ہوئی۔ بلوچستان کے پشتونوں کا اس میں شامل ہونا دلچسپی سے خالی نہیں۔ معلوم ہوا کہ اچکزئی صاحب کی پارٹی کے لوگ اس کی سپورٹ کر رہے ہیں۔مختلف سازشی تھیوریز اس حوالے سے بیان کی جا رہی ہیں۔ بعض لوگ منظور پشتین کی تیزی سے پھیلتی مقبولیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ انہیں اس کے پیچھے غیر ملکی فیکٹرنظر آ رہا ہے۔ تحفظ پشتون تحریک کے خلاف نعرے اور پوسٹر بھی لگنے شروع ہوگئے۔ کچھ لوگ باقاعدہ طور پر اکٹھے ہو کر جلسے جلوس بھی کر رہے ہیں۔ کہا جار ہا ہے کہ مقتدر قوتیں یہ سب کرا رہی ہیں۔ منظور پشتین یا تحفظ پشتون تحریک کے بارے میں ابھی منفی رائے کا اظہار نہیں کرنا چاہتا۔ انہیںحسن ظن کی رعایت ملنی چاہیے۔ سادہ سی دو تین باتیں البتہ یاد رہنی چاہئیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سوات کے لوگوں نے بہت تکلیف سہی، ان کی مشکلات ابھی تک ختم نہیں ہوئیں ۔ وہاں آنے جانے والے دوست بتاتے ہیں کہ چیک پوسٹوں کا طویل مرحلہ مقامی آبادی کے لئے سخت تکلیف دہ اور پریشان کن ہے۔ محب وطن سواتی عوام نے برسوں صبر سے یہ سب کاٹا ہے۔ آج اگر ان میں سے کچھ بلند آواز سے شکوہ کریں تو ہمیں ان کی بات سننی چاہیے۔فاٹا کے عوام پر پچھلے کئی برس کٹھن گزرے ہیں۔ پہلے نام نہاد پاکستانی طالبان نے ان کا جینا دوبھر کر دیا۔ آپریشن کے دوران فطری طور پر مسائل پیدا ہوئے ۔جنوبی اور شمالی وزیرستان کے عوام خاص طور سے پریشان ہوئے۔ لاکھوں لوگوں کو اپنے گھروں سے دور رہنا پڑا۔ واپسی کے باوجود چیکنگ اور جانچ پڑتال کا تکلیف دہ سلسلہ جاری ہے۔ ممکن ہے تحفظ پشتون تحریک کی حمایت کرنے والے بعض حلقوں کے مخصوص عزائم ہوں، یہ بھی امکان ہے کہ کچھ لوگ کسی خاص ایجنڈے کے تحت پشتونوں میں وفاق کے خلاف جذبات بھڑکانا چاہتے ہوں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ پشتونوں کے حقوق کی بات کرنے والا ہر شخص غلط ہے یا ان کے مطالبات نہیں ماننے چاہئیں۔ ان لوگوں کو البتہ اپنے نعروں میں احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ ایسے نعرے جن سے شکوک پیدا ہوں، ان سے ہر صورت گریز کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ منظور پشتین کی شخصیت میں ایسا غیر معمولی کرشمہ نہیں، اصل بات یہ ہے کہ جوایجنڈا لے کر وہ کھڑا ہوا ہے، اس میں مقامی آبادی کے لئے کشش ہے۔ فورسز اور وفاقی وصوبائی حکومت کو ان کے مطالبات ہمدردی سے سننے چاہئیں۔ عام آدمی کو ہر حال میں ریلیف ملنا چاہیے۔ یہ درست کہ دہشت گردوں کی واپسی کا خدشہ موجود ہے، اس لئے سکیورٹی انتظامات کرنا لازم ہیں، مگر یہ سب بڑی حکمت، دانشمندی سے کرنا ہوگا۔ عام آدمی کو پریشان کئے بغیر سکیورٹی سسٹم مضبوط اور فول پروف بنانا چاہیے۔ریاست کا اصل کردار ماں جیسا ہے۔ پاکستانی ریاست اور ریاستی اداروں کی اصل ترجیح عوام ہونے چاہئیں۔ رویے اگر معقول اور متوازن ہوں تو عوام کے دلوں میں ریاست کے لئے محبت کے سوتے پھوٹ پڑتے ہیں۔ تب غیر ملکی سازشیں یا گھر میں موجود فتنہ پرور لوگ بھی ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں۔ یہی تاریخ کا طے شدہ اصول ہے، جسے ہم بھلانے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔