راسخ العقیدہ اور آزاد خیال ️ یا ملحد
اسلام سے پہلے تمام مذاہب مطلقاً جنگ و جدال سے پھیلے یا نبی کے جانے کے بعد ایک عقیدہ بن جاتا تھا جو اس تحریک سے یک لخت تبدیل ہوجاتا تھا جیسے موسیٰؑ نے اپنے ماننے والوں کو 40 دنوں میں تختیاں لاکر ان کے حوالے کردیا تھا۔ حضرت عیسیٰ مفاد پرستوں کے بھینٹ چڑھ گئے تھے جس پر سینٹ پال نے عیسائی مذہب ترتیب دیا تھا۔ نبیؐ نے تمام چیزیں لوگوں کے ہاتھوں میں دے کر ان کو آزاد خیال یا کم از کم سوچنے ، سمجھنے پر مجبور کردیا تھا لیکن اُن کے ماننے والوں نے خردمندی لے کر اُن کو تقدس میں ملبوس کردیا تھا۔ خردمندی میں عالمگیریت (Universal) ہوتی ہےتقدس مقامی اور مخصوص ہوتا ہے ہر علاقے میں تبدیل ہوتا جاتا ہے کیونکہ علاقائی رسمیں تبدیل ہوتی جاتی ہیں پہلے لوگ ایک علاقے میں اپنی زندگیاں بسر کردیتے تھے جن کی یکسر تہذیب ہوتی تھی۔ جس میں گاؤں یا قصبوں کے پیشہ ور یا نوکری پیشہ لوگ شامل ہیں۔صنعتی دور میں یہ چیزیں تبدیل ہونے لگی تو مذہبی لوگوں کے پاس خردمندی کی کوئی راہ تو تھی نہیں انہوں نے اپنے ماننے والوں کو تقدس کے لبادے میں مضبوطی سے جکھڑنے کی کوشش کی تاکہ راسخ العقیدگی لوگوں پر چھا جائے۔ لیکن مندرجہ ذیل معاملات لوگوں کی زندگیوں میں کیسے تبدیلیاں آئی:
پہلے ایک علاقے میں ایک ہی عقیدہ کے لوگ ہوتے تھے جیسے فلاناں گاؤں مسلمانوں، ہندوؤں، سکھوں ، بریلیوں، دیوبندیوں، وہابیوں، شیعوں کا ہےتو سارے گاؤں میں ایک ہی مسجد، مندر گردوارا ہوتا تھا اس میں سارے لوگ مل بیٹھتے تھے اکٹھے ہوتے تھے اب ہر گھر میں لوگ مختلف عقیدہ رکھتے ہیں۔
راسخ العقیدہ لوگوں نے سوال کرنے پر پابندی لگائی ہوئی ہے لیکن آزاد خیال لوگ ہر چیز پر بات کرنا چاہتے ہیں جب کبھی کوئی تحریک اپنی عمر پوری کرلیتی ہے تو وہ قابلِ گفتگو ہوجاتی ہے جب تک اس کی حقانیت باقی رہتی اس پر تقدس اپنے ڈیرے نہیں جما سکتی ۔ اسلامی قدر و جبر کی تقدسی باتیں کرتے ہیں لیکن سائنسی و مادی قدر و جبر کی باتیں کئی نہیں کی جاتی۔
ایک دن مل کر عید کر لیتے ہیں۔ اب الیکٹرانک میڈیا نے یہ مسئلہ کسی حد تک حل کردیا ہے پھر بھی ملکی سطح پر بھی لوگ اکٹھے نہیں ہوتے بلکہ کچھ لوگ عرب سے ینگانگت پیدا کرنے کے خواہ ہیں۔ اس سے پہلے ایک گاؤں میں عید مناتے تھے روزے رکھتے تھے تو دوسرے گاؤں میں ایک دن بعد کیے جاتے تھے
زرعی دور میں لوگ جاگیردار، زمیندار، مضارع یا کمی کمین ہوتے تھے صنعتی دور میں پیشہ وارانہ وسعتیں پیدا ہوئیں سائنس اور ٹیکنالوجی سے لوگ دور دراز کے سفر کرنےلگ گئے، پہناؤے میں تبدیلیاں مغربی تبدیلیاں جس میں زبان کی تبدیلی، ٹیکنالوجی میں وسعت، رہن سہن میں حسن، لباس میں شائستگی،چھوٹی موٹی صنعتی چیزیں گھروں میں عام ہوگئی۔ زرعی مذہب اجتماعیت کی تبلیغ کرتے ہیں مغربی تہذیب انفرادی اہمیت دیتی ہے
اجتماعیت سے انفرادیت کی طرف کی طرف جارہے ہیں۔ پہلے گاؤں میں اکٹھے ہوکر بیٹھک میں بیٹھتے تھے، ٹی وی پر پورے خاندان کے لوگ بیٹھ کر دیکھتے تھے۔ اب پرسنل کمپیوٹرPC، لیپ ٹاپ اور موبائل فون نے لوگوں کو انتہائی ذاتی بنا دیا ہے سماجی ویب سائٹوں نے دور بیٹھے لوگوں کو نزدیک اور نزدیک بیٹھے لوگوں کو دور کردیا ہے۔ فصلوں کی کٹائی مل کر کیا کرتے تھے اب مشینوں سے کام ہوجاتا ہے وہی شخص کام کرتا ہے جسے غرض ہوتی ہے۔ جنازہ یا شادی میں کئی دیر سے لوگ موجود ہوتے تھے اب اسی وقت حاضر ہوتے ہیں
زکوٰۃ کی نسبت سود نے لے لی ہے۔ زرعی دور میں سود کو لعنت سمجھا جاتا تھا۔ صنعتی دور میں سود کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ سود وقت کی نسبت نافذ ہوتا ہے
راسخ العقیدہ لوگوں میں مذہبی تقدس اور لالچ کی وجہ سے کئی فرقے پیدا ہوگئے جن کا مقصد لوگوں کی اصلاح کرنا نہیں ہوتا بلکہ ان کا کام اپنے فرقے میں زیادہ سے زیادہ اندراج کرنا ہے۔ لیکن ان کا داخلی اختلاف اپنی جگہ موجود ہوتا ہے کوئی ذکوٰۃ دیا اور دوسرا نہیں دیتا حالانکہ اس دور میں زکوٰۃ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ اس طرح کوئی کہتا ہے کہ درود پڑھو اور کوئی کہتا ہے سنتیں اور نفل پڑھتے رہے اسی طرح حج اور عمرے ادا کرتے رہیں لیکن یہی لوگ اپنے گھروں کا فالتو سامان اٹھا کر باہر پھینکتے ہیں اور دوسروں کیلیے کئی قسم کی پریشانی کا سبب بنتے ہیں اس کا کئی احساس نہیں دلایا جاتا ۔
ارتقائیت انسان، کائنات، تہذیبوں، مذہبوں کا خاصا ہے۔ یہ ارتقائی عمل ہی ہے جو انسان کو دیوتا بننے سے روکتا ہے ورنہ دیوتا بن کر اپنے لحاظ سے تبدیل کرلیتا۔ اسی تبدیلی کو سمجھنا ہی خردمندی یا آزادخیالی پیداکرتا ہے
مذہبی لوگ وسعتوں پر توجہ نہیں دیتے بلکہ عالمگیریت کی مخالفت بھی کرتے ہیں
پہلے لوگوں کی زندگیاں سورج کے گرد گھومتی تھی اور مذہب نے بھی سورج کے اوقات کار کو اہمیت دی ہے، اسی طرح ہندو مذہب میں پانی کی اہمیت، علاقوں کی اہمیت تھی ان سب کیلیے بجلی سے توانائی حاصل کرکے اپنے مطابق استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس دور میں یہی کام ہورہا ہے
ٹیکنالوجی میں ترقی سے مستفید ہونا مذہبی پریشانی کا باعث بنتا ہے کیونکہ ٹیکنالوجی کا استعمال انہیں اسلامی تہذیب سے دور کردے گا۔ ٹیکنالوجی سے دور رہنا خدا کے نزدیک ہونا ہوتا ہے۔ کیونکہ تبدیلیاں خدا سے اختلاف کا نتیجہ ہے جسے کئی چیزیں انسان کو نہیں پتہ چل سکتی جیسےبارش کا ہونا یا نہ ہونا، ماں کے پیٹ میں بیٹا ہے یا بیٹی، مستقبل کا، وغیرہ لیکن جدید کھوج سے کئی چیزوں کے ممکنات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح عدت کی مدت4مہینے 10دن ہیں لیکن کچھ دیر کے حمل (Pregancy) کا ٹیسٹ چند منٹوں میں ہوسکتا ہے لیکن عورتوں کو باہر جانے پر انتہائی پابندی کس لیے؟ کہ وہ کسی اور سے مجامعت کرکے نہ آجائے؟
اپنے علاقے کے لوگوں کی ایک ہی زبان ہوتی تھی۔ جو اس وقت کا عالم ہوتا تھا جو اس کا خیال ہوتا تھا یا عقیدہ ہوتا تھا وہی سارے لوگوں کا عقیدہ ہوتا تھا صنعتی دور کی وسعت سے لوگوں نے قرآن کیلیے عربی سیکھ لی، ہندو مذہب کیلیے ہندی انگریزی، فارسی، چینی زبانیں سیکھ لیں جس سے انکی تہذیبوں و مذہبوں کا اپنے مذہب اور تہذیب سے ینگانگت و تصادم کے دروس ملے
علمی لحاظ سے لوگوں کی سوچوں میں تبدیلیاں آئیں ہیں۔ پہلے سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی لوگ باہم ایک دوسرے کے ساتھ ملکر زندگی گزاردیتے تھے۔ بچہ اپنے باپ کے کام کاج میں سن بلوغت سے پہلے ہی شامل ہوجاتا تھا۔ سن بلوغت میں اسکی شادی کردی جاتی تھی لیکن سائنس نے لوگوں میں پیشہ وارانہ صلاحیتوں تک پہنچنے اور اس کے بعد اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے اور زوج کے ساتھ زندگی گزارنے تک کیلیے لمبا سفر طے کرنا پڑتا ہے اس کے بعد شادی کرسکتا ہے جسے ول ڈیورنٹ نے 30سال کی عمر تک والدین پر منحصر ہوتا ہے کہا ہے شادی سے پہلے جنسی خواہشات کی تشفی کیلیے مرد اور عورت دونوں سرگرداں ہوتے ہیں اور اسکو جدید ٹیکنالوجی نے ظاہر ہونے سے بھی بچایا ہوا ہے۔ ان باتوں پر جدید دنیا میں بات کرنے کی ضرورت ہے لیکن راسخ العقیدہ لوگ بچوں کی زندگی بننے نہیں دیتے ہیں اور زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں تاکہ جدید دور کے مطابق تربیت نہ ہوسکے
ٹیکنالوجی نے جہاں انسانوں کیلیے فائدے بھی پیدا کیے ہیں وہی اس کے نقصانات بھی سامنے ہیں۔ ایک انسان کو مارنے کیلیے بہت زیادہ جسمانی محنت کرنی پڑتی تھی۔ چھریوں چاقوں کے بعد گولیوں نے لے لی۔ اب ایک بمب دھماکے سے کئی لوگ آسانی سے مارے جاسکتے ہیں۔ مذہبی اور عسکری لوگ اس پر غریب لوگوں کا خون چوس رہے ہیں کہ اس سے حفاظت ہوگی۔ عالمی سطح کے لحاظ سے ان کی زندگی دیکھی جائے تو کیڑے مکوڑوں یا کارآمدی احمقوں سے زیادہ نہیں ہے پوری دنیا نے اس پر قانون سازی کررکھی ہے لیکن یہاں پر بے وقوف بنا کر مڈل مین (کاروباری، مذہبی، عسکری) عیاشی کی زندگی گزار رہے ہیں
ادب پر سنسر بورڈ کے تالے لگا کرتدریسی نصاب کا حصہ بنایا جاتا ہے حالانکہ جس معاشرے میں ادب جتنا کھل کر پیش کیا جاتا ہے۔ خردمندی بھی اسی میں ہے نا معیاری ادب تخلیق ہوتا ہے اور نہ تشہیر کیا جاتا ہے لوگ اس سے نہ آشنا ہے اور ادیب اس میں بقاء حاصل کرپاتے ہیں
مذہبی لوگ سیاست کو اچھے لوگوں کا مشغلہ نہیں قراردیتے اسی لیے میڈیا پر سیاسی تفریح کا بندوبست کیا جاتا ہے جس سے راسخ العقیدہ لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں۔
مذہبی حلقوں میں ابھی بھی تعلیم زبانی یاداشت پر منحصر ہے ترقی یافتہ ممالک میں لوگوں کو عملی تعلیم دی جاتی ہے جبکہ یہاں ابھی بھی سائنسی، تیکنیکی علوم کے سوالات کو زبانی یاد کرائے جاتے ہیں کیونکہ عمل سے یہ ہمارے مذہب کے رسوخ کا کئی للکار نہ لیں۔
یہ راسخ العقیدہ لوگ عام لوگوں سے اس طرح نتھی ہوئے ہیں کہ دوسرے لوگ ہمارے سے فائدہ اٹھا لیں تو اٹھالیں جیسے پہلی دنیا کے مڈل مین۔ لیکن نہ خود ترقی کریں گے اور نہ دوسرے لوگوں کو ترقی کرنے کا موقع دیں کیونکہ اس پر توہین کے، دین خطرے میں ہے وغیرہ کے نعرے لگا کر مکمل چپ کرا دیا جائیگا تاکہ تقدس کی چھڑی سے سب کو ہانکا جائے۔ جب تک تقدس نہیں اترتا تب تک لوگ قید میں رہیں گے لوگوں کو آزادی محسوس نہیں ہوگی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔