نہ میں مومن وچ مسیتاں نہ میں وچ کفر دیاں ریتاں
نہ میں پاکاں وچ پلیتاں نہ میں موسیٰ نہ فرعون
بلہا! کی جاناں میں کون؟
سِر تے ٹوپی تے نیت کھوٹی لینا کی سِر ٹوپی تَرھ کے؟
تسبیح پھِری پر دِل نہ پھِریا لینا کی تسبیح ہتھ پَھڑ کے
چلِّے کیتے پر رب نہ ملیا لینا کی چِلّیاں وِچ وَڑھ کے
بلھے شاہ جاگ بِنا ددھ نہیں جمندا پانویں لال ہووے کڑھ کڑھ کے—- ( بابا بلھے شاہؒ )
بلہا! کی جاناں کہ وہ کون ہے؟ وہ تو سراپا محبت ہے۔ پنجاب کی سر زمین محبت کی کہانیوں پر فدا ہے ۔ محبت کا ایک نام رتن سنگھ بھی ہے۔ پنجاب کی سرزمین صوفیاء کی سرزمین بھی کہلاتی ہے۔ بابا فرید، وارث شاہ اور بلھے شاہ کی سر زمین۔ رتن سنگھ رتن سنگھ نے ان سب کے بھاووں (کیفیت ) کو من میں اتارا اور محبت کی کونپلوں کو پنجاب کی لہلہاتی فصلوں کی طرح دیکھنے کی خواہش میں ادب سے وابستہ ہو گیا۔ ان کا تعلق مغربی پنجاب کے گاؤں داؤد، تحصیل ناروال سے تھا۔ تقسیم ہند کے بعد انکا خاندان ہندوستان آ گیا۔
رتن سنگھ ، بلونت سنگھ، راجندر سنگھ بیدی کے بارے میں جب بھی سوچتا ہوں، مجھے خواجہ احمد عباس کی کہانی سردار جی یاد آ جاتی ہے۔ اس کہانی پر مقدمہ بھی چلا۔ آنگن میں لمبے لمبے عورتوں جیسے بال کو سنوارتا ہوا سردار۔ مگر یہ کہانی ایک ایسے انجام کو پہچتی ہے جہاں سرداروں پر بے ساختہ پیار آ جاتا ہے۔ میں نے بلونت سنگھ کو نہیں دیکھا۔ بیدی کو نہیں دیکھا ، میں نے ایک پیارے انسان کو دیکھا ہے ۔چلتی پھرتی کہانی سے ملاقات کی ہے۔ وہ خاموش بھی رہتے ہیں تو دیو مالایی کہانیوں سے رحم دل بادشاہوں کے کردار نکل کر آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگتے ہیں۔ ان کی کہانیاں پڑھئے تو كارل ماركس اور اینجلس سے ہوتے ہوئے متعدد لوك گيتوں اور لوک کتھاؤں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ یہ کہانیاں صرف معاشرے کے جذبات کی عکاسی نہیں کرتیں، ان میں تاریخ کا ایک سمندر ہوتا ہے۔۔ اور کیوں نہ ہو ۔۔ان آنکھوں نے تقسیم کی لٹی بستیاں دیکھی ہیں۔ لہو لہو مناظر دیکھے ہیں۔ ہجرت کی داستانوں کو گلے سے لگایا ہے، مگر یہ سردار ہیں، سب کچھ بھول کر نیی زندگی کی شروعات کرنے والے ۔ رتن سنگھ جب بھی ملے، مجھے خیال آیا کہ انھیں سرداروں کی زبان میں پیار سے پکاروں ۔۔اوے رتنا۔ اور وہ مجھے پیار سے کہیں۔ اوے بھایا جی ۔یا اوے پترا ۔۔میں پنجابی نہیں جانتا مگر اس زبان سے عشق ہے مجھے۔۔ اور یہی عشق سرداروں سے بھی ہے ۔۔پہلے کچھ باتیں سرداروں کے تعلق سے بھی کر لوں ۔۔میں ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا ۔ٹرین کھل چکی تھی۔ تھرڈ کلاس کمپارتمنینٹ کی کھڑکی سے باہر ایک بچے کا ہاتھ نکلا ہوا تھا ۔ دو سکھ تھے ، جو کھانے کی پوٹلی لے کر اسکی طرف دوڑ رہے تھے۔ انکو اس بات سے غرض نہیں کہ سامنے کون ہے۔ گرو دوارے کے دروازے سب کے لئے کھول دیے جاتے ہیں ۔رمضان شریف کے موقع پر جب ہریانہ ، دلی اور پنجاب میں مسلمانوں کو نماز کے لئے جگہ کم پڑ گیی ، سکھوں نے بابا گرونانک کے دروازے کھول دیے ۔ ضرورت ہو تو یہ سکھ بھنڈارا لے کر چیچنیا اور فلسطین بھی پنھچ جاتے ہیں ۔ میں نے ایسے ایک نہیں ہزاروں ویڈیو دیکھ ہیں ۔ یہ شہر ، ملک ، ذات ، قوم کی پرواہ نہیں کرتے ۔ بھنڈارے کی رسم کے لئے ہر اس جگہ پھچ جاتے ہیں ، جہاں فاقہ کشی ہو ،کھانا نہیں مل رہا ہو ۔ بہار میں سیلاب آیا تو سکھ بڑی تعداد میں حاضر ۔شاہین باغ احتجاج میں بندرا نے تو کمال کردکھایا ۔ہم جو ویران راہوں میں کھوتے ہوئے اپنوں کو تلاش کرتے پھرتے ہیں ، تو داڑھی اور پگڑی والے چہرے میں ہمیں ایک شناسا چہرہ نظر آتا ہے۔ میں اس چہرے میں رتن سنگھ کو دیکھتا ہوں ۔ پھر مجھے اقبال مجید کی یاد آتی ہے ۔ لکھنؤ والے عابد سہیل اور احمد جمال پاشا کی یاد آتی ہے ۔۔ ادب میں دوستوں کی جوڑیاں آباد رہیں ۔ مجھے یاد ہے ، میں اچانک لکھنؤ پہچا تھا ۔ معلوم ہوا کہ رتن سنگھ پر ایک پروگرام عابد سہیل نے رکھا ہے ۔ اوے ذوقی ۔۔ رتن سنگھ جب مجھے گلے سے لگا رہے تھے میں اس اوے میں روح کی سرشاری کو طلب کر رہا تھا ۔۔ بے چین روح ۔۔قریب او ۔۔ تمھاری مراد پوری ہوئی ۔ بہت پہلے نوے کی دہایی میں ایک کہانی سردارے لکھتے ہوئے میں اسی روحانی سرشاری سے دو چار تھا ۔ عابد سہیل نے مجھے پروگرام کی صدارت سونپی جبکہ اس وقت مجھ سے بڑے کیی ادبی چہرے وہاں موجود تھے ۔ میں نے صدارتی تقریر میں کہا ، کہ ہزاروں برس قبل محبت کے دیوی دیوتا ہوا کرتے تھے ۔۔ یہ دیوی دیوتا سندھ کی تھذیب میں بھی زندہ تھے ۔۔میں نے بتایا کہ ہزاروں سالہ قدیم پراسرار طلسماتی ملک میں اب بھی دیوتاؤں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے ۔۔ وہ روپ متی کی گفاییں لکھتا ہے اور تاریخ کے بوسیدہ کھنڈرات کے دروازے کھٹکھٹاتا ہے ۔۔ میں نے کہا ، وہ خلش میں منٹو ، محبت میں کرشن چندر ، خود کو مشکل حالات میں ٹٹولتا بیدی اور چٹخارے میں عصمت ہے ۔۔ یہ سب سمندر کے کنارے ہیں جو اس کی شخصیت میں پیوست ہیں ۔ وہ لہروں سے عشق اٹھاتا ہے ، پنجاب کی سر زمین سے جوگ لیتا ہے ، اور منٹو سے قلم مانگ لیتا ہے ۔۔۔ ۔۔ ایک مختصر بلا عنوان کہانی کا یہ اقتباس دیکھئے ۔
میں ۔۔ گہری نیند سورہا تھا۔
اتنے میں ٹوبہ ٹیک میرے پاس آیا اور بولا ’’منٹو صاحب نے عرش سے آپ کے لئے یہ قلم بھیجا ہے۔
ابھی میں ایک خوبصورت قلم مل جانے پر خوش ہو رہا تھا کہ اپنے سامنے ایک حبشی کو کھڑا پایا۔
جی جوگندر پال صاحب نے فرش سے آپ کے لئے روشنائی بھیجی ہے۔
میں نے روشنائی لے کر اپنے پاس رکھ لی۔
صبح جب نیند کھلی تو میری ہتھیلی پر ’’مانک موتی‘‘ چمک رہے تھے۔
ایک وقت آیا جب وہ افسانے بھول کر ’’مانک موتی‘ لکھنے لگا ۔ وہ سروں کی ، موسیقی کی پہچان رکھتا ہے ۔ موسیقی سے انسانیت کے سر نکالتا ہے ۔ روحانی نغموں کو صدا دیتا ہے ۔ وہ ترقی پسند بھی ہے جدید بھی ۔۔وہ منٹو کے عہد کا بھی ہے اور خورشید اکرم ، خالد جاوید کے عہد کا بھی ۔ وہ دریا اور سمندر کے حال جانتا ہے ۔ وہ بہت کچھ کھو کر بھی سردار ہے ، سردار ہونا اس کی منزل ہے ۔ سرداری سب کے حصّے میں نہیں آتی ۔ وہ خواتین کی تنظیم بنات میں بھی شامل ہے اور ان کا حوصلہ بڑھاتا ہے ۔ میں نے ہمیشہ بھابھی کو رتن سنگھ کے ساتھ دیکھا ۔گریٹر نویڈا کے فلیٹ میں بھی کیی بار بھابھی سے ملا ۔بھابھی کا ساتھ چھوٹ گیا ۔ رتن سنگھ تنہا ہو گئے ۔ وہ دوبارہ مانک موتیوں سے ہمارے خواب سجانے لگے ۔
’’ایک چھوٹے سے شہر کے چھوٹے سے محلے کی ایک تنگ سی گلی میں کسی چھوٹی سی بات پر دو فرقوں کے درمیان فساد ہو گیا۔ آگ ایسی لگی ، اتنی پھیلی کہ ایک بڑا ملک برباد ہو گیا۔‘‘
’’برلن کی دیوار ٹوٹنے پر مشرقی جرمنی میں رہ رہا ایک ہندوستانی ، مغربی جرمنی میں رہ رہے پاکستانی سے اس جوش سے بغل گیر ہوا جیسے ان کے اپنے ملکوں کو تقسیم کرنے والی واہگھے کی دیوار ٹوٹ گئی ہو۔‘‘
’میرے ننگے بھوکے بچے نے اگر ہنسنا سیکھ لیا تو کل کو اسے بھیک کون دے گا۔‘‘
’’دو بڑی طاقتوں کے بحری بیڑے سمندر میں ایسی جگہ پر لنگر ڈالے پڑے تھے جہاں ان کے بیچ ایک چھوٹا سا جزیرہ تھا۔ کسی سوال کو لے کر دونوں بڑی طاقتوں کے مقاصد ٹکرا گئے۔ بڑی طاقتوں کا تو کوئی نقصان نہ ہوا ، ہاں وہ چھوٹا سا جزیرہ مفت میں مارا گیا۔‘‘
رتن سنگھ کی تحریروں میں تجربات و مشاہدات کی دنیایں آباد ہیں ۔ ان کی کہانیوں کا طلسم انسانیت میں پوشیدہ ہے ۔وہ معاشرہ کی مثبت اور منفی دونوں طرح کی عکاسی کرتا ہے۔ مگر بھولتے بھولتے بھی تقسیم کے لہو رنگوں کو اپنے افسانوں سے علیحدہ نہیں کر پاتا ۔ اس کی ایک کہانی کا یہ رنگ دیکھئے ۔۔
جہاں کہیں وہ کسی آدمی کی صورت دیکھتا ہے اسے دہشت ہونے لگتی ہے۔ اس کے پاؤں تلے جیسے زمین کے ذرے انگارے بن جاتے ہیں اور وہ اس آگ سے بچنے کے لیے تیز رفتاری سے بستی کے باہر کی طرف دوڑنے لگتاہے۔ وہ دوڑتا ہے تو کھیتوں میں کٹی ہوئی فصلوں کی جڑیں پگڈنڈیوں پر بکھرے ہوئے کنکر پتھر، راستے کی جھاڑیاں، یہ سب اسے لہو لہان کرتی رہتی ہیں۔ لیکن وہ دوڑتا رہتا ہے دوڑتا رہتاہے لیکن گاؤں کی آخری حد پر پہنچتے ہی نہ معلوم کون سی مقناطیسی کشش اسے واپس کھینچ لاتی ہے اور وہ پھر گاؤں کی طرف پلٹ آتا ہے یا پھر اس کے گرد چکر لگانےلگتاہے۔
— ( لہو لہو راستے )
رتن سنگھ کو اس بات کی تشویش ہے کہ اردو افسانہ نگاروں کی نئی نسل کہاں ہے ؟ایک پروگرام میں تقریر کے دوران انہوں نے کہا کہ نیی نسل کب آئے گی ؟۔ نئی نسل کے کہانی کار کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی کہانی لکھے کہ رات کو جب دن بھر کا تھکا ماندہ انسان بستر پر لیٹ کر وہ کہانی پڑھے تو اس کہانی کے سرور میں رات بھر زندگی کے خواب دیکھے اور صبح ہوتے ہی ان خوابوں کی تکمیل کی جستجو میں جٹ جائے ۔ انہوں نے نصیحت کی کہ کہانی کار کا کام صرف نام نمود کی خاطر کہانی لکھنا نہیں بلکہ یہ ایک سماجی بہبود کا فریضہ ہے اور انسانی جذبات کے انتشار کی تسکین کا مستحکم ذریعہ ہے۔ اس بیان میں بھی بلھے شاہ کے گیتوں اور گرو بانی کا اثر صاف نظر آتا ہے ۔ ہیر رانجھا ، سوہنی مہیوال کی دھرتی کی خوشبو ہی ایسی کہ رتن سنگھ اب بھی محبت کے نغمے سنا رہے ہیں اور نغمے سنانے کے لئے ۔نیی نسل کو تلاش کر رہے ہیں ۔
سانسوں کا سنگیت ان کا ناولٹ ہے ۔ سو صفحات پر مشتمل یہ ناول زندگی اور موت کے درمیان کے رابطے کی کھوج کرتا ہے ۔ ساسوں کا سنگیت گم ، اور انسان گم ۔۔ایک انسان کی کہانی جو اسپتال میں بھرتی ہوتا ہے ۔۔ پھر یہ کہانی زندگی اور موت کی بحث سے الجھتی ہے ۔ میں اس کہانی میں دور تک بہت کچھ دیکھنے اور محسوس کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ تقسیم اور ہجرت کے واقعات نے جو نقوش ذہن پر مرتب کئے،اُن سے بچ بچا کر گزر جانا ممکن ہے ۔اپنے طویل مضمون ’فرقہ واریت…… کچھ شیڈس‘ میں مَیں نے تفصیل سے اس بات کا ذکر کیا کہ اس وقت،اس ہنگامی صورتِ حال میں جو ادب تحریر ہوئے،وہ جذباتیت اور فرقہ واریت کی عینک سے تحریر ہوئے۔کرشن چندر سے لے کر احمد ندیم قاسمی تک……تقسیم اور آزادی کے بعد کے برسوں میں رتن سنگھ جیسے ادیب مسلسل سوالوں کے پُلِ صراط سے گزرتے رہے۔اندر کے ترقی پسند نے کبھی انسانیت کو مرنے نہیں دیا ۔ ۔رتن سنگھ سانسوں کے سنگیت میں ان سوالوں کے جواب تلاش کرتے ہیں ، جنکا جواب نہیں دیا جا سکتا ۔
حیات و ممات سے گزرتی کہانی میں ،رتن سنگھ نے اپنے تجربات کی وہ دھوپ رکھ دی ہے جس کی ایک ایک کرن اپنے قاری کو جلانے یا جھلسانے کا حوصلہ رکھتی ہے۔
برسوں پہلے مَیں نے الکزنڈرسونسٹن کی ایک کتاب پڑھی تھی۔”کینسر وارڈ“۔ گلاگ آرکیپالگو“ دونوں میں مجموعی طور پر ایک ہی فضا تھی۔یعنی پہلی بار میں ہر باب الگ الگ کہانیوں کے حصے معلوم ہوتے تھے،لیکن اُن کے مکمل مطالعے سے’ایک بھیانک سچ کے پُلِ صراط‘سے گزرنا پڑتا تھا……دیکھا جائے تو پہلی قرات میں لگتا ہے جیسے ہم ایک ساتھ بہت سی کہانیوں سے گزر رہے ہوں ۔ جب ہم آگ کے دریا سے گزر چکے ہوتے ہیں تو تو روح کا اضطراب لہروں کی طرح شور کرتا ہے اور اس شور سے سانسوں کا سنگیت جنم لیتا ہے ۔ سارترے کےIron in the Soul کی طرح اختتام پر روح میں کانٹے چبھتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ۔
سانس لے کر ہی سورج چمکے
اسی سے چندا دمکے
روپ گگن کا اسی سے نکھرے
اسی سے دھرتی مہکے‘‘
رتن سنگھ نے ایک اور تجربہ کیا ۔ایک ندی ، نام سرسوتی ، کہانی کاروں کی کہانیاں — افسانہ نگاروں میں کچھ پرانے ہیں کچھ ان کے ساتھ کے ۔۔ لہروں کی ہلچل کے درمیان یہاں بھی وہ زندگی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں ۔ ١٩٩٧ ، ساہتیہ اکادمی سمینار کا ایک موضوع تھا— میں اور میرا عہد- ملک کے ممتاز لکھنے والوں کو دعوت دی گئی۔ یہ جاننا بے حد اہم تھا کہ نیا لکھنے والا مین اسٹریم سے کس حد تک جڑا ہوا ہے۔۔ اس کا سماجی شعور کیسا ہے۔
”میں آج مر جاؤں یا دس سال بعد اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ بقول فراق صاحب ادب میں فرسٹ کلاس سے نیچے کوئی ڈبہ نہیں ہوتا— اور اس لحاظ سے اگر سوچا جائے تو ہمارے عہد کے کتنے ادیب جو آج اپنی جگہ بنانے کے لیے لڑ رہے ہیں زندہ رہ پائیں گے اس کا اندازہ لگانا ذرا مشکل کام ہے۔ اور یہیں سے اچھی تخلیق کا سفر بھی شروع ہوتا ہے کیونکہ فرسٹ کلاس لکھ لینے کے بعد یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ وہ تخلیق ہمیشہ کے لیے زندہ رہ سکے۔ ادب کے معیار بہت بلند ہیں۔“
— رتن سنگھ
ادب میں فرسٹ کلاس سے نیچے کوئی ڈبہ نہیں ہوتا۔۔ اس بات کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے ۔
بابا گرو نانک سے ایک حکایت منسوب ہے کہ ایک دن وہ ندی میں غسل کرنے گئے اور تین دن تک باہر نہیں نکلے ۔ ایک پیالہ ملا اور حکم جاری ہوا کہ خود بھی پیو اور دنیا کو بھی پلاؤ ۔ رتن سنگھ کو پیالہ سے مانک موتی ملے ۔ اور یہ مانک موتی وہ پیار سے ہم پر لٹاتے جا رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔