رشید امجد نے افسانہ نگاری کا آغاز اس وقت کیا تھا جب ادب میں نئی تحریک سر اُٹھا رہی تھی ۔حقیقت نگاری کو پرانا چلن قرار دیا جا چکا تھااور ایک نئی عصری حسیت جنم لے ر ہی تھی۔ ہما رے ہاں یہ ز ما نہ معا شر تی اور سیا سی سطح پر جو نئے مسا ئل لے کر آیا وہ نئی لسا نی تشکیلا ت کی راہ ہموار کر ر ہا تھا اور ایک نئے ادبی مزاج کا پتہ د یتا تھا۔
ر شید امجد کا اسلو ب لفظیات کا ایک منفرد نظام اپنے اندر ر کھتا ہے اور یہ ا نفرادیت اس امر میں پو شید ہ ہے کہ وہ لفظوں کوان کے اصل معا نی کے بجا ئے ایک اور مختلف صورت میں سامنے لاتا ہے جہاں اشیاء اور محسو سات کو تجسیم حاصل ہو سکے اور حسی سطح پر ادارک کا عمل پیدا ہو۔
اس کے ابتدائی مجمو عے’’ کا غذ کی فصیل‘‘ میں حقیقت نگاری کا ر جحان غالب ہے ا گر چہ عنوانات اور طرزِ احساس میں نیا پن ضرور مو جود ہے مگر اس کی اصل پہچان اگلے دو مجمو عے ـ’’ بیزار آدمی کے دو بیٹے‘‘ اور ’’ریت پر گر فت ‘‘ میں واضح شکل اختیار کر تی ہے ’’بیزار آدمی کے بیٹے‘‘میں مو ضو عات نسبتًازیادہ حاوی ہیں مگر ’’ ریت پر گر فت ‘‘ میں اسلو ب کو نما یاں ہو نے میں مدد ملی ہے ۔رشید امجد کے فن میں ٹھہراو نہیں ہے بلکہ ایک مسلسل ارتقا ء ہے جواس کے اسلو ب میں بھی حاوی ہے اوراس کے مو ضوعات میں بھی ۔
اپنے فنی سفر کے آغاز پر ز ند گی اس کے سا منے اپنی خارجی حقیقتوں کے سا تھ آئی ۔اس نے بھی اسے ایک حساس فنکار کی طرح جس طر ح دیکھا اس طر ح پیش کر دیا۔ ’’کا غذ کی فصیل‘‘ کے افسانے ان گر ے پڑے لو گوں کی کہا نیاں ہیں جو بند ھے ٹکے نظام میں کو لہو کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں گر دش کیے جا رہے ہیں۔ الف د ین ، بو ستان ، سلطان ، چو د ھر ی شیرا ، چو د ھر ی مو جود رسموں اور رواجوں میں پھنسے ہو ئے لو گ جو اپنی عزت ، اپنی ذات اور اپنے نام کے طلسم میں اسیر کر د یے گئے ہیں۔ رشید امجد کی کہا نی ’’ڈوبتے جسم کا ہا تھ‘‘ اس کی فکر کی بنیاد ہے جو بعد میں بہت د یر تک اس کے ساتھ چلتی ہے ۔ وہ دوسرا جو ایک تیز کلہاڑ لیے اس کے عقب میں مو جود ہے وہ ایک عفریت کی طرح ساری عمر چا ٹتا ر ہتا ہے ،کا ٹتا ر ہتا ہے ،تقسیم کر تا ر ہتا ہے اور اسے معلو م ہو تا ہے کہ اس کا وجود ایک مستعار حقیقت ہے جو کسی انجانے جبر کے با عث معاشر تی سطح پت تشدد جھیلنے کے لیے ر کھ د ی گئی ہے ۔
ر شید ا مجد کے ذاتی تجر بات میں محر و میوں کی فہر ست بہت طو یل ہے اس میں جنسی خو ا ہشات بھی ہے ۔اقتصادی مشکلات بھی،فطر ت کا جبر بھی ،تہذ یبی عدم تشخص بھی، قو می سطح پر ہو نے والے سا نحات بھی اور شہر ی ز ند گی کے پیدا کردہ ثقا فتی اقتصادی خلفشار بھی۔
ر شید امجد کو اپنے فنی سفر کے آغاز پر ہی ایو ب خان کے ما رشل لاء کا سامنا ہو گیا ہے ۔اس کے بعد سقوط ڈھا کہ کے واقعے نے جو عدم تشخص کا گھمبیر مسئلہ پیدا کیا اس نے حالات کی نزاکت کو سنگین بنا د یا بعد کے واقعات تو پھر اسی ز نجیر کی کڑ یاں تھے۔
رشید امجد کے ہاں ستر کے بعد عدم تشخص کا ایک اہم مو ضوع بن کر آتا ہے جواس کے افسانوں کے عنوانات تک سے ظاہرہے۔محر ومی ،نارسائی ،بے چہر گی ،بنجر پن ایک مسلسل افسوس ہے جو ہما رے عہد میں بھی پو شیدہ ہے،ہما رے معا شر ے میں بھی مو جو د ہے اور رشید امجد کے افسا نوں میں بھی ۔
بے اطمینا نی نے ر شید امجد کے ہاں نفسیا تی مسا ئل پیدا کیے اور بے معنو یت نے فلسفیا نہ ۔یہاں رشید ا مجد کے ہی مضمون کا ایک حوالہ ہماری بڑی مدد کر تا ہے۔
’’نئے افسانے میں ایک مو ضوع جس نے اب ایک مستقل حیثیت
اختیار کر لی ہے ، بٹی ہو ئی شخصیت کا مسئلہ ہے۔‘‘
رشید امجد کے ہاں موت اور قبر کا استعارہ اپنے مخصوص معا نی ر کھتا ہے ۔ایک سطح پر تو اس نے قبر کو ز ند گی کی بے معنو یت سے پیدا کیا پھر اسے ڈھال کے طور پر بھی استعمال کیا اور جس عالم میں اس کا عہد ز ندہ ہے یا جس عہد میں اس کی ز ند گی کا ایک عالم ہے وہ بھی تو قبر اور مو ت سے کم نہیں۔لیکن یہاں ایک دوسری سطح بھی ہے جوایک فلسفیا نہ صورت حال کو ہما رے سامنے لا تی ہے ۔جہاں زند گی کے معا نی ہی وہ موت میں پو شیدہ د یکھتا ہے۔
رشید امجد کا فن جا مد نہیں بلکہ ار تقاء پذ یر ہے۔ابتداء میں تواس نے ز ند گی کواس کی خا ر جی حقیقتوں کے ساتھ بیان کیاتھا، ’’بیزار آدم کے بیٹے‘‘اور’’ ریت پر گر فت‘‘ اس کے اسلو ب کی پہچان ہے ۔’’سہ پہر کی خزاں‘‘سے اس کے میلا نات اور مو ضو عات کا با قا عدہ تعین ہواہے مگر اب ایک اور مر حلہ اس کے مجمو عے ’’بھا گے ہے بیا باں مجھ سے‘‘ سے آغازہو تا ہے اور اب وہ بکھر ے ہو ئے و جود کو مجتمع کر نے کی فکر میںمبتلا دکھا ئی دیتا ہے۔ خواب یادیں اور کشف اب اسے اپنے ساتھ لے کر چلنے لگے ہیں۔