اندازاً 1870 میں کھنچی یہ تصویر، بادشاہی مسجد کے پہلو سے لگی رنجیت سنگھ کی سمادھی کی ہے
27 جون 1839 کومہاراجہ کادیہانت ہواتواگلےروزاسی مقام پرچتاکوآگ دکھائی گئی۔ اس دن آگ کےشعلوں کی لپٹوں میں بھسم ہونے والوں میں مہاراجہ کےعلاوہ اورلوگ بھی تھے
صاحبو، چند سال اُدھر کا ذکر ہے، بادشاہی مسجد سے پلٹتے، شاہی قلعے سے پہلو بچاتے ہم واپسی کے راستے پر تھےکہ عین رنجیت سنگھ کی مڑھی کے گیٹ کے سامنے ڈاکٹر صاحب و صاحبہ کی لاڈلی مہرو نے سمادھی دیکھنے کی فرمائش کردی۔ اس سے پہلے کہ ہم صورتحال کو سمجھتے ہمیں سنبھلنے کا موقع دیئے بغیر اپنی سیماب صفت طبیعت کے زیرِاثر مہرو بی بی خاردارتار اور VLC Player سے ملتی جلتی رکاوٹوں کی بساط کو ڈھائی چال میں ٹاپ سیدھا مین گیٹ کے پہریدار پولیس کے سنتری سے جاٹکرائیں۔
ان دونوں کے درمیان کیا مکالمہ ہوا، یہ ہم نہیں جانتے لیکن کچھ دور سے ہم نے یہ ضرور بھانپ لیا تھا کہ پولیس والا اس دلیرانہ مڈبھیڑ سے گڑبڑاسا گیا تھا اور اپنے اوسان بحال کرنے کی تگ و دو میں تھا۔ ادھر ہماری مشکل یہ تھی کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی میں داخلے کے لیے پہلے سے اجازت نامہ لینا پڑتا ہے جو اسوقت ہمارے پاس نہیں تھا۔
سونےپہ سہاگہ یہ کہ اس دن ہمارےساتھ ڈاکٹرصاحب وصاحبہ اور مہرو کےعلاوہ غیرملکی مہمان بھی تھے، تو اجازت نامےکےبغیرداخلہ ناممکن تھا۔
چنددن قبل ہی میں سمادھی دیکھنےکی نیت سےیہاں آیاتھا۔ ایک ریٹائرڈفوجی کےکوائف دکھانےپررنجیت سنگھ سمادھ کی سیکیورٹی پرمتعین ایک اہلکار سےسلام دعا ہوگئی۔
اندرلوگ خال خال ہی تھے، زیادہ تر پولیس کی نفری اور انتظام وانصرام سےمتعلق لوگ تھے۔ اپنےدوست اہلکار کےساتھ رنجیت سنگھ، اوردوسری مڑھیاں دیکھ ہم گرودوارہ ڈیرہ صاحب آگئے
اس دن دوپہر کاکھانامیں نےسکھ سیواداروں کی سنگت میں گپ شپ لگاتےگردوارے کےلنگر سےکھایا اوراپنے راستے کا مسافر ہوا۔
کرناخداکایہ ہواکہ اس دن جب مہروپولیس سنتری سےنبردآزماتھیں، سمادھی کےاندرسےصورتحال کاجائزہ لینےوہی ہمارادوست اہلکارباہر آیااوردورسےہمیں پہچان لیا۔ ایک چنددن پرانی دوستی کابھرم رکھتے ہوئےہمارےاہلکار نےمعززمہمانان بشمول غیرملکی دوستوں کےلیےنہ صرف یہ کہ پروانۂ راہداری کاانتظام کروایا بلکہ اندرسیواداروں کوخبربھی کروادی۔ تابڑتوڑسوالات کی زد میں آئے سنتری نےجب اشارہ ملنےپرگیٹ کھولاتومہرونےپلٹ کرڈاکٹرصاحب و دیگریاتریوں پرایک فاتحانہ نظرڈالی۔ ان آنکھوں کی چمک دیکھ کر ہماراایک پل کوبھی دل نہیں کیاکہ ہم مہروکی اس خوش فہمی کو ایک بےمہرحقیقت کی بھینٹ چڑھادیں۔
صاحبواندر ایک اورحیرت ہماری منتظرتھی۔ وہ لوگ جن کےساتھ بیٹھ کرچنددن قبل میں نےگرو کالنگرکھایاتھا، وہ اسقدراپنائیت سےملے کہ میں خود شرمندہ ساہوگیا۔ میرےمہمان ان کےمہمانِ خصوصی ٹھہرے جنہیں اب وہ کشاں کشاں گرودوارےاور سمادھی کے کنڈکٹڈ ٹور پرلے چلے۔سمادھی اورگرودوارہ گھوم لینےکےبعد جب ہم لنگرمیں بیٹھےبھوجن کرتےتھےاورسیوادارایک بےتکلفی میں جوکہ ایک بےلوث انسانی تعلق سےجنم لیتی ہےمجھ سےگپ شپ لگاتےباقی لوگوں کےسامنےکھانا پروستےتھےتو ڈاکٹرصاحب ایک حیرت کےساتھ دیکھتےتھےکہ رنجیت سنگھ کی سمادھی کےسیواداراورسیکیورٹی اہلکاروں سےمیری کیا واقفیت ہے۔
صاحبو اس دن لاہور میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی پر مجھے کھڑی شریف والے میاں محمد بخش کی یاد آئی
دنیا اتے کم نہ آیا اوکھے سوکھے ویلے
اوس بے فیضے سنگی کولوں بہتر یار اکیلے
دیکھیےبات رنجیت سنگھ کےدیہانت اورچتا کوآگ دکھانےکی ہورہی تھی اورہم ایک اور ہی قصےکی لذت میں بہہ کرکہیں اورنکل گئے۔واپس رنجیت سنگھ کی چتا کی اورپلٹتے ہیں۔
اگرآپ آج کی تاریخ میں رنجیت سنگھ کی سمادھی کارُخ کرتےہیں تو عمارت کےاندرعین مرکزمیں ایستادہ
*photos by
@_mwaseem_
سنگِ مرمرکی چھتری پالکی صاحب بن گئی ہےجہاں گروگرنتھ کا پاٹھ ہوتاہے۔ 1870 میں شملہ سےآئے لاہورمیں رکے J. Duguid نے سمادھی کودیکھاتو اس چھتری پرچھوٹےبڑےمرتبانوں میں استھیاں رکھی تھیں۔ Duguid کےخطوط ’لیٹرزفرام انڈیااینڈکشمیر‘ ہمیں کچھ تفصیل اوررنجیت سنگھ کی مڑھی کی تصویردکھاتےہیں۔
سنگ مرمر کی چھتری کے نیچے مرکز میں ایک سوپ کے پیالے سے مشابہ مرتبان میں مہاراجہ کی استھیاں، اس کے گرد پہلی قطارمیں نفاست سے تراشے ہوئے چار برج ستی ہوئی مہارانیوں کی باقیات لیے، اور باہر کی طرف سات سادہ کمتر درجے کےبرتنوں میں وہ کچھ جو سات درباری کنیزوں کے جل جانے کے بعد بچ پایا۔
یہاں Duguid ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اسی مڑھی پر ایک طرف کو الگ تھلگ رکھی ایک اور شناخت بھی تھی۔ علامتی طور پر رکھا یہ آٹھواں مرتبان خالی تھا کہ اس میں کسی کی استھیاں نہیں تھی۔ یہ یادگار تھا اس مہارانی کی جو چتا کو اگ لگتے سمے پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی مگر مہاراجہ کے ساتھ ستی نہیں ہوئی۔
عزیزقارئین، تحریر کےآغازمیں جب ہم نےکہاتھاکہ مہاراجہ کی جلتی چتامیں کچھ اورلوگ بھی تھےتو اس میں کچھ نہ کچھ سچائی تو تھی۔ 28 جون 1839 کی اس شام روشنائی دروازےکےپارراوی کے پانیوں کوچھوتی چتاسےجب آگ کےشعلےلپکتےتھےتووہیں شیرِلاہورکےبےجان جسم کی قربت میں کچھ سانس لیتےوجودبھی جلتےتھے۔
اس شام مہاراجہ کی چاررانیاں ستی ہوگئیں۔ کشمیری شالوں اور کمخواب کےتھانوں سےڈھکی ایک عالیشان ناؤ سےمشابہ اس چتا میں چارمہارانیوں کےپہلومیں دربارکی سات کنیزیں بھی لقمۂ اجل بنیں۔ اس واقعےکی یورپین روایتوں کےمطابق یہ سات کشمیرسےلائی زرخریدلونڈیاں تھیں جن کی عمریں کم وبیش چودہ پندرہ برس رہی ہوں گی۔
اب یہاں Dr Martin Honigberger، رنجیت سنگھ کے دربار کے ’مارٹن صاحب‘ ہمیں ایک مہارانی کےچتا کی طرف قدموں سے ناپے ’موت کے سفر‘ کی روداد بتاتے ہیں۔ سنسار چند کی بیٹی، رانی مہتاب دیوی دنیا و مافیہا سے بیگانہ چلتی باقی تین مہارانیوں کے ساتھ سامنےلگی سیڑھی کےپار چتامیں اتررنجیت سنگھ کےبےجان جسم کےسر کی سمت بیٹھ گئیں۔
قدموں کی جگہ کچھ دیر میں لونڈیوں نے لے لینی تھی۔ ان سب کو ایک بڑی چادر سےڈھک بہت ساگھی اور تیل ڈال چتاکو آگ دکھادی گئی۔ ایک بے جان اورگیارہ جاندارجسموں کونگلنے والی اس چتا کی آگ دو دن تک سلگتی رہی مہاراجہ اور ستی ہوجانے والوں کی استھیاں بعد ازاں جاہ وحشم سے مزین ایک قافلے میں گنگا میں بہانے کو روانہ کردی گئی تھیں۔
Duguid نے سنگ مرمر کی چھتری کے سائے تلے جو مرتبان ہمیں دکھائے تھے ان میں ان استھیوں کا باقی ماندہ حصہ رکھا گیا تھا جو گنگا اشنان سے بچ گیا تھا۔
کہنے والے کہتےہیں کہ یہ استھیاں ایک عرصے تک رنجیت سنگھ کی مڑھی کی زینت بنی رہیں یہانتک کہ نوے کے عشرے کے شروع میں انہیں یہاں سے ہٹا دیا گیا۔ اگر آپ آج کی تاریخ میں رنجیت سنگھ کی سمادھی کے مسافر ہوتے ہیں تو سنگِ مرمر کی یہ چھتری اب پالکی صاحب بن گئی ہے،اور استھیوں سے مرصع مرتبانوں کی اب کوئی خبر نہیں۔ ان کی بابت پوچھے جانے والےسوال بھی گرو گرنتھ کے پاٹھ کی آوازوں میں دب جاتے ہیں۔
صاحب یہاں سے ہم اپنی اس رانی کی اور پلٹتے ہیں جس کے نام کا آٹھواں علامتی مرتبان رنجیت سنگھ کی مڑھی پر رکھا تھا۔
جی ہاں وہی جوچتاپرتوپھوٹ پھوٹ کرروئی تھی مگرمہاراجہ کے ساتھ ستی ہونےسےدامن بچاگئی۔ مہاراجہ کےسورگباش ہونےکاجو قصہ دھیان سنگھ کی زبانی ہم تک پہنچتاہےوہیں ہمیں ایک نام نظر پڑتاہے، گُل بیگم
سوہن لال سُوری سکھرچکیہ مِسل کامُنشی، رنجیت سنگھ کےعہد میں لاہور دربار سےوکیل کی حیثیت میں منسلک تھا۔رنجیت سنگھ کےدربارکی سرکاری تزک سوہن لال کےقلم سےپانچ ضخیم جلدوں(دفتروں)میں ہم تک پہنچتی ہے۔ عمدۃ التواریخ لاہورکےدرباری روزنامچےاور مہاراجہ کی مصروفیات کی ایک مفصل دستاویز ہے۔ اوپر بیان کیا گیا دھیان سنگھ کا قصہ ہم تک عمدۃ التواریخ کے پنوں کی وساطت سے ہی پہنچتا ہے۔
جب مہاراجہ کا بے جان جسم چتا کی اور لے جانے کو اٹھایا گیا تو وہاں کھڑی تمام رانیاں اور گُل بیگم پھوُٹ پھُوٹ کر رونے لگیں یہانتک کہ ہوش وحواس سے بیگانہ ہوکے زمین پر گرپڑیں۔ اب یہاں تاریخ کو کچھ قصہ گوئی کا تڑکا لگائیں تو پرانے لاہور کی کہانیاں کہنے والے مجید شیخ بتاتے ہیں کہ
گلُ بیگم مہاراجہ کے ساتھ ستی ہوجانے کے ارادے سے خود چل کر چتا تک گئی مگر اسے اجازت نہیں ملی کہ اسلام میں اس رسم کی ممانعت تھی۔ صاحبو گُل بیگم، مائی موراں کے بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ کی دوسری مسلمان رانی تھی۔ امرتسر کی رقاصہ جس کی زلفِ گرہ گیر، معاف کیجیے گا پیروں میں بندھی پائل کا مہاراجہ تب اسیر ہوا جبکہ روپڑ میں لاہور دربار کے انگریز مہمانوں کے اعزاز میں دی گئی تقریب میں گل بیگم محوِ رقص تھی۔ اگلےہی سال 1832 کے ستمبر میں ایک پروقار شاہی تقریب میں گُل بیگم رنجیت سنگھ کے عقد میں آگئی۔ اکیاون سال کی عمر میں یہ رنجیت سنگھ کی آخری شادی تھی۔
اگر آپ اندرون لاہور کی بھول بھلیوں میں گم ہوجانے پر راضی ہوں تو رنگ محل کے پاس جہاں شاہ عالمی روڈ سے بازار صداکاراں کی شاخ نکلتی ہے وہیں تھوڑا آگے جاکر کوچہ گل بیگم ہے۔ یہاں کبھی رنجیت سنگھ کی دوسری مسلمان بیوی گُل بہار بیگم کا بسیرا تھا۔
گُل بیگم کی مہاراجہ سے شادی بذاتِ خود ایک عالیشان شاہی تقریب تھی جس کی روادا سوہن لال سوری کی عمدۃ التواریخ ایک تفصیل میں ہمیں بتاتی ہے۔
اس روداد میں کچھ گُل بیگم سے بیاہ کی چاہ میں دستِ پادشاہی حنائی رنگ میں رنگنے کا ذکر ہے تو کچھ تذکرہ محفلِ عیش ونشاط کا بھی ہے۔
اورجب ہردو سےفرصت پائی تو رنجیت سنگھ ہرمندرصاحب کایاتری ہواکہ وہاں کےبھائی صاحبان کونذرونیاز گزارنے کےساتھ کچھ حیلہ گناہوں سےنجات کابھی کیا جائے۔
اور اس سب کے بعد جب شاہی بارات چلی ہے تو کچھ اس دھج سے کہ مہاراجہ خود زعفرانی ملبوس میں سجا، زروجواہر سےلدا اک سُرور کے عالم میں چلا۔
فرمانِ شاہی کی رو سے خدمت گاروں کو حکم ہوا کہ نقرئی محلات میں فرش کی جگہ خود بچھ جائیں۔ امرتسر اور لاہور کی تمام طوائفوں کو روزمرہ کا کام دھندا چھوڑ انہی سِلور بنگلوز میں حاضر ہونے کا حکم تھا۔
اور پھر مہاراجہ اور گُل بیگم نے اپنی نشستیں سنبھالیں تو مہاراجہ کے سہرے کی لڑیوں میں گلاب کے پھول اور موتی جڑے تھے تو اُدھر گل بیگم کی ناک کی آرائش ایک نقرئی نتھنی تھی جس میں ایک موتی جھلملاتا تھا۔ اور پھر کچھ یوں ہواکہ بیگم صاحبہ کو گُل بہار بیگم کا خطاب عطا ہوا۔
شادی انجام پائی توشاہی جوڑاحجلۂ عروسی سمیت لاہورسےباہرکی شکارگاہ کونکل کھڑاہوا۔ 1832کےدسمبرمیں مہاراجہ اورگُل بیگم لاہورکوواپس ہوئےتودونوں مستی گیٹ سےاندرداخل ہوتےہاتھی کے ہودے پرکچھ اس ناز سےبیٹھےتھےکہ حضوری باغ تک کےراستےمیں استقبال کوجمع ہوئی رعایاپراشرفیوں کی بارش ہوتی رہی۔
اب مجیدشیخ ہمیں بتاتےہیں کہ مہاراجہ سے شادی کے لیے گُل بیگم نے ایک شرط رکھی تھی اوروہ یہ کہ رنجیت سنگھ لاہور سےامرتسر آتی بارات کے ہمراہ ننگے پاؤں پیدل چل کر آئے گا تو بات بنے گی۔ گُل بیگم کے لیے یہ بادشاہ کی محبت کو آزمانےکا کڑا نسخہ تھا۔کہنے والے کہتےہیں کہ لاہور ۔ امرتسر کے اس راستے کو ہموار کرنے کے لیےکہ کہیں مہاراجہ کے پائے نازک میں موچ نہ آجائے شاہی دربار سے مزدوروں کی ایک پوری فوج مامور کی گئی۔ اور یہ کہ بارات والے دن مہاراجہ پنگھٹ کی اس کٹھن ڈگر پر ننگے پیر چلا بھی۔ اب پاپوش سے بے نیاز قدمِ پادشاہی نے لاہور سے امرتسر کی اور کتنا فاصلہ طے کیا، اس پرتاریخ دان اورکہانی کاردونوں خاموش ہیں۔ صاحبو گُل بیگم سے مہاراجہ کی کوئی اولاد نہیں تھی اوررنجیت سنگھ کی چتاپرآنسو بہاتی گُل بہار بیگم بعدکے دنوں میں گوشہ نشین ہوگئی۔ پنجاب پرانگریزوں کاقبضہ ہونےکےبعدرنجیت سنگھ کےوارث کی حیثیت سےبیگم صاحبہ برٹش دربارسےسالانہ پنشن پاتی رہیں۔
اگر آپ کسی اتوارلاہور کےمیانی صاحب کی بےکراں وسعتوں کو کھنگال لینےکا ارادہ کرکےنکلیں اورقسمت بھی کچھ کچھ مہربان ہوتو بہاولپور روڈ سےاِس طرف جہاں قبرستان کاجنوب مغربی کنارہ ہےآپ باغ گُل بیگم پہنچ جاتے ہیں ۔
یہ وہ جگہ ہے جہاں بعد کے دنوں میں گُل بیگم اندرون لاہور سے نکل مزنگ کےپڑوس میں آبسی تھی اوریہیں مہاراجہ کےگزرنےکےلگ بھگ سترہ برس بعدگُل بہاربیگم نےشاندارباغ تعمیرکروایا۔ اس باغ کی شہرت کی وجہ سےیہ علاقہ باغ گُل بیگم کہلاتاہے
باغ کی نگہبان رخصت ہوئی تورکھوالےبھی غافل ہوگئے۔ لاہورکےبہت سےباغوں کی طرح گُلبہار بیگم کاباغ امتدادِزمانہ کی نظرہوا
اب یہاں اگرکچھ بچاہے توایک مسجدکی باقیات اورشکستگی کی تصویرایک مزار۔
باہرکی بےرونقی اوراندر کااندھیرا اس بات سےڈراتا ہےکہ یہ مدفن اب بھوتوں اورچمگادڑوں کی آرامگاہ ہوگا۔ اگرآپ مستقل مزاج اور مضبوط اعصاب کےمالک ہیں جیسے کہ ہمارے لاہوری دوست ذیشان تو مقبرے کے اندر جانے پر ایک پوشیدہ جہانِ رنگ وبو کی پرتیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔
وقت کی دھول کی تہوں میں چھپے نقش ونگار، بیل بوٹے اور تعمیراتی نزاکتیں گُل بہار بیگم کے ذوق کی گواہی دیتی ہیں ۔ اسی شکستہ مزار کی ایک محراب کی قربت میں گُل بہار بیگم کی شکستہ قبر ہے۔
میانی صاحب کے ایک گمنام گوشے میں دفن لاہور کی اس رانی کا لاہور کے دربار میں ایک دبدبہ ہوا کرتا تھا کہ یہ رنجیت سنگھ سے ایک عہد کے عشق کا قصہ ہے۔ مہاراجہ کےجرمن طبیب ’مارٹن صاحب‘ ہمیں بتاتے ہیں کہ مہاراجہ کے آخری دنوں میں گُل بیگم نے رنجیت سنگھ کی بہت دیکھ بھال کی۔
کوئی بعید نہیں کہ 28 جون 1839 کی اس شام جب مہاراجہ کی چتا کو آگ دکھائی جارہی تھی تو فرطِ جذبات میں آکر گُل بہار بیگم ستی ہونے کو آگے بڑھی ہوگی اور جب کسی برٹش افسر نے وجہ پوچھی ہوگی تو مجید شیخ کےالفاظ میں لاہور کی اس رانی نے کہا ہوگا کہ اگر رنجیت سنگھ میرے لیے لاہور سے پیدل امرتسر آسکتا ہے تو کم سے کم اتنا تو میں بھی کرسکتی ہوں کہ مہاراجہ کی جلتی چتا پر نثار ہوجاؤں۔
___
پسِ تحریر
ـــ
ہماری اس کہانی کوکہنے کا کریڈٹ مہرو کو جاتا ہے کہ ان کی فرمائش کی بدولت اس دن ہم مہاراجہ کی سمادھی کو دیکھنے چلے آئے۔ صاحبو زندگی ہماری مہرو پر کچھ زیادہ مہربان نہیں رہی۔ بعد کے دنوں میں آسٹریلیامیں پیش آئےایک حادثے کےبعدوہ بہت عرصہ ہوش وخردکی دنیا سےبیگانہ رہیں۔
اب بھی وہ اپنے والدین ڈاکٹر صاحب و صاحبہ کی زیرِنگہداشت نارمل زندگی کو پلٹنے کا کٹھن اور صبرآزما سفر طے کررہی ہیں۔ ہمارے پڑھنے والوں سے مہرو کے حق میں صحتیابی، ہمت اور حوصلے کی دعا کی درخواست ہے۔ آمین
کلماتِ تشکر
ـــ
اس تھریڈ میں رنجیت سنگھ کی سمادھی اور پالکی صاحب کی حالیہ تصاویر ماریہ وسیم
@_mwaseem_
کی ملکیت ہیں۔ ہم پر انکا شکریہ واجب ہے۔
گل بہار بیگم کے مقبرے کی تصاویر ہمارے لاہوری دوست ذیشان احمد کی عنایت ہیں۔
کوکوز ڈین میں کھینچی گئی تصویر 2014 کی ہے اور اس دن کی ہے جس دن ہمارے مہمان رنجیت سنگھ کی سمادھی دیکھ کر آئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس عید پر یہ تصویر سانجھی کی جو اس داستان کو کہہ دینے کا محرک بنی۔ کچھ اس سبب سے بھی یہ ہماری پروفائل پکچر کی جگہ سجی ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...