آج – ١٠ ؍جولائی ١٩٠٩
کلام میں کئی رنگوں کا آمیزہ، رومانی طرز نظموں اور خاص کلاسیکی رچاؤ کے لیے مشہور شاعر” روشؔ صدیقی صاحب “ کا یومِ ولادت…
روشؔ صدیقی ۱۰ جولائی ۱۹۰۹ء کو جوالاپور(ضلع سہارنپور) میں پیدا ہوئے ۔ ان کا اصل نام شاہد عزیز تھا ۔ ان کے والد مولوی طفیل احمد بھی شاعر تھے ۔ روش نے گھر کے علمی اور مذہبی ماحول میں تربیت پائی ۔ عربی فارسی کی تعلیم حاصل کی ۔ بعد میں ہندی اور سنسکرت سے بھی واقفیت حاصل کی ۔ ان کے کلام میں تصوف اور ویدانت کے اثرات زبانوں سے اسی واقفیت کا نتیجہ ہیں ۔
روش تقسیم ملک تک جوالاپور میں ہی رہے ۔ آزادی کے وقت بھڑک اٹھنے والے فسادات میں جوالاپور بھی جل اٹھا اور روش جوالاپور سے مرادآباد منتقل ہوگئے ۔ ۱۹۵۵ میں مرادآباد سے دہلی آئے اور آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت اختیار کی ۔انہوں نے ۱۹۵۹ میں بیلجیم میں ایک ادبی کانفرنس میں ہندوستان کی نمائندگی بھی کی ۔ روشؔ، مولانا آزاد کے بہت قریبی دوستوں میں سے تھے ۔
روش کا کلام ایک ساتھ کئی رنگوں کا آمیزہ ہے انہوں نے اختر شیرانی کے طرز پر رومانی نظمیں بھی کہیں ساتھ ہی ملی ، ملکی اور سیاسی مسائل کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا ۔ گاندھی جی پر ان کی نظم بہت مشہور ہوئی ۔ روش کی غزلوں میں ایک خاص کلاسیکی رچاؤ پایا جاتا ہے ۔ ان کی غزلوں کا مجموعہ ’ محراب غزل‘ اپنی اشاعت کے وقت بہت مقبول ہوا ۔
٢٣ جنوری ١٩٧١ء کو ان کا انتقال ہوا ۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
معروف شاعر روشؔ صدّیقی کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
بتانِ شہر کو یہ اعتراف ہو کہ نہ ہو
زبانِ عشق کی سب گفتگو سمجھتے ہیں
—
اب اس سے کیا غرض یہ حرم ہے کہ دیر ہے
بیٹھے ہیں ہم تو سایۂ دیوار دیکھ کر
—
اردو جسے کہتے ہیں تہذیب کا چشمہ ہے
وہ شخص مہذب ہے جس کو یہ زباں آئی
—
جو راہ اہلِ خرد کے لیے ہے لا محدود
جنونِ عشق میں وہ چند گام ہوتی ہے
—
خونِ دل صرف کر رہا ہوں روشؔ
خوب سے نقشِ خوب تر کے لیے
—
دل گوارا نہیں کرتا ہے شکست امید
ہر تغافل پہ نوازش کا گماں ہوتا ہے
—
درد آلودۂ درماں تھا روشؔ
درد کو درد بنایا ہم نے
—
زندگی محوِ خود آرائی تھی
آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا ہم نے
—
سخت جان لیوا ہے سادگی محبت کی
زہر کی کسوٹی پر زندگی کو کستی ہے
—
عشق خود اپنی جگہ مظہرِ انوار خدا
عقل اس سوچ میں گم کس کو خدا کہتے ہیں
—
لڑکھڑانا بھی ہے تکمیلِ سفر کی تمہید
ہم کو منزل کا نشاں لغزشِ پیہم سے ملا
—
نقابِ شب میں چھپ کر کس کی یاد آئی سمجھتے ہیں
اشارے ہم ترے اے شمعِ تنہائی سمجھتے ہیں
—
وہ شخص اپنی جگہ ہے مرقع تہذیب
یہ اور بات ہے کہ قاتل اسی کا نام بھی ہے
—
وہ کہاں درد جو دل میں ترے محدود رہا
درد وہ ہے جو دل کون و مکاں تک پہنچے
—
کوہِ سنگین حقائق تھا جہاں
حسن کا خواب تراشا ہم نے
—
ہزار رخ ترے ملنے کے ہیں نہ ملنے میں
کسے فراق کہوں اور کسے وصال کہوں
—
تجھ پہ کھل جائے کہ کیا مہر کو شبنم سے ملا
آنکھ اے حسن جہاں تاب ذرا ہم سے ملا
—
پاسِ وحشت ہے تو یاد رُخِ لیلیٰ بھی نہ کر
عشق کو قیدیٔ زنجیر تمنا بھی نہ کر
—
حسنِ اصنام بہ ہر لمحہ فزوں ہے کہ نہیں
یہ مرے ذوقِ تماشا کا فسوں ہے کہ نہیں
—
عہد و پیماں کر کے پیمانے کے ساتھ
عمر گزری تیرے میخانے کے ساتھ
—
کہنے کو سب فسانۂ غیب و شہود تھا
در پردہ استعارۂ شوق و نمود تھا
—
ربطِ پنہاں کی صداقت ہے نہ ملنا تیرا
تیرے ملنے ہی کی صورت ہے نہ ملنا تیرا
—
میں نے پہچان لیا اس کو سر بزمِ روشؔ
اس کی آنکھوں کو ہے اصرار کہ خاموش رہوں
—
روشؔ رازِ محبت آج بھی ہے رازِ لا ینحل
غلط ثابت ہوئے سارے جواب آہستہ آہستہ
روشؔ صدّیقی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ