راؤ انوار چیف جسٹس کے لیے چیلنج!
راؤ انوار کا سرینڈر کوئ اتنی بڑی خبر نہیں جتنا اس کا ان تمام کرداروں تک پہنچانا ہے جنہوں نے اس سے سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوگ جعلی مقابلوں میں مروائے ۔ یا اس نے خود جو لوگ اپنے دھندوں میں مارے ۔
پاکستان کا ایک اور بہت بڑا مسئلہ یہ بھی رہا ہے کہ کسی بھی بڑے سانحہ یا قتل کے شواہد ختم کر دیے گئے ۔ جس سے دو بہت بڑے نقصانات ہوئے ۔ ایک تو ان لوگوں کا نہیں پتہ لگ سکا جنہوں نے اس میں مرکزی کردار ادا کیا ۔ دوسرا واقعہ کے محرکات ، وجوہات اور معاملات ہمیشہ کے لیے دھندلا دیے گئے تا کہ مستقبل میں ایسے مزید واقعات کیے جا سکیں ۔ لیاقت علی خان کا قتل ہو ، یا بےنظیر کا مارا جانا، سانحہ ۱۲ مئ ہو یا سانحہ کارساز ، جنرل ضیاء کا طیارہ گرنا ہو یا ایر مارشل مشاف کا معمہ ہی رہا۔ اسی طرح بچوں کے اغوا ، قتل اور وڈیوز کے جرم ، سب کے سب قالین کے نیچے دبا دیے گئے ۔
یہ پوری قوم کی ساتھ ایک سنگین زیادتی ہے۔ ایک ایسی سازش جو پورے ملک کو ستر سال میں مکمل تباہی و بربادی کی طرف لے کر آ گئ ہے ۔
راؤ انوار صرف کسی سیاستدان ، کسی ایک شخص ، یا کسی ایجینسی کے لیے ہی نہیں انسان مارتا تھا ۔ وہ قبضہ مافیا سے لے کر ، بھتہ خوری اور اغوا کرنے والے کرداروں کے لیے بھی کام اور معاونت کرتا تھا ۔
اس شخص پر تو ایک فلم بنائ جا سکتی ہے جو شاید پھولن دیوی جیسے کردار سے بھی زیادہ جاندار ، مشہور اور خوفناک ہو ۔
جو میں کہ رہا ہوں یہ بلکل آسان کام نہیں ۔ چونکہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے تمام مشکل سے مشکل ترین کاموں میں ہاتھ ڈالے ہیں تو پھر اس میں دیر کیوں ۔
راؤ انوار کو ایک خاص protective cell میں رکھا جائے ۔ پوری سہولیات میسر کی جائیں اور تمام راز و نیاز کی باتیں اگلوائ جائیں ۔
کراچی کالے دھن کے معاملے میں دنیا کے دس بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے ۔ فوج ، سیاستدان ، مافیا ، سب کے منہ کو کراچی کا خون لگا ہوا ہے ۔ میں نے کچھ عرصہ کراچی نوکری بھی کی اور کاروبار بھی لہازا اس کے بہت سارے سیاہ واقعات میری نظروں کے سامنے سے گزرے ۔ میں وثوق سے کہ سکتا ہوں کہ ایم کیو ایم کا قیام اگر کراچی کی بجائے کسی بھی اور شہر میں ہوتا کبھی بھی اتنی بڑی دہشتگرد تنظیم نہ بنتی ۔
راؤ انوار سے تفتیش ایک بہت بڑا چیلنج بنا رہے گا اور جب تک یہ براہ راست کسی سپریم کورٹ کے نگران جج کی قیادت میں نہ ہوئ ، اس کو پکڑنا ، پھانسی لگانا بلکل بے معنی ہو گا ۔ کاش چوہدری اسلم مارا نہ گیا ہوتا بلکہ گرفتار ہوتا اور بتاتا کراچی کی under world کے راز ۔ داؤد ابراہیم نے دبئ کی ایک اخبار کو بہت سال پہلے کہا تھا کہ جتنا آسان کراچی کی under world میں آپریٹ کرنا ہے کسی اور شہر میں نہیں ۔ اسی لیے تو چینی کراچی کو سونے کی کان کہتے ہیں ۔
خاص طور پر اب جب کہ کالا دھن پوری دنیا میں ختم ہونے کو جا رہا ہے ۔ اس سے مکمل چھٹکارے کا صرف واحد حل یہ ہے کہ اس کہ سارے مہرے ، سارے کرتب ، سب سازو سامان نیست و نابود کر دیا جائے ۔ یہ یقینا چیف جسٹس کے کیے بہت بڑا امتحان ہو گا ۔
پاکستان پائندہ باد
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔