رشید امجد جدید اردو افسانے کا ایک معتبر حوالہ ہیں۔انہوں نے روایتی افسانے سے آغاز کیا ۔پھر علامتی افسانے کا آغاز کرنے میں سرخیل بنے اور تحریری و پیکری افسانے میں منتہائے مقصود تک پہنچے۔صبا اکرام اس ضمن میں لکھتی ہیں:۔
’’ جدید افسانہ نگار کی حیثیت سے جو نام سب سے اہم ہے وہ رشید امجد
کا ہے۔ان کے خصوصی ذکر کے بغیر جد ید علامتی افسانے پر لکھا گیا
کوئی بھی مقالہ نامکمل سمجھا جائے گا۔‘‘۱؎
موت اور قبر کا موضوع رشید امجد کے ہاں پسندیدہ موضوعات میں شمار ہوتے ہیں۔ہمیں اُن کے افسانوں میں قبر ،موت اور جنازہ کے موضوعات بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔کبھی جنازہ شہر میں گم ہو جاتا ہے۔کبھی قبر لاش مانگتی ہے۔کبھی بیوی کو بار بار یقین دلایا جاتا ہے کہ ’’میں مرچکا ہوں‘‘ کبھی گھر قبر اور قبر گھر معلوم ہونے لگتی ہے۔کبھی ماں کے مرنے کی دعا،کبھی زہر پینے کے بعد موت کا انتظار تو کبھی اپنی قبر کھدنے کا انتظار یہ سب موضوعات رشید امجد کے ہاںہمیں بکثرت ملتے ہیں۔موت کو اگر ہم رشید امجد کا رومانس کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔رشید امجد کے ہاں ہمیں موت کوئی ڈورانی شکل میں نہیں ملتی بلکہ ان کے ہاں یہ ایک قابل قبول صورت حال میں ملتی ہے۔اسے فرد کی زندگی میں بنیادی حیثیت سے پیش کیا ہے۔بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ رشید امجد کے ہاں موت ایک پناہ گاہ یا ذریعہ نجات ہے تو بے جا نہ ہوگا۔رشید امجد کے الفاظ میں:۔
’’قبر ،موت اور جنازہ مختلف ادوار میں مختلف معنویت کی علامت ہے۔۔
یہاں آکر سکون ملتا ہے۔کچھ دیر کے لیے دشمن فضا سے جان چھوٹ
جاتی ہے۔یہ فرار انفرادی نوعیت کا ہے۔اور حقیقت سے آنکھ چرانے
کے رویے سے عبارت ہے۔‘‘۲؎
رشید امجد کے ہاں ہمیں مختلف علامتیں جابجا ملتی ہیں۔مگر موت کی علامت کو انہوں نے بطور سیاسی حوالہ بھی استعمال کیا ہے ۔کیونکہ جب انسان خارجی جبر محسوس کرتا ہے اور ان کا سامنا کرتا ہے تو یہاں موت کا وجود سیاسی حوالوں کی شناحت بن جاتا ہے۔رشید امجد کے ہاں کا فرد خود ہی سے کہتا ہے اور خود ہی سنتا ہے۔اُن کے ہاں باتیں سرگوشیوں میں نہیں بلکہ چیخوں میں ہے۔وہ چیخیں جو اندر سے نکلتی ہیں۔اُن کے ہاں ہر افسانے میں ہمیں موت کی صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے۔’’عام آدمی کے خواب‘‘ میں اکثر کہانیاں ایسی موجود ہیں۔
اگر موت کو سیاسی حوالوں کے ساتھ بیان کیا جائے تو رشید امجد نے بہت ہی خوبصورت انداز میں احساس مرگ کو سیاسی حوالوں کے ساتھ اپنی کہانیوں کا حصہ بنایا ۔افسانہ ’’لاشیئت کا آشوب‘‘ ’’خواب آئینے ‘‘اور ’’ثمر بے ثمر پیڑوں کی جانب‘‘میں بھی موت کے سیاسی حوالے ملتے ہیں۔اب ان سیاسی حوالوں کی نوعیت کہیں فکری ہے اور کہیں اس کی صورت مجسم بھی نظر آتی ہے۔رشید امجد خود کہتے ہیں میرے افسانوں میں موت ایک اہم علامت ہے۔
رشید امجد کے ہاں موت اور قبر کی علامتیں ’’بھاگے ہے بیاباں مجھ سے ‘‘کے افسانوں میں اپنے معنی بدل یتے ہیں۔کیونکہ اُن علامتوں میں فکری اور مصنوعی ارتقاء بھی ہوتا ہے۔وہ افسانے میں موت اور قبر کی علامتوں کو یکسر تبدیل کردیتا ہے۔
موت کا احساس ہی فرد کو شدید وحشت میں مبتلا کردیتا ہے۔لیکن رشید امجد کو اس موضوع سے عشق ہے۔اور رشید امجد نے بڑی خوبصورتی اور باریک بینی کے ساتھ اس احساس کو افسانوں میں قید کرنے کی کوشش کی ہے۔جس کو عام قاری بھی محسوس کرسکتا ہے۔رشید امجد کے افسانے ’’ریزہ ریزہ شہادت‘‘ میں بھی موت کی تصویر کشی بڑی خوبصورتی سے کی گئی ۔موت کو لمحہ بہ لمحہ محسوس کرنا اور اس کے قریب تر ہونا کسی اذیت سے کم نہیں ہے۔رشید امجد نے اس افسانے میں اس اذیت کو بڑی چابکدستی سے افسانے میں پیش کیا ہے۔
افسانہ ’’بے راستوں کا ذائقہ ‘‘میں تو انہوں نے شروعات ہی ایک نہایت منفرد انداز میں کی ۔’’موت سب سے پہلے خواب بن کر اس کی آنکھوں میں اُتری اور صبح آنکھ کھلنے سے پہلے اپنا بدن چرا کر نکل گئی‘‘۳؎یہاں رشید امجد کا کردار اپنی موت کا یقین دلوانے کی کوشش کرتا ہے کہ ’’میں مرگیا ہوں‘‘ موت کی بے آواز آہٹ کو انہوں نے اس افسانے میں بڑی خوبصورتی کے انداز میں بیان کیا ہے۔
رشید امجد مخصوص کیفیات و محسوسات کی عکاسی کے لیے لفظوں کا چناؤ کرنے میں انفرادیت رکھتے ہیں۔اور ہر کیفیت کی عکاسی میں طاق ہیں اپنے افسانے ’’جواز ‘‘ میں بھی انہوں نے اسی ما یوسی کرب کو بیان کیا ہے جب وہ ہر جگہ سے مایوس ہوجاتا ہے تو ایک نئی فکر کو اپنے لیے چن لیتا ہے اور اس نئی فکر کو رشید امجد نے اپنے افسانے ’’جواز ‘‘ میں پیش کیا ہے۔
’’اس زندگی سے تو مرجانا ہی بہتر ہے ۔۔۔۔۔خیال سا
آیا ۔۔۔۔۔سارے جھنجھٹ سے نجات مل جائے گئی۔
بس مرجانا ہی بہتر ہے۔۔۔۔مجھے ایک سکون ملا‘‘۴؎
رشید امجد کے ہاں قبر زندگی کا اختتام ہے اور ایک اٹل حقیقت ہے۔لیکن اُن کے ہاں فرد یقین اور بے یقینی کے درمیان ملتا ہے۔ہر افسانہ نگار نے اپنے دور میں قبر اور موت کی علامتوں کو استعمال کیا۔مگر رشید امجد نے ان میں جدت پیدا کی ۔رشید امجد کے ہاں موت رومانس دکھائی دیتا ہے۔موت انہیں اپنی طرف کھنچتی ہے اور اس موت کے باعث دوسرے ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
’’الف کی موت کی کہانی ‘‘ اور جلا وطن میں موت اور قبر کی علامتوں میں قدرے جدت اور ردو بدل ہونے لگتا ہے ۔’’لا ‘‘؟ میں بھی قبر اور موت کی کشش کو بڑی خوبصورتی اور ایک نئی جہت دینے کی کوشش کی گئی ہے۔کہیں یہی موت کی سرگوشی حقیقت کے روپ میں آکر انسان کو اپنی سچائی اور گواہی کی قربت عطا کرتی نظر آتی ہے ۔رشید امجد کی ایک اور کہانی ’’ہے نہیں ہے‘‘ میں انہوں نے موت کی حقیقت اور سچائی کو اس طرح بیان کیا ہے ۔
’’تیرتے تیرتے اس نے دیکھا ،کسی کو اس کے چلے جانے کا دکھ نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ تھا تو دنیا نہیں تھی اب دنیا ہے لیکن وہ نہیں‘‘۵؎
رشید امجد کے ہاں احسا س مرگ جیسے پہلے بھی بات ہوچکی ہے کہ رشید امجد کا پسندیدہ موضوع ہے۔’’موت ‘‘ان کے نزدیک ہر ایک موڑ پر ایک نیا پہلو رکھتی ہے۔رشید امجد کے ہاں موت کئی معنوں میں استعمال ہوئی ہے۔کہیں یہ زندگی سے فرار ہے۔کہیں اپنے آ پ سے بیگانگی کی وجہ سے فرد موت ہی کو راہ فرار سمجھتا ہے اور کہیں معاشرتی و معاشی تنگی بھی فرد کو موت کی آغوش میں دھکیلنے کا باعث ہے۔رشید امجد ایک رُخ سے احساس مرگ کے پہلو کو نہیں بیان کرتے بلکہ وہ اس کے مختلف رنگوں کو بیان کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔
’’بیزار دم کے بیٹے ‘‘ میں موت کا تصور پہلی بار اُبھرتا ہے۔جبکہ فرد کی فرسٹریشن یہاں پراپنی انتہا پر نظر آتی ہے رشید امجد کے بقول:۔
’’بیزار آدم کے بیٹے ‘‘ سے جو سفر شروع ہوتا ہے ا س میں فرسٹریشن ہے۔
اس فرسٹریشن کی وجہ خاندانی مسائل معاشی مسائل اور جنسی آسودگی
سامنے آتی ہے‘‘۶؎
بہرحال رشید امجد کو موت کے ساتھ ایک عشق ہے جو اُن کے افسانوں میں محسوس ہوتا ہے۔موت اُن کو اپنی جانب کھنچتی ہے اس موت کے باعث دوسرے اُن کی جانب متوجہ ہوتے ہیں۔اُن کے ہاں فرد اپنے دکھوں کا مداوا صرف اور صرف موت ہی میں ڈھونڈتا ہے ۔اور جب فرد بے گانگی اور تنہائی کا شکار ہوتا ہے تو تب بھی مرنے کا تجربہ کرنا چاہتا ہے۔لیکن رشید امجد کے ہاں موت کہیں کہیں روشنی کا سبب بھی بنتی دکھائی دیتی ہے۔کیونکہ موت تو حقیقت ہے مگر یہ حقیقت فرد کو اس کی ذات سے خود آگہی کا پیغام بھی دیتی ہے۔
حوالہ جات۔
۱۔صبا اکرام ،’’جدید افسانہ ۔چند صورتیں‘‘زین پبلی کیشنز ،کراچی دسمبر ۲۰۰۱ء۔ص ۱۶
۲۔رشید امجد ،محرک گفتگو ،ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ ،ص ۳۷
۳۔رشید امجد ’’بے راستوں کا ذائقہ ‘‘عام آدمی کے خواب ،افسانے ،پورب اکادمی ،اسلام آباد ۲۰۰۷ء ،ص ۳۰۵
۴۔رشید امجد ’’جواز‘‘،گملے میں اُگا ہوا شہر ،نیشنل بک فاؤنڈیشن ،اسلام آباد ۲۰۱۵ء،ص ۱۹۸
۵۔’’ہے نہیں ہے‘‘ رشید امجد ،ص ۷۵۰
۶۔رشید امجد ،جدید افسانہ نگار ڈاکٹر رشید امجد کی یلغار ــ’’انٹرویو محمد حمید شاہد، امجد طفیل ،’’ادب و دانش ‘‘س ن ،ص ۳۵