دھرتی سے جڑی سچی رومانوی داستان
صفدر فیضی کی رتا رومال سے ماخوز
23 دسمبر 1912 کا روشن دن ہے۔
پوری دلی کو دلہن کی طرح سجا دیا گیا ہے۔ ہر طرف رونق لگی ہوئی ہے۔ پورے ہندوستان سے راجے مہاراجے پیر اور سردار دعوت پر بلاۓ گئے ہیں۔ لذیذ کھانے پکواۓ جا رہے ہیں اور رقص ؤ موسیقی کی محفلیں سجی ہیں۔
تاج بریطانیہ کے ہندوستان میں وائسرے لارڈ ہارکنگ نے کلکتہ سے دلی کو دارلخلافہ بنانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ سرکار کو چلانے کے لیے ایک لاکھ بنگالی ملازم بھی شفٹ ہو چکے ہیں۔
لوگوں یا غلاموں کا ایک مجمع ہے جو جلوس میں انگریز کی محبت میں دیوانہ وار ناچ رہا ہے۔
بالی مکند۔ اودھ بہاری اور بوس تین انقلابی اپنی ماں دھرتی پر یہ تماشا دیکھ رہے ہیں مگر وہ انگریز کو اپنی دھرتی پر حاکم نہیں دیکھ سکتے وہ اس جبر کے نظام کے باغی ہیں۔ وہ آزادی کے متوالے ہیں۔
وہ باغی ہیں۔
وہ انقلابی ہیں وہ آزادی کے سورج کے متلاشی ہیں۔
وہ مرنا چاہتے ہیں یا جابر کو مار دینا چاہتے ہیں۔
اتنے میں انگریز حاکم اپنی بیوی کے ساتھ ہاتھی پر سوار نمودار ہوا۔ لوگ تالیاں بجا کر استقبال کر رہے ہیں ۔
ایک زوردار بم دھماکہ ہوتا ہے۔۔۔
طاقت اور غرور خاک میں مل جاتا ہے۔۔
انگریز حاکم شدید زخمی ہو جاتا ہے اور ہر طرف افرا تفری کا عالم ہے ۔
انگریز کی طاقت کو پنجاب کی دھرتی پر پہلے دن ہی چلینج کر دیا گیا ۔
اسی مقدمے کو دلی سازش کیس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔۔
یہ انگریز کے خلاف پنجاب کی دھرتی سے ابھرنے والی ایک انقلابی تحریک تھی جسے روکنا ضروری تھا ۔
پولیس اور خفیہ والوں کو حکم ہے کہ باغیوں کو زمین کی تہہ میں سے بھی ڈھونڈا جاۓ ۔
رام مکھی بھون (چکوال) کی رہنے والی خوبصورت پنجابن تھی جس کی شادی قریبی گاؤں کریالا میں رہنے والے بالی مکند سے ہوئی۔ دونوں سکھ خاندان سے تھے اور اپس میں قریبی رشتہ دار بھی ۔۔
بالی لاہور سے پڑھا ہوا گریجویٹ تھا اور وہیں سے وہ انقلابی بنا ۔
وہ سوچتا رہتا تھا کہ چند ہزار انگریز کس طرح سے میری دھرتی کے حاکم بن گئے؟ وہ اپنی دھرتی پر حملہ آوروں کے قدم نہیں دیکھ سکتا تھا۔ وہ ان کا غلام بن کر جینا بیغرتی سمجھتا تھا ۔
وہ ان سے لڑنا چاہتا تھا۔
وہ آزادی چاہتا تھا۔
بالی نے سہاگ رات کو ہی مکھی کو اپنی زندگی کا مقصد کھول کر بتا دیا۔
رام مکھی نے خوبصورت گبھرو جوان بالی سے پہلی رات ہی ساتھ جینے مرنے کی قسم کھا لی اور ہر قدم ساتھ دینے کا وعدہ کر لیا۔
مکھی اور بالی شادی کے کچھ عرصے بعد لاہور شفٹ ہوے۔ مکھی نے بھی انقلابیوں کو قریب سے دیکھا اور ان کی ہم خیال بن گئی ۔۔۔۔
بالی لاہور اور پنجاب میں انقلابیوں کا لیڈر مانا جاتا تھا ۔۔
یہی سے بالی دلی گیا اور حملہ آور ٹیم کا حصہ بنا۔ گو کہ وائسرے پر حملہ بوس نامی انقلابی نے کیا تھا۔
بالی کو ریاست جودھ پور سے گرفتار کر لیا گیا۔ بالی کو ننگے پیروں سے پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر پیدل دلی جیل تک لایا گیا۔ پورے راستے میں اس پر تشدد ھوتا رہا۔۔۔۔ افسوس یہ ہے کہ اس کو مارنے والے کوئی اور نہیں اس کے اپنے ہندوستانی بھائی تھے جو تنخواہ اور انعام کے لالچ میں بالی کو لہو لہان کرتے رہے۔۔۔
مقدمہ چلا اور بالی باغی کو موت کی سزا سنا دی گئی۔
آخری ملاقات کے لیے رام مکھی پیدل چل کر امرتسر تک گئی۔۔
ننگے پاؤں اور زخمی دل کے ساتھ ۔۔۔
بڑے گوردوارے میں بالی کی زندگی کے لیے منت مانی اور زخمی پیروں کے ساتھ جیل میں اپنے محبوب سے ملی۔
مکھی نے بالی کے ساتھ جینے مرنے کی قسم کھا رکھی تھی۔
پندرہ مئی 1915 کو پھانسی دی جانی تھی۔
چکوال کے گاؤں میں سوگ کا عالم تھا۔ مکھی نے اس دن نہا دھو کر سفید لباس پہنا اور گھر والوں کو بتایا کہ وہ اج رات بالی کی زندگی یا دلیرانہ موت کے لیے دعا کرنا چاہتی ہے۔ کوئی اس کے کمرے میں نہ آے ۔۔۔۔
رات کو انبالہ جیل میں بالی کو پھانسی دے دی گئی اور چکوال کے گاؤں میں مکھی نے اپنے لال دوپٹے سے موت کو گلے لگا لیا ۔۔۔۔۔
محبت اور مٹی سے وفا کے دو کردار تاریخ میں امر ہو گئے۔۔
بالی مکند کی زندگی پر انڈیا میں فلم بھی بن چکی ہے اور ڈاک ٹکٹ بھی چل چکے ہیں۔ تقسیم ھند میں سب سکھ خاندان چکوال سے انڈیا چلے گئے۔
صرف ایک خاندان نے پاکستان اور اپنی دھرتی پر رہنے کا فیصلہ کیا۔
رویندر کمار چکوال میں بالی انقلابی اور رام مکھی کی کہانی کا وارث ہے۔
دھرتی کو ہر کوئی اپنی ماں کہتا ہے۔
بالی اور رام مکھی کو یہ دھرتی اپنا بیٹا اور بیٹی کہتی ہے۔۔۔
دھرتی پر قربان ہونے والے ہر انسان کو لال سلام
تحقیق ۔۔۔۔ صفدر فیضی
حوالہ ۔۔۔۔ دھن ثقافت ۔۔۔ رتا رومال