آج – 23؍جنوری 1971
بھارت کے نیم کلاسیکی انداز کے ممتاز اور مقبولِ عام شاعر” روشؔ صدیقی صاحب “ کا یومِ وفات…
روشؔ صدیقی ۱۰؍جولائی ۱۹۰۹ء کو جوالاپور(ضلع سہارنپور) میں پیدا ہوئے ۔ ان کا اصل نام شاہد عزیز تھا ۔ ان کے والد مولوی طفیل احمد بھی شاعر تھے ۔ روش نے گھر کے علمی اور مذہبی ماحول میں تربیت پائی ۔ عربی فارسی کی تعلیم حاصل کی ۔ بعد میں ہندی اور سنسکرت سے بھی واقفیت حاصل کی ۔ ان کے کلام میں تصوف اور ویدانت کے اثرات زبانوں سے اسی واقفیت کا نتیجہ ہیں ۔
روش تقسیم ملک تک جوالاپور میں ہی رہے ۔ آزادی کے وقت بھڑک اٹھنے والے فسادات میں جوالاپور بھی جل اٹھا اور روش جوالاپور سے مرادآباد منتقل ہوگئے ۔ ۱۹۵۵ میں مرادآباد سے دہلی آئے اور آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت اختیار کی ۔انہوں نے ۱۹۵۹ میں بیلجیم میں ایک ادبی کانفرنس میں ہندوستان کی نمائندگی بھی کی ۔ روش مولانا آزاد کے بہت قریبی دوستوں میں سے تھے ۔
روش کا کلام ایک ساتھ کئی رنگوں کا آمیزہ ہے انہوں نے اختر شیرانی کے طرز پر رومانی نظمیں بھی کہیں ساتھ ہی ملی ، ملکی اور سیاسی مسائل کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا ۔ گاندھی جی پر ان کی نظم بہت مشہور ہوئی ۔ روش کی غزلوں میں ایک خاص کلاسیکی رچاؤ پایا جاتا ہے ۔ ان کی غزلوں کا مجموعہ ’ محرابِ غزل‘ اپنی اشاعت کے وقت بہت مقبول ہوا ۔
٢٣؍جنوری ۱۹۷۱ء کو روش صدیقی، شاہجہاں پور میں انتقال کر گئے۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
مقبولِ عام شاعر روش صدیقی کے یوم وفات پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…
ہزار رخ ترے ملنے کے ہیں نہ ملنے میں
کسے فراق کہوں اور کسے وصال کہوں
—
اب اس سے کیا غرض یہ حرم ہے کہ دیر ہے
بیٹھے ہیں ہم تو سایۂ دیوار دیکھ کر
—
اردو جسے کہتے ہیں تہذیب کا چشمہ ہے
وہ شخص مہذب ہے جس کو یہ زباں آئی
—
پاسِ وحشت ہے تو یاد رُخِ لیلیٰ بھی نہ کر
عشق کو قیدیٔ زنجیرِ تمنا بھی نہ کر
—
دل گوارا نہیں کرتا ہے شکستِ امید
ہر تغافل پہ نوازش کا گماں ہوتا ہے
—
عشق خود اپنی جگہ مظہر انوارِ خدا
عقل اس سوچ میں گم کس کو خدا کہتے ہیں
—
لڑکھڑانا بھی ہے تکمیلِ سفر کی تمہید
ہم کو منزل کا نشاں لغزشِ پیہم سے ملا
—
درد آلودۂ درماں تھا روشؔ
درد کو درد بنایا ہم نے
—
وہ شخص اپنی جگہ ہے مرقع تہذیب
یہ اور بات ہے کہ قاتل اسی کا نام بھی ہے
—
بتانِ شہر کو یہ اعتراف ہو کہ نہ ہو
زبان عشق کی سب گفتگو سمجھتے ہیں
—
وہ کہاں درد جو دل میں ترے محدود رہا
درد وہ ہے جو دل کون و مکاں تک پہنچے
—
خونِ دل صرف کر رہا ہوں روشؔ
خوب سے نقشِ خوب تر کے لیے
—
ہزار حسن دل آرائے دو جہاں ہوتا
نصیبِ عشق نہ ہوتا تو رائیگاں ہوتا
—
جو راہ اہلِ خرد کے لیے ہے لا محدود
جنونِ عشق میں وہ چند گام ہوتی ہے
—
نقابِ شب میں چھپ کر کس کی یاد آئی سمجھتے ہیں
اشارے ہم ترے اے شمعِ تنہائی سمجھتے ہیں
—
شکست رنگِ تمنا کو عرض حال کہوں
سکوتِ لب کو تقاضائے صد سوال کہوں
—
وہ نکہتِ گیسو پھر اے ہم نفساں آئی
اب دم میں دم آیا ہے اب جان میں جاں آئی
—
وحدتِ صورت و معنی کو سمجھ اے واعظ
حسنِ یزداں کا تصور رُخِ آدم سے ملا
—
روشؔ رازِ محبت آج بھی ہے راز لا ینحل
غلط ثابت ہوئے سارے جواب آہستہ آہستہ
—
لے گیا عشق کسی شاہد نادیدہ تک
مدتوں ذوقِ پرستش نے تراشے تھے صنم
—
رنگ اس محفلِ تمکیں میں جمایا نہ گیا
خامشی سے بھی مرا حال سنایا نہ گیا
—
حیرتِ شوق ہی بن جائے نہ غماز روشؔ
تو اس انداز سے ناداں اسے دیکھا بھی نہ کر
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
روِشؔ صدّیقی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ