اگر کبھی جنوبی ایشیا اور شرق اوسط کا نقشہ دیکھ لیتے تو شاید جان پاتے کہ کس کے ساتھ کھڑے ہیں اور کس سے دشمنی کر رہے ہیں!
اُس پروردگار کی قسم! جس کی قدرتِ کاملہ نے توسیع پسند بھارت اور کمزور شرقِ اوسط کے درمیان یہ رکاوٹ پیدا کی‘ پاکستان کی مسلح افواج نہ ہوتیں تو ایران سے لے کر مصر تک سب ریاستیں بھارت کی اس طرح باج گزار ہوتیں جیسے سکم اور بھوٹان ہیں اور جیسے نیپال ہے!
اللہ کے بندو! کبھی نقشہ دیکھو! یہ پاکستان کی دفاعی پیداوار تھی جس نے سری لنکا کو اپنی تاریخ کی مہیب ترین دہشت گردی سے بچایا۔ ورنہ آج سری لنکا کی حیثیت بھارت کے تامل ناڈو صوبے سے زیادہ نہ ہوتی! یہ پاکستان کی افواجِ قاہرہ ہیں جو سر پر چوٹی رکھنے والے دھوتی پوش ہندوئوں کے عزم کے سامنے خم ٹھونکے کھڑی ہیں۔ آج ایران اگر بھارت سے تعلقات کی پینگ جُھلا کر ہوا میں اُڑتا ہے تو صرف اس لیے کہ وہ بھارت کی جسمانی پہنچ سے دور ہے اور محفوظ۔ روٹی کا نوالہ منہ کے بجائے کان میں ٹھونسنے والے پاگل کو بھی معلوم ہے اور اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج‘ میرے منہ میں خاک‘ مضبوط نہ ہوتیں تو ایران کیا پورا شرقِ اوسط بھارت کے دائرہ اثر میں ہوتا۔ بالکل اسی طرح جیسے سوویت یونین کے زمانے میں پولینڈ اور بالٹک ریاستیں تھیں!
1991ء کے اواخر تھے جب سوویت یونین ٹوٹا اور وسط ایشیا کو نام نہاد آزادی ملی۔ یہ لکھنے والا اُن چند افراد میں تھا جو پہلے پہل وہاں پہنچے۔ پاکستان کی سیاسی حکومت میں وژن تھا نہ ادراک۔ اُس وقت کے وزیراعظم نے جو سفیر بھیجا‘ سفارت کاری سے نابلد تھا۔ ایک وفد بھیجا گیا۔ روایت ہے کہ اس کے سربراہ جون ایلیا کے بقول حالتِ حال میں رہتے تھے۔ حکیم سعید چیختے رہے کہ وسط ایشیا کی آزاد ریاستوں پر توجہ دو۔ کسی نے نہ سنی۔ سمرقند میں چھ سو کمروں کا ہوٹل بنتے دیکھا۔ دل ڈوب گیا کہ تعمیراتی کمپنی بھارتی تھی۔ فلموں سے لے کر جوتوں تک‘ سب کچھ بھارت کا تھا۔ تاشقند یونیورسٹی کا اردو کا شعبہ بھارت کے مکمل قبضے میں تھا۔ یہ کالم نگار واپس آیا تو اس وقت کے سیکرٹری اطلاعات حاجی اکرم سے ملا اور منت کی کہ پاکستانی ڈراموں کے لیے بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ اہمیت دیں‘ حکمت عملی بنائیں اور میدان خالی نہ چھوڑیں۔ لیکن پاکستانی حکومتوں اور پاکستانی نوکر شاہی کی ترجیحات ہمیشہ ذاتیات سے وابستہ رہی ہیں۔ کچھ ہی ماہ میں ان ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے معاہدوں کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی۔ بھارت کی بینکاری‘ برآمدات اور سروسز نے قبضہ کر لیا۔ لیکن جو نکتہ اس نوحہ خوانی کے بعد بیان کرنا ہے‘ یہ ہے کہ اگر پاکستان کی افواج بھی اہلِ سیاست اور نوکرشاہی کی طرح ڈھیلی ہوتیں تو ازبکستان‘ تاجکستان اور کرغیزیا میں بھارتی فوجی دندنا رہے ہوتے۔
آج باغی گروہ صاف کہہ رہا ہے کہ ہماری لڑائی پاکستانی فوج سے ہے۔ جنرل ثناء اللہ شہید ہوئے تو جشن منایا گیا اور اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ آرمی چیف اور پشاور کے کور کمانڈر بھی ہدف ہیں۔ یہ اہداف تو بھارت کے بھی ہیں۔ عالم اسلام کی سب سے بڑی فوج کا سب سے بڑا دشمن کل تک تو بھارت تھا۔ آج باغی گروہ ہے۔ دونوں کا ہدف پاکستانی افواج ہیں۔ جو بھارت کا دوست ہے وہ پاکستانی افواج کا دشمن ہے۔ تو جو باغی گروہ کے دوست ہیں اُن کی کیا پوزیشن ہے؟ یقینا وہ بھی پاکستانی افواج کے دشمن ہیں۔
یہ کیسے لوگ ہیں جو اسی تھالی میں چھید کر رہے ہیں جس میں سے کھا رہے ہیں۔ پرورش ان کی پاکستان کر رہا ہے‘ پاکستان کی ہوا‘ پاکستان کی چاندنی‘ پاکستان کا پانی سب کچھ استعمال کر رہے ہیں‘ وہ ساری سہولیات جو پاکستانی ریاست نے بہم
پہنچائی ہیں‘ جہازوں اور ریل سے لے کر بجلی اور فون تک سب سے فائدہ اٹھا رہے ہیں لیکن ساتھ دشمن کا دے رہے ہیں۔ کبھی اگر‘ کبھی مگر‘ کبھی تاویلات‘ کبھی مطالبات۔ جیسے سو فیصد ان کے ترجمان ہیں۔ کبھی نہیں کہتے کہ انسانوں کو ذبح کرنا ناجائز ہے۔ قبروں سے لاشیں نکال کر چوراہوں پر لٹکا دی جائیں تو خاموش رہتے ہیں۔ بچوں اور عورتوں کے چیتھڑے اڑ جائیں تو چُپ رہتے ہیں لیکن پاکستان کی مسلح افواج پر اعتراض کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ مذبذبین بین ذالک لا اِلیٰ ھٰؤلاء و لا اِلیٰ ھٰؤلاء۔ درمیان میں ڈانوا ڈول ہیں۔ نہ پورے اِس طرف نہ پورے اُس طرف!
تہجد؟ کیا حجاج بن یوسف تہجد نہیں پڑھتا تھا؟ کیا عبداللہ ابن وہب تہجد نہیں پڑھتا تھا جسے اُس کے ساتھیوں سمیت حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے نہروان میں تہہ تیغ کیا۔ کیا ان کی پیشانیوں پر گٹے نہیں تھے؟
جنت؟ کیا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی فوج پر شدت سے حملہ کرنے والوں نے نعرہ نہیں لگایا تھا کہ ’’ہے کوئی جنت میں جانے والا؟‘‘ اور سب نے چلاّ کر جواب دیا تھا کہ ہم سب جنت میں جانے والے ہیں۔ اور پھر آں جنابؓ کے تیراندازوں نے ان سب کو ڈھیر کردیا۔
حنین کے موقع پر سرورِ کائناتؐ مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے۔ ناقص ہاتھوں والے ایک شخص نے کہا ’’اے محمدؐ! انصاف کرو۔ آپؐ نے انصاف نہیں کیا‘‘۔ آپؐ نے دو مرتبہ اس سے اغماض برتا۔ تیسری دفعہ پھر اس نے یہی کہا تو چہرۂ مبارک پر غصے کے آثار نمودار ہوئے۔ فرمایا: میں انصاف نہیں کروں گا تو کون کرے گا؟ مسلمانوں نے اس کا کام تمام کرنا چاہا تو منع فرما دیا۔ پھر فرمایا: اس شخص کی اصل سے ایک قوم نکلے گی جس سے دین اس طرح دور ہو جائے گا جیسے کمان سے تیر دور ہوتا ہے۔ وہ تلاوت کریں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ یہی وہ شخص تھا جو نہروان میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی سپاہ پر حملہ کرنے والوں میں اور قتل ہونے والوں میں شامل تھا!
صف بندی ہو چکی ہے! یہ جنگ آج نہیں تو کل‘ کل نہیں تو پرسوں‘ ضرور ہونی ہے۔ جس نے پاکستانی ریاست کا اور ریاست کا دفاع کرنے والی افواج کا ساتھ دینا ہے‘ وہ ایک طرف ہو جائے‘ جس نے دشمن کا ساتھ دینا ہے‘ اگر مگر نہ کرے اور کھلم کھلا دشمن کا ساتھ دے کہ بقول افتخار عارف ؎
صبح سویرے رن پڑنا ہے اور گھمسان کا رن
راتوں رات چلا جائے جس جس کو جانا ہے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...