ہریانوی ادب سے ترجمہ
سارا گاؤں نمبر دار کے نوہرے پر جمع تھا ۔ گاؤں کے عمررسیدہ بوڑھے تو چارپائیوں اور کرسیوں پر براجمان تھے۔ جب کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان کے پیچھے کھڑی نمبردار اور تھانے دار کی گفتگو سن رہی تھی۔
پاس ہی دو سپاہیوں کے ہمراہ کھڑا گاؤں کا تھانے دار، "دھولُو " کی ناگہانی موت کو قتل قرار دینے پر بضد تھا۔
" نمبر دار ! ایسے کیسے بے گناہ مان لوں اسے میں !
مانتا ہوں کہ مرنے والے کی موت سر پر کھونٹا لگنے سے ہوئی ہے اور پوسٹ مارٹم کی رپورٹ بھی یہی کہہ رہی ہے مگر ۔ ۔ ۔ ۔ مگر اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ وہ خود ہی کھونٹے پر گرا تھا۔ ۔! "
تھانیدارنے نمبردار کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔
" لیکن اس بات کابھی تو کوئی ثبوت نہیں کہ اسے کسی نے قتل ہی کیا ہے ۔ ۔ ۔! اور جس کا نام آپ لے رہے ہیں ، وہ مرحوم کا سگا بھائی ہے ،کوئی دشمن نہیں۔ " نمبردارنے کرما کی وکالت کی ۔
" یہ بھی تو ممکن ہے کہ کوئی لڑائی جھگڑا ہوا ہو ! ہوسکتا ہے کہ مرنے والے کو جان بوجھ کر ، دھکا دے کر کھونٹے پر گرایا گیا ہو۔ ۔ ۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ گرنے کے بعد ہی کسی نے اسے کھونٹا مارا ہو ۔! "
تھانے دار نے اپنا خیال پیش کیا۔
بات کچھ یوں تھی کہ آج سے تین دن پہلے صبج کے کوئی آٹھ نو بجے کے لگ بھگ " دھولو " کے گھر سے اچانک رونے پیٹنے کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں ۔ چیخ وپکار سن کر گاؤں والے دھولو کے گھر پہنچے تو دیکھا کہ گھر کے صحن میں دھولو کی سر پھٹی لاش پڑی تھی ۔
اس کی بیوی کا کہنا تھا کہ دھولو گھر کے آنگن میں اپنے بیٹے اور بھائی کے ہمراہ چارپائی پر بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ چائے پینے کے بعد وہ گھر سے باہر جانے کے لیےاٹھ کر دوچار ہی قدم چلا تھا کہ نہ جانے ایسا کیا ہوا کہ بس زمین پر گرتا ہی دکھائی دیا ۔ نیچے کھونٹا بندھا ہواتھا۔ اس پر سر لگتے ہی پھٹ گیا۔ میں نے اورکرمے نے اسے اٹھاکر چارپائی پر لٹادیا ۔کرما تو اسی وقت ڈاکٹر کو بلانے بھاگ لیا۔ لیکن دھولو کی آئی سر پر کھڑی تھی ۔ تھوڑی دیر میں ہی ﷲ کو پیارا ہوگیا۔ ڈاکٹر نے بھی آتے ہی اس کی موت کی تصدیق کردی تو اس کی بیوی نے رونا دھونا اور بین کرنا شروع کردیا۔
گاؤں کے نمبردار نے ساری بات سننے اور سمجھنے کے بعد تھانے اطلاع کروادی۔ ذراسی دیر میں تھانے دارآگیا۔ اس نے دھولو کی بیوی اور بھائی سے کچھ سوالات کیےاور لاش پوسٹ کو مارٹم کے لیے بھجوا دیا اور دوبارہ آنے کا کہہ کر لوٹ گیا ۔
پوسٹ مارٹم ہونے کے بعد اسی روز شام ڈھلے دھولو کی میت دفنادی گئی ۔
آج دھولو کا سوئم تھا۔ شام سے کچھ دیر پہلے تھانےدار آیا تو نمبردار گاؤں کے بزرگوں کے ہمراہ اس کا منتظر تھا۔
" تھانے دار جی ! یہ ساراگاؤں بھی کہہ رہا ہے ، آپ ہماری تو سنتے ہو نہیں۔ دونوں بھائیوں میں کوئی ایسی کوئی بات تھی ہی نہیں جوکسی جھگڑے کی بنیاد بنتی۔ کرما فوج میں ملازم ہے اور کافی سمجھ دار بندہ ہے۔ وہ ایسا کچھ کر ہی نہیں سکتا۔ "
نمبردار بھی آخر نمبردار تھا ۔ وہ بھلا کہاں چپ رہنے والا تھا ۔
" دونوں بھائیوں میں بہت محبت تھی۔ "
تھانے دار خاموش رہا تو نمبردار پھر بولا ۔
" پچھلے سال ہی تو مرحوم نے اپنے بھائی کے لیے نیا مکان بنواکر اپنے ہاتھوں سے اس کا بیاہ کروایا تھا ۔ اور شادی کے کچھ دن بعد ہی اس کا آدھا حصہ دے کر اسے علیحدہ کردیا تھا۔ پھر کیا مسئلہ رہ گیا تھا کہ وہ اپنے بھائی کو مارتا !"
نمبردار نے اپنی بات جاری رکھی۔
"دھولو کی گھر والی اور اس کا بیٹا بھی تو وہاں موجود تھے ۔ اور آپ نے ان سے پوچھ گچھ بھی کی تھی۔ اب بیشک گاؤں والوں سے بھی پوچھ تاچھ کرلو تھانے دارجی ! "
نمبردار کے خاموش ہوتے ہی ایک بوڑھا بول اٹھا ۔
" تاؤ ۔ ۔ ! "
" دھولو کا چھوہرا بھی تو ادھر ہی بیٹھا ہے ۔"
عقب میں کھڑے لوگوں میں سے کسی نے توجہ دلائی تو نمبردار بولا ،
" ہاں جی اس سے بھی ایک بارپھر پوچھ لو ۔ تم جس طرح چاہو اپنا بھیتر بھر لو "
نمبردار نے کھل کر بات کی۔ تو تھانے دار سر ہلاتے ہوئے بولا ،
" اپنا بھیتر تو ہم بھریں گے ہی ، کل کلاں کوئی فلم ہمارے گلے پڑگئی تو کون جواب دے گا ۔! "
" ہاں تو ہم نے کب روکا ہے ۔ آپ اچھی طرح اپنی تسلی کرلو ! "
نمبردار نے تھانے دار کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
" ہم تو صرف اتنا کہہ رہے ہیں کہ جب مرنے والے کی جورو اور اس کا بیٹا کسی کا نام نہیں لے رہے ، گاؤں والے بھی کرمے کی بے گناہی کی گواہی دے رہے ہیں، تو آپ کیوں ہاتھ دھوکر اس غریب کے پیچھے پڑے ہیں ۔ ؟ "
" کیوں بھائیو ! "
نمبردار نے گاؤں والوں سے مخاطب ہوکر پوچھا ۔
" کرما بے قصور ہے ۔"
" کرما ایسا کام کرہی نہیں سکتا ۔"
" دھولو کی موت اسی طرح لکھی تھی ۔"
گاؤں والے تو بولنے کے لیے جیسے تیار ہی بیثھے تھے۔ ہر طرف سے آوازیں آنا شروع ہوگئیں ۔
" ٹھیک ہے، ٹھیک ہے ! "
تھانے دار شور وشغب مچتے دیکھ کر بولا۔
" ٹھیک ہے نمبردار ! تم لوگ خود ہی نہیں چاہتے تو مجھے کیا پڑی ہے! میں کسی بے قصور کو کیوں پھنساؤں گا۔؟
مرنے والے کے بیٹے اور گاؤں کے دوچار لوگوں کے بیان لکھوادو ، میں اس قصے کو یہیں ختم کردیتاہوں ۔ "
تھانے دار ہار مانتے ہوئےبولا۔
نمبردار تو خود یہی چاہتا تھا، فورا" حامی بھرتے ہوئے بولا،
" جیسے آپ کی مرضی ، لکھ لیں بیان ! "
بیان لینے کے بعدتھانے دار جانے کے لیے اٹھا تو سارے گاؤں والے بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس کے جاتے ہی وہ سب بھی اپنے اپنے گھر وں کو ہو لیے۔
نمبردارنے " کاکے " کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور کہا۔
" جو ﷲ کی مرضی بیٹا ، انسان بہت بے بس اور مجبور ہے ! "
کاکا نم ناک آنکھوں سے گھر کی طرف چلا تو نمبردار اسے دروازے تک چھوڑنے آیا۔ اسے دروازے پر چھوڑ کر وہ بھی اپنے گھر چلا گیا۔
کاکا گھر پہنچا تو سورج غروب ہورہا تھا ۔ صحن میں اس کی ماں کے پاس گاؤں کی چند عورتیں بیٹھی تھیں ۔ وہ کمرے میں جاکر چپ چپ چارپائی پر لیٹ گیا ۔
کاکا بچہ تو تھا، مگراب اتنا بھی بچہ نہیں تھا ۔آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا ۔ اچھا براسب سمجھتا تھا ۔ لیکن آج اسے سوچوں کے جنگل میں بھٹکتے تیسرادن تھا ۔ اب تک اسے دو باتوں کا سراغ نہیں ملا تھا ۔ دونوں باتیں تین دنوں سے اس کے ذہن میں بچھو کی طرح ڈنک ماررہی تھیں ۔
" ماں نے یہ کیا کیا ؟ "
اس نے خود سے سوال کیا ۔
" جب ماں اور میں کمرے سے باہر آئے تھے تو صحن میں ابا اور چاچا میں ہاتھا پائی ہورہی تھی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے ہی تو چاچا نے ابا کو دھکا دیا تھا ۔ دھکا لگنے سے ، گرتے ہوئے ابا کا سر کھونٹے سے جا ٹکرایا تھا ۔ پھر ماں نے پولیس کو کچھ بھی کیوں نہیں بتایا ؟ مجھے ابا کی قسم کیوں دی ؟ نہ خود کچھ کہا نہ مجھے کچھ بتانے دیا ۔ "
اس کا ذہن منتشر ہوتا چلا گیا ۔
" ابا کی چاچے کے ساتھ لڑائی کیوں ہوئی تھی ۔ ۔ ۔؟
ابا تو بڑا اچھا آدمی تھا ۔ چاچا فوج میں چلا جاتا تو ابا چاچی کا کتنا خیال رکھتا تھا ! ان کے گھر اور کھیتوں کا کام ابا ہی تو کرتا تھا ۔ چاچی راتوں کو اکیلی ہوتی تو آدھی آدھی رات کو اٹھ کر چاچی کا پتا کرنے جاتا ۔ کبھی جلدی اورکبھی کبھار تو صبح تڑکے ہی واپس آتا۔ مرنے سے پہلے والی رات تو ابا سویا ہی ان کے گھر تھا ۔
معلوم نہیں چاچا رات کو ہی گھر آیا تھا کہ صبح سویرے پہنچا تھا ! "
" تُو اس طرح کیوں پڑا ہے بیٹے؟"
ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ اس کی ماں نے اندر آ کر اس کے سرپر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا ۔
" کچھ نہیں ماں ، بس یوں ہی ۔ ۔ ۔ "
مامتا کاہاتھ سرپر آیا تو اس کی آنکھیں بھر آئیں۔
" ماں ! میں کچھ سوچ رہا تھا ۔"
" کیا سوچ رہا تھا میرا بیٹا ؟ ویسے بھی اب سوچنے سے کیا ہوگا۔ اب تو تُو خود کو سنبھال۔ سب کچھ تجھے ہی سنبھالنا ہے ۔ میرا تیرے سوا اور کون ہے ؟ "
" ٹھیک ہے ماں !"
"ماں میں کچھ پوچھنا چاہ رہا تھا۔ "
کاکے نے چارپائی سے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا ۔
" پوچھ بیٹا ،کیا بات ہے ؟ "
اس کی ماں اس کے پاس چارپائی پر بیثھتے ہوئے بولی ۔
" چاچے نے ابا کو کیوں ماردیا ۔۔؟ چاچے نے ابا کو ہمارے سامنے ہی تو دھکا دیا تھا ۔ نہ تم نے پولیس کو کچھ بتایا اور نہ مجھے بولنے دیا ۔ یہ تم نے کیا کیا ماں؟ یہ تم نے کیوں کیا۔ ۔ ؟ "
کاکے نے روتے ہوئےاپنی ماں سے وہ بات پوچھ ہی لی ۔جو تین دن سے اس کے دماغ پر ہتھوڑے برسا رہی تھی ۔
" ہاں۔ ۔ ۔ ۔ بیٹا ! "
اس کی ماں سرد آہ بھر کر بولی ۔
" تیرے باپ کے ساتھ یہی کچھ ہونا تھا ۔ اپنی کرنی کا پھل تو اسے ملنا ہی تھا، اسے تو مرنا ہی تھا ۔ اس طرح نہ مرتا تو ۔ ۔ ۔! "
" تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کیا ماں ۔؟"
یہ کہہ کر کاکے نے اپنی ماں کی جانب دیکھا ۔اسے یوں لگا جیسے اس ماں کی آنکھیں شعلے برسا رہی ہوں۔
" تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔تو اسے ، میں مار دیتی۔ ۔ ۔ ۔ !!! "