کلیم عثمانی نے موت کی ارزانی کوسادہ مگر لازوال امیج کی مدد سے بیان کیا تھا :" خشک پتوں کی طرح لوگ اڑے جاتے ہیں"۔ انھی دو ایک سالوں میں اردو ادب کے شجر سے کتنے پتے جھڑے ہیں۔شمار مشکل ہے ۔ شمار کرتے ہوئے روح پر خنجر سا چلتا ہے۔ کیا ستم ہے کہ اس درخت پر خشک، بے برگ ٹہنیاں بڑھتی جارہی ہیں۔سوکھے نوکیلے کانٹے افراط سے ظاہر ہونے لگے ہیں۔وحشت اور تنہائی میں اضافہ ہورہا ہے ،ایسی وحشت جس کا علاج صحر ا کی وسعت میں بھی نہیں ۔ رشید امجد کے جانے کی خبر اس قدر اچانک تھی کہ کئی پہر اعصاب شل رہے۔ ایک عرب شاعر نے موت کو بلبلاتی اونٹنی سے تشبیہ دی تھی۔کہیں سے کوئی ہلکا سا اشارہ بھی نہیں تھا کہ اس اونٹنی نے راولپنڈی کی گلستاں کالونی کا رخ کر لیا ہے۔موت ، زندگی سے بڑھ کر سربستہ راز ہے۔
رشید امجدافسانہ نگار، نقاد، مدیر اور استاد تھے۔ وہ ان تھک آدمی تھے،جیسا کہ اس ملک کے عام آدمی (خوا ہ وہ بڑا ادیب ہی کیوں نہ بن جائے ) کو آخری لمحے تک ان تھک ہونا پڑتا ہے ۔ میراجی پر ان کی کتاب(جو ان کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا کتابی روپ ہے)اہم کتاب ہے ۔انتظار حسین و انور سجا د کے بعد کی نسل کے وہ سب سے اہم افسانہ نگارتھے۔ اپنے معاصرین منشایاد، احمد جاوید ، اعجازراہی ،مرزا حامد بیگ ودیگرسے الگ اور منفرد اسلوب کے حامل تھے۔ افسانہ مسلسل لکھا۔گزشتہ سال ہی ان کا نیا افسانوی مجموعہ "کہانی نے خواب دیکھا" شایع ہوا۔ کئی رسالوں کی ادارت کی۔ سرسیدین کے پاکستانی ادب کی چھ جلدیں ایک کارنامہ ہیں۔ مزاحمتی ادب تین جلدوں میں مرتب کیا ۔ دریافت، تخلیقی ادب، معیار اور کچھ دیگرجامعات کے رسائل کی ادارت بھی کی۔ طویل عرصے تک نہ صرف ادب کی تدریس کی بلکہ آج کے کئی معروف ادبا کی ذہنی و ادبی تربیت بھی کی۔
زاہد ڈار خود کو دستو فسکی کے لفظوں میں "بیمار آدمی " کہتے تھے۔ رشید امجد نے ستر کی دہائی میں آدمی کو بے زار آدم کے بیٹے کے طور پر پہچاناتھا۔جدید ادب، بیماری اور بے زاری اور ان کے نو بہ نو مظاہر سے جھوجھتا رہا ہے۔ سرد جنگ، نو آبادیاتی بوجھ، آمریتوں کے تسلسل اور سنتالیس میں دیکھے گئے خواب کی شکست کے ہمہ وقت احساس نے یہاں کے عام آدمی کو بیمار اور بے زار ہی کرنا تھا ۔رفتہ رفتہ رشید امجد نے بے زار آدم کے بیٹے کو عام آدمی کے طور پر پہچاننا شروع کیا۔ وہ اپنے افسانوںکو عام آدمی کے خواب کہتے تھے، ایسے خواب جو پوری جدوجہد کے باوجود تعبیر نہ پاسکے اور اگلے نسل کو منتقل ہوگئے۔ عام آدمی نے اپنی اگلی نسل کو بس یہی کچھ ورثے میں دیا۔ ایک تخلیق کار کے طور پر یہی رشید امجد کا گہرا دکھ تھا۔
رشید امجد جانتے تھے کہ عام آدمی ،بیسویں صدی کی آزادی کی تحریکوں کی ایک ’ تشکیل‘ اور لازمی ضرورت رہا ہے ۔آزادی کی کوئی تحریک ،عام آدمی کی آزادی کو منشور بنائے بغیر ممکن نہیںمگر اس تحریک کے قائد عام طور پر عام آدمی نہیں ہوتے یا جب وہ قائد بنتے ہیں تو وہ عام آدمی نہیں رہتے۔اس طور عام آدمی اپنی آزادی کا خواب،خاص ؍بورژوا؍اشرافیہ طبقے لفظوں ،بیانیوں،کلامیوں میں دیکھتا ہے۔یہ کوئی معمولی تناقض نہیں ہے۔ یہی تناقض عام آدمی کو اس کی آزادی سے دور رکھتا ہے اور اس کی جدوجہد کو مشقت میں تبدیل کرتا ہے۔رشید امجد کے یہاں یہ الم ناک احساس موجود تھا کہ عام آدمی اپنی آزادی کی ذمہ داری خود لینے کے بجائے دوسروں کے سپرد کرتا ہے۔ آسٹریائی ماہر نفسیات ولہلم رائخ کا اپنی کتاب’ سن ! بالشتیے (1946) ‘ میں یہ نکتہ کہ ’صرف تم ہی اپنے نجات دہندہ ہوسکتے ہو‘‘ رشید امجد کے افسانوں کی تہ میں کارفرما ہے۔عام آدمی کی پیہم بے اطمینانی اسے خواب دیکھنے یعنی اپنی حقیقی صورت ِ حال سے خلاصی پانے کی تخیلی مہم جوئی کی تحریک دیتی ہے ،مگر وہ اپنے تخیل کو حقیقت سے ہم آہنگ نہیں کر پاتا اور خواب دیکھنے کی تخیلی مہم جوئی جاری رکھتا ہے ۔یہی اس کی تقدیر ہے ۔ رائخ کے یہاں عام آدمی کو اس کی صورت ِ حال کا ذمہ دار قرار دیا گیا جو اپنے بجائے مسولینی ،نپولین ،ہٹلر اور سٹالن کو اپنا نجات دہندہ سمجھتا ہے ،جب کہ رشید امجدکے یہاں عام آدمی(جہاں تک وہ سماجی سیاسی صورت حال میں اپنی تلاش کا سفر جاری رکھتا ہے ) کی بد ترصورتِ حال کی ذمہ داری اس دنیا پر ہے جس میں وہ اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کی جدو جہد کرتا ہے۔رشید امجد کے افسانوں کے عام آدمی کے تصوراورآزادی کی تحریکوں (خواہ وہ سیاسی ہو ں یا ادبی) کے عام آدمی کے تصور میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں میں عام آدمی کو اوج و رفعت سے ہمکنار کرنے کی کوشش ہے ۔مگر ایک اہم فرق اس ضمن میں یہ ہے کہ آزادی کی تحریکوں کے عام آدمی کو خارجی طور پرexalt کیا جاتا ہے ،تاکہ اسے متحرک کیا جاسکے جب کہ رشید امجد کے یہاں داخلی طور پر عام آدمی کوexalt کرنے کی سعی ہے تا کہ وہ اپنے خوابوں کی تعبیر پاسکے اور شناخت حاصل کر سکے۔
رشید امجد کا عام آدمی تیسری دنیا کے ایک نو آزاد ملک کے بڑے شہر میں مقیم ہے۔وہ زیادہ تر ایک سرکاری دفتر کا ملازم ہے؛استاد ہے ،بگل والا ہے اورسب سے بڑھ کر خواب دیکھنے والاہے۔یوں تو اس کے خواب کئی ہیں:ترقی،خوشحالی،عزت نفس اور اپنی ذات کی تکمیل ؛بنیادی خواہشوں سے لے کر خواہشوں کے جبر سے آزادی کے خواب،مگر ان سب خوابوں کی تہ میں شناخت کے ایک رفیع تصور کو اپنا حقیقی تجربہ بنانے کی شدید آرزو پائی جاتی ہے۔ان کے ابتدائی افسانوں میں شناخت کا مسئلہ ،سماجی ،سیاسی جبر سے آزادی کی کوشش میں اپنا اظہار کرتا ہے۔آگے چل کر شناخت کا سوال مابعد الطبیعیاتی حدوں میں داخل ہوتا ہے۔ان کا افسانہ عام آدمی کی جذباتی ،ذہنی اور روحانی جدوجہد اورنشوونما کا بیانیہ بنتا ہے۔
رشید امجدکےعام آدمی کے خواب اسے بالآخر مرشد اور شیخ کے تصور تک لے گئے۔ مرشد کا کردار بڑی حد تک حلاج کا پروٹو تائپ ہے ۔شاید اس لیے کہ حلاج بھی ایک عام آدمی، دھنیا تھا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مرشد کا کردار، ان کے عام آدمی کے کردار ہی کا ایک رخ ہے۔’شب ِ مراقبہ کے اعترافات کی کہانیاں ‘ میں مرشد اچانک ظاہر ہوتا ہے؛ صاف محسوس ہوتا ہے کہ وہ مراقبہ کی کیفیت میں کشف کی صورت نمودار ہوتا اور عام آدمی کی راہ نمائی کرتا ہے۔دوسرے لفظوں میں عام آدمی کے اندر ہی اس کا راہ نما موجود ہے۔وہ خود ہی اپنا ہادی و رہبر ہے۔’’مرشد اسی شام مل گیا ۔لمبی سیر کے بعد ذرا سستانے کو وہ سیمنٹ کی بنچ پربیٹھ گیا ،مرشد ساتھ آ بیٹھا۔دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔میں تو تمھیں جانتا ہوں۔ اس نے مرشد سے کہا۔"
رائخ کا بالشتیہ سماجی و ثقافتی تناظر میں اپنے وجود کی رمز سے آشنا ہوتا ہے اور رشید امجد کا عام آدمی مابعد الطبیعیاتی سیاق میں اپنی ہستی کی رمز تک رسائی کی کوشش کرتا ہے۔مرشد سے ملاقات کے بعد بہ ظاہر لگتا ہے کہ رشید امجد کے عام آدمی نےاپنی شناخت کے اس رفیع تصور کی منزل سر کر لی ہے جس کا وہ ہمیشہ خواب دیکھتا رہا ہے۔مگراصل یہ ہے کہ ان کا عام آدمی اپنے خوابوں کی کھڑکی کھلی رکھنا چاہتا تھا ۔ایک ایسے زخم ،ایک ایسی صورت ِ حال کو برقرار رکھنا چاہتا ہے جو اسے اس کی انسانی سطح پر قائم رکھےاور اس کے دل میں مسلسل سفر کی آرزو کا چراغ جلائے رکھے!
رشید امجد کا بہ طور تخلیق کار یہ سارا سفر ایک مکمل اوڈیسی تھا!