اگوکی کی کہانی – ۲
ـــ
ریاست ہائےمتحدہ اگوکی سےجبکہ آپ وزیرآباد روڈ پر سیالکوٹ کینٹ کی طرف جائیں جیسا کہ عباسیہ کےافسراکثرجایاکرتےتھےتو ہرڑ کےبس سٹاپ پربرلبِ سڑک ایک ہوٹل تھا جس کے منجے بسترے روڈ سےایک دعوتِ استراحت دیتےصاف نظر آتے تھے ساتھ ہی پانی کی ٹنکی کےاوپرکنکریٹ سے بنےکنگ سائزفٹبال پرایک نام نظر پڑتا تھا ’رتڑا‘
یہ غالباً رتڑا سپورٹس اینڈکوکاسائن بورڈتھا۔ فوجی جیپ کی پچھلی نشست پربیٹھےسفر کی سمت سےایک زاویہ قائمہ بناتےہم نےاکثر اس سائن بورڈکےعنوان ’رتڑا‘ اور ڈرائیورہوٹل کے پلنگوں کو ایک ہی فریم میں دیکھا اورہمیں ہردفعہ شِوکماربٹالوی اورنصرت فتح علی کی یادآئی
توصاحبوبات اوررات کچھ پرانی ہوچلی ہیں مگروہ جو بھلےسے پنجابی گیت کےاتنےہی بھلےسےبول ہیں:
تینوں پچھےمڑکےتکنادل نوں پھبدا اے
جیویں گزریاویلااکثرچنگالگدا اے
توہمیں بھی گزرےوقت کی دلکشی سمیت دونوں یاد ہیں، بات بھی اور رات بھی رات تو ابھی کچھ آگے چل کر آئے گی، پہلے قصہ ایک بات کا۔۔۔
یارلوگ اسے جراسک پارک کہتے تھے۔ مین گیٹ میں کوئی خاص بات نہ تھی، ہاں ساتھ کی دیوارپر ایک قرآنی آیت آنےوالوں کااستقبال کرتی تھی۔ پانچ میل کی دوڑ اسی مین گیٹ سے شروع ہوتی، حبیب اللہ کالونی کی راہِ سکون سے گزرتی، پی ایم اے روڈ کی ایک جان توڑ عمودی چڑھائی چڑھتی، پی ایم اے اسپتال (PMAH) کی طرف سے باہر نکلتی جناح آباد کے راستے مین گیٹ کو واپس پلٹتی تو ایک مشقت میں سانسوں کی ڈوری کو تھامتے، تھکی ہوئی ٹانگوں کو سوجتنوں سے بھگانے پر راضی کرتے جراسک پارک کو پلٹتےکیڈٹ بےترتیب ہوتی دھڑکنوں کےساتھ اس آیت کو پڑھتے تو ترجمہ اور تفسیر بمعہ پرچۂ ترکیبِ استعمال سب سمجھ میں آجاتے:
لیس للانسان الا ما سعی
انسان کے لیے وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی
جن دنوں کا یہ ذکر ہے جنرل رضوان قریشی نے پی ایم اے کی باگ دوڑ ابھی سنبھالی ہی تھی۔موصوف کو پانچ میل کی دوڑ سے خاص انس تھا منگل کے دن جبکہ کمپنی میسزمیں لنچ میں حلیم پکتا تھا اور یارلوگ شکم سیر ہوہتھیارصفائی کی چندیاں اور پُل تھرو سیدھے کر رہے ہوتے تھے، کمانڈنٹ آرڈرز آجاتے تھے
Weapon cleaning is hereby cancelled. GCs will go for 5 Mile Run
بس پھر کیا تھا، یارانِ طرحدار، اسی ہتھیارصفائی والی رائفل کو کندھے پر ٹانگ، چھبیس آرٹیکل (جنکی گنتی کیڈٹ کی زندگی میں کبھی پوری نہیں ہوتی) کا سمال پیک کندھوں پر اُٹھا، شکم میں ٹھاٹھیں مارتے حلیم اور پانی کے محلول کے ساتھ خود کو بھاگنے اور بھاگتے رہنے پر آمادہ کرتے۔ دل میں اور زبان پر جنرل رضوان کی شان بلند کرنے کا ورد جاری ہوتا اللہ جنرل صاحب کی پنشن آبادرکھے، آپ کی جاری کردہ جسمانی مشقت کی کئی بدعتیں کیڈٹوں کی آئندہ نسلوں کامستقل ٹریننگ کریکولم بن گئیں
کاکول رینجزکی ہمسائیگی میں ٹھوس لکڑی کی بلیوں کوکندھوں پراٹھائے’ایسڈ’ ٹیسٹ دوڑتےکیڈٹ ہوں یاپھرہری پورسےآگےسری کوٹ کی گھاٹیوں میں گھات لگاتےٹی ایم ریڈرز انگریزی محاورےکےمطابق جنرل صاحب کافیض جاری وساری ہے
His legacy goes on
دیکھیےاس مرتبہ توہم تحریرکےآغازمیں ہی بھٹک گئے
صاحب ذکرہورہاتھاجراسک پارک کا۔ پی ایم اےکی تھرڈپاکستان بٹالین کایہ نام کیوں پڑا، یہ سمجھایا نہیں جاسکتا، ہاں دکھایا جاسکتا ہےاس صورت میں جب آپ یہاں کیڈٹ ہوں آج کاکول کانام آتےہی پاکستان ملٹری اکیڈیمی کی عالیشان فوجی درسگاہ کاتصوردماغ کےپردےپراترتاہے، مگربہت سال نہیں بیتےکہ یہاں یہ تام جھام نہیں تھا
کاکول، جس کاچرچا ہےیہ کچھ وہ کیاتھا
1902 میں جنوبی افریقہ سےبوئروارکےجوجنگی قیدی انڈیالائےگئے تعداد کےحساب سےان کاسب سےبڑاگروپ ایبٹ آباد کی قربت میں کاکول نامی گاؤں کےپاس ایک عارضی کیمپ میں ٹھہرایاگیا۔ کیمپ تویہاں کچھ مہینےہی رہامگر یہ کاکول کے فوجی تشخص کی ابتدا تھی۔ کاکول کے پاس آج بھی بوئر وار کے جنگی قیدیوں کے قبرستان کی باقیات موجود ہیں۔ بعد میں یہاں سپلائی اینڈ ٹرانسپورٹ کی ایک بٹالین تعینات رہی قیامِ پاکستان کےبعددہرہ دون کی انڈین ملٹری اکیڈیمی کی طرزپر یہاں پاکستان ملٹری اکیڈمی وجودمیں آئی
کاکول سےذراہٹ کےمیرپورکی پہاڑیوں کےدامن میں ٹوبےکیمپ قیامِ پاکستان کےوقت آرمی سکول آف فزیکل ٹریننگ کامسکن بنا۔ بعدکے سالوں میں یہاں کی بارکوں نےپاکستان ملٹری اکیڈیمی کی سیکنڈ پاکستان بٹالین کوخوش آمدید کہا
اس سے پہلے کہ ہم جیسے قسمت کے دھنی تھرڈ پاکستان بٹالین کے سپوت پدھارتے، ستر اور اسی کی دہائی میں یہاں جونیئرکیڈٹ بٹالین آباد ہوئی اور اپنی طبعی موت مرجانے تک یہیں رہی
مشکل یہ آن پڑی ہے کہ اپنے پڑھنے والوں کو جونیئرکیڈٹس کورس کیسے دکھائیں یوں سمجھیے کہ جہاں ہم جیسے لانگ کورس کےگُرگوں کو انٹرکرلینےکےبعد ایک تیکھے نقش اور ان سےبھی تھیکی نظروں والی ایک شبیہ نےزاویہ قائمہ پر اُٹھی انگشتِ شہادت (جس کامخاطب و ممدوح کوئی بھی ہوسکتا تھامگرہم جیسےسادہ دل سمجھےکہ ہم ہیں) سےزیربارِاحسان کیاتھا
Army needs YOU!
وہیں جونیئرکیڈٹس اللہ کی وہ برگزیدہ روحیں تھیں جنہیں اپنا مقصدِحیات میٹرک کےسنِ نوعمری میں ہی سمجھ میں آگیاتھا۔ اس کچی پنیری کا توابھی ڈھنگ سےکچھ بھی نہیں بھیگاتھا، نہ دماغ کی نسیں اور نہ ہی چہرے کی مسیں۔ میٹرک پاس ان سویلین لونڈے لپاڑوں کو پہلے تو فوج JCB کی فوجی تربیت کے جھانسے میں انٹر کرواتی اور پھر ملٹری اکیڈیمی کی وارداتِ قلبی کے پھیرمیں گریجویشن کا تڑکا لگاتی گیزیٹڈ افسروں کی کھیپ پاک فوج کے حوالے کردیتی۔ جے سی بی دراصل فوج میں کمیشن لینے والوں کا وایا بٹھنڈا گروپ تھا۔
وسط مئی 1995 کی اس روشن دوپہرجب ہم بمع اپنے جستی ٹرنک کے اس عالیشان گیٹ سے اندر داخل ہوئے جہاں اللہ کی نصرت سے فتح کی بشارت دی جارہی ہے تو اکیڈیمی میں فرسٹ اور سیکنڈ پاکستان بٹالین کی ملاکر کل آٹھ کمپنیاں تھیں۔ نئے تعمیرشدہ جدید سہولتوں سے آراستہ ہالز آف سٹڈیز، کمپنی میسز اور رہائشی بلاکس وداٹیچڈباتھ رومزاینڈ ہیٹرز
یہ مجموعی طورپرمین پاک کہلاتی تھی۔ لیکن صاحب ایک توویسے ہماری دُھنّی میں کھُرک ہورہی تھی اوردوسرےہم قسمت کےبھی دھنی واقع ہوئےہیں تووسط مئی کی اس ملگجی شام کوارٹر ماسٹر سٹورکےگناہوں کی گٹھڑی کندھےپرلادےجب ہم ڈھائی ٹن ٹرک میں ڈھوئےجارہےتھے تو ہمارےپاسپورٹ پر تھرڈپاکستان بٹالین کی عبیدہ کمپنی کاویزہ لگ چکا تھا۔ تھرڈ پاکستان بٹالین کاکول میں نہیں تھی اور اس کے چاؤچونچلے بھی کاکول والے نہیں تھے۔ منڈیاں کے سٹاپ کی قربت میں میرپورکی پہاڑیوں کے دامن میں ٹوبے کیمپ کی بارکوں اور اُنّی سو تُنّی کے وقت کے بلغمی دھواں اگلتے کوئٹہ سٹوو کی پرت داردھند میں مین پاک سےکوسوں دوریہ جراسک پارک تھی۔ صاحبو، تھرڈپاکستان بٹالین پاکستان ملٹری اکیڈیمی کی کالے پانی کی سزا تھی۔ جزائرِ انڈیمان تک آمدورفت کا یہ فاصلہ کیڈٹ دوڑتے قدموں سے یا پھر کبھی کبھارجب قسمت اچھی ہو ڈھائی ٹن ٹرک کے پچھواڑے بیٹھ کر طے کرتے تھے بٹالین روڈکےعین اوپرعبیدہ کمپنی کی جس بارک میں 95لانگ کورس کےپناہ گیروں کی آبادکاری عمل میں آئی اس کےدونوں سروں پردوہال نماکمرےتھےاور درمیان میں پیچھےکونکلتی ایک راہداری۔ سرکاری اسپتال کےجنرل وارڈسےمشابہ ہمارےکمرےمیں 12 جنٹلمین کیڈٹس آپسی روم میٹ تھےاوردیواروں سےڈھو لگائے اسی گنتی کےنواڑی پلنگ
پلنگ کےنیچےاس پرمتمکن کیڈٹ کاجستی ٹرنک اورہرنواڑی جھلنگے کےسرہانےایک دلربا بےاعتنائی سےکھڑی متوسط طبقےکی دلہن کے جہیزکی ٹریڈ مارکہ موٹےچادر کی کھڑک دارلوہےکی الماری
یہ تھی کل متاعِ فقیراوراس میں بھی یاروں نےآنےوالےدنوں میں چند تصویرِبتاں اورایک حسینہ کےخطوط کاحیلہ کرہی لیاتھا۔
اس جنرل وارڈ میں صبحِ صادق کے وقت ڈرل کے زیروپیریڈ کا صور پھونکا جاتا توایک بیدارہوتی افراتفری اور ہڑبونگ میں یہ کسی شعبۂ حادثات کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ کا منظر پیش کرتا۔ عجب نفسا نفسی کا عالم ہوتا۔ ہال نماکمروں سےبرآمد ہوتے وسطی راہداری کا رُخ کرتے کیڈٹس قطار اندر قطار چلتے چلےجاتے۔
اپنا تولیہ سمیٹے گا بچھائےگا کوئی
بے وفائی کی گھڑی ترک مدارات کا وقت
اس گھڑی اپنے سوا یاد نہ آئے گا کوئی
ترک دنیا کا سماں ختم ملاقات کا وقت
پانچ سو مربع گز سے رقبہ تو کچھ زیادہ ہی بنتا تھا، مگر عبیدہ 95 کی اس بارک پر ہوبہو اپنےمشتاق یوسفیؔ کی آبِ گم والی حویلی کاگمان ہوتاتھاکہ کیڈٹس کےاس اژدحام میں عقل دھرنےکی جگہ نہ تھی اورصاحبواگرہوتی بھی تودھرنےکوعقل تھی کس کےپاس
دیکھیےہمارےدماغ میں اور بھی جانےپہچانےاستعارےآرہےہیں۔ فی مربع گزپرسنل سپیس کی اسقدرتنگی کہ رات کو سوتے میں کسی کا خواب کسی کو آرہا ہے اور ساتھ ہی کسی نے جو کھجا کھجا کے لال کردی ہے مگرسکون نہیں آیا وہ کسی اور کی کہنی ہے۔ ہم لکھنےکو لکھ تو دیں مگر ڈرتے ہیں کہ ایک کمیونٹی واش روم کےاجتماعی ہنگام میں ہمارے پڑھنے والے کہیں کی چیز کہیں فٹ کرکے اپنی مرضی کے مطلب نکالتےپھریں گے۔ تو صاحبواتنی وضاحت دینی ضروری ہے کہ نہانےاوردھونےمیں ہرکوئی بلاشرکتِ غیرےخود مختارتھا ہاں چند ایک دھلائیوں کے بعد بنیان اور انڈرویئر سانجھے ہوگئے تھے۔خودہمارے پاس سمال سے ایکسٹرا لارج تک ہرسائز کا ایک ایک پیس موجود تھا
تو صاحب اسی جراسک پارک کےایک گوشےمیں نوتعمیرحمزہ بلاک بھی تھا، جس کےکمرےچمکیلے اورفرش لشکیلے تھے اسے حمزہ بلاک اس لیے کہتے تھے کہ مڈھ قدیم سے یہاں حمزہ کمپنی آباد تھی
تو بات حمزہ بلاک کی ایک رات کی ہے، جب عید کی چھٹیاں تھیں اور جیسا کہ اکیڈیمی کی ریت ہے، پنشمنٹ پریڈ کی ریسٹرکشنز (restrictions) پرہونے کے سبب جو گُرگے چھٹی جانے سے روک لیےگئے تھے ان میں ہم بھی شامل تھے لیکن حمزہ بلاک کی اس دلگیر رات کاکول کی دلربا کی چشمِ ناز کے دیرینہ گاہکوں میں ہمارے علاوہ دو اور لوگ بھی تے۔ 94 لانگ کورس کے ڈبل ریلیگی سرعمر سعید اور پچانوے لانگ کورس کا افضال۔ تو صاحب یہ تگڑم تھی ایک ویران تھرڈ پاکستان بٹالین کی چشمۂ مہتاب سے دُھل کے نکلتی رات تھی، شِو کمار بٹالوی کے بول تھے اور دا سنگنگ بُدھا نصرت فتح علی کی تان تھی،
آکھ سُو نی کھالئے ٹُک
ہجراں دا پکیا
لیکھاں دے نی پُٹھڑے توے
چٹ لے تریل لُونی
غماں دے گلاب توں نی
کالجے نوں حوصلہ رہوے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...