آپ یقین نہیں کریں گے لیکن یہ سچ ہے کہ رشید ہ کو سب پتا ہے۔رشیدہ گزشتہ دس سال سے ہمارے گھر میں کام کر رہی ہے، صفائی کرتی ہے، پوچا لگاتی ہے، کپڑے دھوتی ہے اور پھر کوئی بریکنگ نیوز سنا کر چلی جاتی ہے۔ پچھلے دنوں پنجاب میں بچوں کے اغواء پر جب کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ سب کیا ہورہاہے‘ رشیدہ نے ساری بات کھول دی۔’’صاحب جی!دل کے آپریشن کے دوران وزیر اعظم کے گردے فیل ہوگئے تھے اس لئے اب بچوں کو اغوا کرکے ان کے گردے نکال نکال کر وزیر اعظم کو پیش کیے جارہے ہیں۔‘‘ یہ سنتے ہی بے اختیار میرا ہاتھ کرسی سے پھسل گیا، میں نے تھوڑی دیر کنپٹی کھجائی’’اے رشیدہ المیڈا! تمہارے باخبر ذرائع پر مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن کیا میں وسیع تر ملکی مفاد میںتمہاری خبر کا سورس پوچھ سکتا ہوں، میرا مطلب ہے یہ خبر تمہیں کس نے سنائی؟‘‘
آنکھیں پھاڑ کر بولی’صاحب جی ! یہ خبر نہیں سچ ہے ‘ مجھے سب پتا ہے‘!!!
ایسا ہی ایک سچ رشیدہ کے منہ سے ایک ماہ پہلے بھی نکلا تھا جب اس نے بتایا کہ ’’اسموگ‘‘ اصل میں اسلام آباد میں سیاسی کارکنوں پر ہونیوالی آنسو گیس ہے جو دھیرے دھیرے سفر کرکے پنجاب تک پہنچ گئی ہے۔میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ بہن میری! یہ آنسو گیس اگر جی ٹی روڈ کے راستے آئی ہے تو اس نے جہلم کیوں Skip کردیا؟ یہ سن کر رشیدہ نے پہلے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا، پھر طنزیہ نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی ’موٹر وے سے بھی تو آسکتی ہے‘۔دلیل خاصی وزنی تھی اس لئے میں نے اثبات میں سرہلادیا…!!!
رشیدہ کچھ کچھ ایروناٹیکل انجینئر بھی ہے، بتا رہی تھی کہ پی آئی اے کا طیارہ اس لئے تباہ ہوا ہے کیونکہ جہاز کا بلیک باکس خراب ہوگیا تھا۔ جھنجھلا کرعرض کی کہ بی بی ! بلیک باکس کا جہاز تباہ ہونے سے کیا تعلق؟ جواب آیا’ صاحب جی !تہانوں کی پتا‘۔ یہ باتیں سن سن کر مجھے یقین ہوتا جارہا ہے کہ مجھے واقعی کچھ نہیں پتا۔ مثلاً حادثے کے پہلے روز ہی رشیدہ نے اپنے موبائل میں مجھے جہاز کے بدقسمت مسافروں کی چیخ و پکار کی آڈیو سنا دی تھی۔ میں بڑا سٹپٹایا کہ یہ جہاز کی آڈیو نہیں ہوسکتی کیونکہ نہ ابھی بلیک باکس ڈی کوڈ ہوا ہے نہ جہاز کے کسی مسافر کا موبائل سلامت ملا ہے، لیکن رشید ہ اپنی خبر پر قائم رہی۔مجھے بڑا تجسس تھا کہ آخر رشیدہ کو یہ ساری مخبریاں کرتا کون ہے، تھوڑی سی کھوج سے اس کا بھی پتا چل گیاکہ رشیدہ کا بڑا بیٹا مشتاق ماشااللہ میٹرک کے امتحان میں امتیازی نمبروں سے فیل ہوکر فیس بک جوائن کر چکا ہے اور پورے محلے میں سب کو تصویر کا اُنیسواں رُخ دکھاتا پھررہاہے۔میں نے احتیاطاً فیس بک پر مشتاق کی وال چیک کی تو انکشاف ہی انکشاف شیئر کیے ہوئے تھے، مثلاً یہ کہ بارشیں اس لئے بھی نہیں ہورہیں کیونکہ انڈیا نے بڑا سا پائپ لگا کر سارا پانی کھینچ لیا ہے۔روٹی، پانی، چاول، دال، چکن، مٹن، بیف ‘ پھل اور سبزیوں کے استعمال سے کینسر کا خطرہ بڑھ جاتاہے۔زیادہ کتابیں پڑھنے سے بندہ پاگل ہوجاتا ہے۔بابا وانگا نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ پاناما کیس زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔اسلام آباد کا چائے والا اور نیپال کی سبزی والی اصل میں بچھڑے ہوئے بہن بھائی ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت تین سال بعد ختم ہوجائے گی اور ٹرمپ اسلام قبول کرلے گا۔مشرف کو پھر آرمی چیف بنانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔نواز شریف اور مودی مل کر سیکنڈ ہینڈ کاروں کا بزنس کرتے ہیں۔ریحام خان موساد کی ایجنٹ تھی ‘ اس کا مشن عمران خان کو رس گلے میں زہرڈال کر دینا تھا‘لیکن عمران سے طلاق کے بعد چونکہ اس کا مشن ناکام ہوگیا تھا اس لئے موساد والوں نے اسے نکال دیا ہے اور تنخواہ بھی نہیں دی۔عمران خان ہر ماہ اسرائیل سے 75 کروڑ لیتا ہے اور جہانگیر ترین کے اکائونٹ میں ٹرانسفر کر دیتاہے۔
ایسے لوگ آپ کو جابجا ملیں گے، یہ اپنے تئیں خبر نہیں بلکہ بہت بڑا سچ آشکار کرتے ہیں اور سننے والے سے مہر تصدیق کا تقاضا کرتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو ہر انوکھی منطق پر فوراً ایمان لے آتے ہیں۔ہمارے ایک کولیگ فرمانے لگے کہ ’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بندہ پہاڑی جنگل میں اکیلا جارہا تھا، اچانک تیز آندھی چلنے لگی، اس نے فوراً ایک غار میں پناہ لی، شومئی قسمت کہ غار کے دہانے پر ایک بہت بڑا پتھر آگرا، بندے نے بہت زور لگایا لیکن پتھر پیچھے نہیں ہٹا،بالآخر جب تین دن بعد وہ موت کی آخری ہچکی لے رہا تھا تو اسے غیب سے ایک آواز سنائی دی کہ اے بندے! کاش تو نے خدا سے بھی مدد مانگ لی ہوتی۔‘‘ واقعہ سن کر میں نے ایک جھرجھری سی لی، کانوں کو ہاتھ لگائے اور اُن کے قریب ہوتے ہوئے آہستہ سے کہا’قبلہ! ایک چھوٹی سی الجھن تو دور کیجئے…بندہ اکیلا تھا، تو پھر یہ ساری کہانی آپ تک کس نے پہنچائی؟‘ انہوں نے گھور کر میری طرف دیکھا اوردانت پیس کر بولے’کاش اوس بندے دی تھاں توں ہوندا۔
کہانیاں گھڑنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں، ہر بندہ دوسرے کو حیران کردینا چاہتا ہے، ایسی بات سنانا چاہتا ہے جسے سن کر دوسرا اچھل پڑے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جو بندہ جس شعبے سے متعلق ہے اسے اپنے شعبے سے زیادہ دوسرے شعبے کے راز پتا ہیں۔ نیوروسرجن کودماغ کی رسولی کے متعلق جدید تحقیق کا شاید نہ پتا ہو لیکن اسے یہ ضرور پتا ہے کہ سی پیک منصوبے کے لئے سیمنٹ کہاں سے‘ کس دن اور کتنی مقدار میں آیا ہے۔سوفٹ ویئر انجینئر یہ کہہ کر چونکا دیتا ہے کہ چنیوٹ میں لوہے کے ذخائر ہمارے کسی کام کے نہیں۔ ایسے میں صرف سیاستدان ہی ہے جو سوفیصد اپنے کام پر دھیان دیتا ہے اور اٹھتے بیٹھتے صرف اپنے شعبے کی ہی باتیں کرتاہے۔
رشیدہ کہتی ہے ’صاحب جی! آپ تو میڈیا والے ہیں آپ کو کسی بات کا کیا پتا‘۔ بات تو ٹھیک ہے۔آج کل ہر بندہ اپنی ذات میں ایک میڈیا ہے اس لحاظ سے آدھی سے زیادہ قوم ’میڈیاکر‘ بن چکی ہے۔اخبار وغیرہ تو لوگ شوقیہ پڑھتے ہیں ورنہ ہر بندہ اخبار ہے‘بس ذرا سا چھیڑنے کی دیر ہے پھر دیکھئے سرخی بمعہ تفصیل کیسے بیان ہوتی ہے۔ایسی خبریں سن سن کر بعض اوقات اخبار جھوٹا لگنے لگتاہے۔کل ایک صاحب بتا رہے تھے کہ اسرائیل میں ٹاپ کے 30 یہودیوں کا نہایت خفیہ اجلاس ہوا ہے جس میں یہ طے پایا ہے کہ پاکستانی ٹی وی چینلز کو زیادہ سے زیادہ پیسہ دے کر اپنے لئے استعمال کیا جائے۔یقینا ایسی خبر سننے کے بعددل کی حد نگاہ صفر رہ جاتی ہے اور دماغ میں تراوٹ سی محسوس ہوتی ہے کہ جو خوشخبری ہم سننا چاہتے تھے آخر سن ہی لی۔مطلب کی بات کسی دوسرے کے منہ سے سن کر یقین اور پختہ ہوجاتا ہے اوربے اختیار اپنے آپ کو شاباش دینے کو دل کرتاہے کہ ہم بھی کتنے ذہین ہیں، پہلے سے ہی سوچ رہے تھے کہ ہو نہ ہو ایسی بات ہوگی۔رشیدہ اپنی جگہ ٹھیک ہے، و ہ جو سنتی ہے یقین کرلیتی ہے، اللہ اللہ خیر صلہ! تڑپتے تو وہ ہیں جو تحقیق ‘ کھوج اور سچ وغیرہ کے بیہودہ چکروں میں پڑ جاتے ہیں۔ایسے سنکی لوگوں کاخیال ہے کہ بات کی حقیقت تک پہنچنا بہت ضروری ہے حالانکہ یہ حقیقت تک پہنچ بھی جائیں تو تب تک جھوٹ ہی اصل حقیقت بن چکا ہوتاہے لہذا…خاموش رہیے اور بس یقین کر لیجئے بے شک فیس بک پر آپ کو یہ’ کھچ ‘ علامہ اقبال کے نام سے ہی کیوں نہ نظر جائے…’اے مرد مومن اپنا حق رائے دہی استعمال نہ کر…تیرے ڈالے ہوئے ووٹوں کا کیا فائدہ…!
یہ تحریر اس لِنک سے لی گئی ہے۔