گاؤں کے بڑے چودھری کا انتقال ہوگیا تو جنازے پر تقریباً سارا گاؤں ہی موجود تھا۔ پہلا روز تو تدفین اور چھوٹے چودھری کے ساتھ "بس جی اللہ کی مرضی" کہنے میں گزر گیا۔ اگلے روز فاتحہ خوانی اور ختم قل کے بعد سب ہی لوگ پھوڑی پر موجود تھے۔ ایسے میں چھوٹے چودھری کی دلی خواہش تھی کہ لوگ مرحوم کی تعریف کریں اور ان کی خوبیاں بیان کریں جیسا کہ رسم دنیا ہے لیکن سب ہی خاموش بیٹھے تھے۔ اس نے ہلکے سے کھنکار کر گلا صاف کیا اور بات شروع کرنے کے لیے ابتدائی جملہ بولا:
"اللہ کا جو حکم ۔۔۔۔ ہم کیا کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
اس نے دائیں بائیں دیکھا کہ شاید کوئی اس کے آگے کچھ بول ہی پڑے لیکن سب لوگ اس سوچ میں گم کہ کوئی خوبی ہو تو بیان کریں۔ خوبی تو کیا، یہاں تو خامیاں ہی خامیاں تھیں جنہیں بیان کر کے نئے چودھری کے ساتھ دشمنی مول نہیں جا سکتی تھی۔ گاؤں کا کون سا شخص تھا جو بڑے چودھری کے ظلم کا شکار نہیں ہوا تھا۔ کسی کی زمین پر قبضہ کیا تھا تو کسی کے مال مویشی چھین لیے تھے۔ کسی کا پانی چوری کروایا تھا تو کسی کی کھڑی فصل کو آگ لگوا دی تھی۔ کسی ٹانگ تڑوائی تھی تو کسی کی بہو بیٹی پر میلی نظر ڈالی تھی۔ سارا گاؤں اسی سوچ میں گم تھا کہ تعریف کریں تو کیا کریں؟
چھوٹے چودھری نے سب کے لب سلے دیکھے تو کامے کی طرف رخ کیا۔
"رحمے! تو نے تو بڑی خدمت کی ہے وڈے چودھری صاحب کی۔۔۔۔۔۔"
رحما ایک دم چونکا ۔۔۔۔۔ اسے احساس ہوا کہ چھوٹا چودھری اس سے گردے کے آپریشن کا حساب مانگ رہا ہے جو وڈے چودھری صاحب نے بڑا ترس کھا کر شہر کے سرکاری ہسپتال سے کرایا تھا۔
"جی سرکار ۔۔۔۔۔ اللہ بخشے چودھری صاحب کو ۔۔۔۔۔۔۔"
رحما یہاں تک ہی پہنچا تھا کہ اسے یاد آیا ۔۔۔۔ جب وہ شہر کے ہسپتال میں زیر علاج تھا تو اس کی بڑی بیٹی کو چودھری صاحب نے "کام کاج" کے لیے اپنے ڈیرے پر رکھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس اس سے آگے وہ کچھ سوچ سکا نہ بول سکا۔
چھوٹا چودھری رحمے کی طرف سے مایوس ہو کر فضل دین نائی کی طرف متوجہ ہوا۔
"ہاں بھئی! تیرے ساتھ تو چودھری صاحب کی بڑی گپ شپ تھی ۔۔۔۔۔"
فضل دین ہڑبڑا کر بولا:
"جی سرکار ۔۔۔۔۔ جی سرکار ۔۔۔۔۔۔۔۔ "
فضل دین کا دماغ تیزی سے سوچنے لگا کہ اب کیا خوبی بیان کروں تو جان چھوٹے۔ اسے تو ہر بار حجامت بنانے پر دو چار گھونسے اور تھپڑ ہی ملا کرتے تھے۔ معاً اس کے ذہن میں اپنے ایک پیشرو نائی کا جملہ آیا جس نے ایسی ہی سچوایشن میں "مرحوم کی مونچھ کے بال سخت نہ تھے" کہہ کر اپنی جان بچا لی تھی۔ پھر اسے خیال آیا کہ وڈے چودھری صاحب تو نہ شیو کراتے تھے اور نہ ہی مونچھیں ترشواتے تھے۔ یہ سوچ کر اس کی گھگھی بندھ گئی اور بیچارہ کچھ کہے بغیر ہی رہ گیا۔
اسے خاموش دیکھ کر چھوٹا چودھری دانت پیس کر رہ گیا۔ اتنے میں اس کی نظر پیچھے بیٹھے میراثی پر پڑی۔ میراثی نے چھوٹے چودھری کی نظریں اپنی جانب دیکھیں تو ہاتھ جوڑ دئیے۔ گو اسے بھی کئی بار تھپڑوں اور گھونسوں کے تحائف مل چکے تھے لیکن فصل کے موقعے پر پیٹ بھرنے کو دانے بھی مل جاتے تھے اور سب سے بڑی بات یہ کہ میراثن اپنی صورت اور بھینگے پن کے باعث ہمیشہ چودھری کی نظروں سے محفوظ رہی تھی لہٰذا اس مشکل وقت میں مرحوم کی کوئی نہ کوئی خوبی بیان کرنا اس کا اخلاقی و معاشی فریضہ تھا۔ گو وہ ان پڑھ تھا اور ایبسٹریکٹ آئیڈیاز کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا لیکن اس کی پیدائشی ذہانت نے اسے ایک سجھاؤ دے ہی دیا۔ اس نے پھر ہاتھ جوڑے اور بڑی لجاجت سے کہا:
"اللہ جنت نصیب کرے ۔۔۔ وڈے چودھری ساب بڑے جمہوریت پسند آدمی تھے۔"
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...